انسانی جان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا
جاسکتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے کسی ایک شخص کی جان
بچائی گویا اس نے ساری انسانیت کو بچایا انسانی جان کی مزید اہمیت اس بیان
مقدس سے بھی اجاگر ہوتی ہے کہ اگر بیت اﷲ کو کوئی گراکر دوبارہ بنادے تو
آپؐ نے فرمایا مجھے اتنا دکھ نہیں ہوگا جتنا ایک انسان کا ناحق خون بہانے
پر ہوتا ہے علاوہ ازیں آپ کی زندگی مبارکہ ایسے متعدد واقعات سے مزین ہے کہ
آپؐ نے انسان تو انسان جانور اور پودوں کو بھی بے جا نقصان اور ایذا
اپہنچانے سے منع فرمایا دوسروں کی داد رسی خدمت اور مدد کے شعار کو اپنے
قول و فعل سے ثابت فرمایا اور آج یورپ بھی اسی نظریے پر گامزن ہے کہ انسانی
جان کو بچانے کیلئے مختلف قسم کے تجربات کے بعد ادویات کی تیاری کررہا ہے
اور کچھ روز قبل ایسے ہی تین سائنسدانوں کو نوبل انعام سے نوازا گیا جنہوں
نے خون میں آکسیجن کی سطح اور اس سے ہونے والی کمی بیشی کی بنا پر مختلف
بیماریوں کے علاج میں ممد و معاون ہونا ثابت ان دو سائنسدانوں میں سے دو کا
تعلق امریکہ اور ایک کا برطانیہ سے ہے2019 کیلئے سر پیٹرریکلیف،ولیم کیا
لین اور گریگ سمینزاکو خون کی کمی اور کینسر کے علاج کیلئے نئے طریقے
دریافت اورعلاج میں مدد پرنوبل انعام کے ساتھ ساتھ90 لاکھ نارویجن کرونر
نقد انعام بھی دیا گیاان کی تحقیق کے مطابق جسم میں آکسیجن کی سطح جسم کی
موجودہ جسمانی نوعیت اور حالت پر تبدیل ہوتی رہتی ہے ورزش کرنے زیادہ بلندی
پر جانے یا کسی زخم کے لگنے کی صورت میں آکسیجن کی سطح جسم میں کم ہوجاتی
ہے اور خلیات بہت تیزی سے اس کے مطابق خود کو تبدیل کر لیتے ہیں باالفاظ
دیگر آکسیجن جسم کی فہم وفراست رکھتے ہوئے خود کو تبدیل کرتی ہے اور بطور
مدافعتی نظام کام کرتی ہے اور خون کے سرخ خلیوں کے بننے اور ان کی شریانوں
کی مرمت کا عمل شروع ہوجاتا ہے اسی بنیاد پر ایسی ادویات متعارف کرائی
جارہی ہیں کہ جو خون میں آکسیجن کی کمی کا تاثر قائم کریں تاکہ خون کی کمی
پر قابو پانے میں موثر ثابت ہوسکیں علاوہ ازیں کینسر کی رسولیاں گلٹیاں اور
پھنسیاں جو کہ خون اور شریانوں کے بننے کے عمل میں رکاوٹ بنتی ہیں ان کو
ریورس کرکے کینسر کے علاج میں معاون بنایا جاسکے۔
اب بات کرتے ہیں پاکستان کی جہاں پر ان کا مطمع نظر یا سوچنے کی حد کیا ہے
کہ ابھی حال ہی میں ایک 20 رکنی کمیٹی تشکیل دے کر اس کو اس بات کی دو روزہ
ٹریننگ دی گئی ہے کہ ہو پاکستان میں بنائی جانے اور فروخت ہونے والی ادویات
کو چیک کریں گی آیا کہ وہ عالمی معیا رکے مطابق ہیں کہ نہیں۔سبحان اﷲ،ٹیم
کے ارکان ملک بھر کی تمام رجسٹرڈ ادویہ ساز کمپنیوں کا آڈٹ پول کے ذریعے
رسک بیس معائنہ کریں گی اور اس بات کو ملحوظ خاطررکھا جائے گا کہ پاکستان
میں بنائی جانے والی ادویات میں جی پی ایم جو کہ عالمی معیار کی گائیڈلائن
ہے اس پر عملدرآمد ہورہا ہے کہ نہیں یعنی کہ ہمارے پاس ابھی تک ایسا کوئی
سسٹم یا ٹیم موجود نہیں تھی کہ جو اس بات کو جانچ سکے کہ مریضوں اور صحت
مند انسانوں کو دوائیوں کے نام پر کیا کھلایا جارہا ہے اور ان کے جسموں میں
کیا انجیکٹ کیا جارہا ہے ۔
70سال گزرنے کے بعد اس بات کا کھوج لگانے کی فکر کی جارہی ہے کہ ہماری
ادویات عالمی معیار کی بھی ہیں کہ نہیں۔افسوس صد افسوس ہمیں تو اب تک ان
امور اور مسائل کا ادراک ہونا چاہیے تھا ہمیں تو اب اس طرف توجہ مبذول کرنی
اور کرانی چاہئے تھی کہ دوائیوں کی قیمتوں کا آسمان کو چھونا کس طرح سے
غریب اور متوسط طبقے کی جان لے رہاہے علاج معالجے اور اس میں استعمال ہونے
والی ادویات کی بے لگام قیمتیں مریضوں کوو قت سے پہلے ہی لاغر اور ذہنی
مریض بنا رہی ہیں دل کے امراض میں استعمال ہونے والی ادویات تین گنا مہنگی
کردی گئیں ہیں 100 روپے والی دوائی300-500 روپے تک بڑھا کرفروخت کی جارہی
ہیں حکومت کی جانب سے کوئی ردعمل کوئی ایکشن کوائی لائحہ عمل سامنے نہیں
آرہا ہے گڈ گورننس کی چڑیا کہیں پھڑ پھڑاتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی ہے بڑے
بڑے شکاری باز نما انسانوں نے اس چڑیا کو کہیں راستے میں ہی دبوچ لیا ہے گڈ
گورننس بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ گوننس ہی دکھائی نہیں دیرہی غریب
کیلئے ہر جگہ گورننس کے کوڑے موجود ہیں جو کہ ان پر مسلسل برس رہے ہیں ان
کی کھال ادھیڑ رہے ہیں جبکہ کوڑے برسانے والے اشرافیہ کوکوئی پوچھنے والا
نہیں۔ جب ایک ماں کو پرچی دے کرڈاکٹر کہتا ہے کہ اسے لاہور لے جانا پڑے گا
تو وہ کانپتے ہاتھوں سے اس پرچی کو پکڑتی ہے اس کی آنکھوں سے گرنے والے
آنسو اس پرچی کے نسخے کو مٹادیتے ہیں اور وہ یہ کہتی ہوئی پرچی پھینک کر
اٹھ جاتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب گھر میں دوائی لانے کے پیسے نہیں لاہور علاج
کیسے ہوگا ۔دل شوگرکینسر ہیپاٹائٹس و دیگر امراض میں مبتلا مریض اور ان کے
لواحقین روزانہ میڈیکل سٹورز پر کھڑے سٹور مالکان سے الجھ رہے ہوتے ہیں بحث
کررہے ہوتے ہیں کہ سابق نسخہ تو پانچ سو روپے کا بنا تھا اب یہی نسخہ 1500
روپے کا کیسے ہوگیا ہے اسی طرح سرکار ہسپتالوں میں پرچی کی فیس بڑھادینا
بذات خود حکومتی نااہلی کامنہ بولتا ثبوت ہے اور ستم در ستم یہ کہ ان
ہسپتالوں میں ادویات ایم ایس اور خاص لوگوں کی مرضی و منشا کے مطابق
منگوائی جاتی ہیں جن میں مریض کو درست کرنے کی تاثیر کی بجائے اس کیلئے موت
کا سامان پیدا کرنے کے مترادف ہے حکومت کو اس طرف توجہ دینا چاہئے کہ
ادویات کی خریداری میں جو کروڑوں روپے کے گھپلے ہیں اس کا سدباب کیا جائے
علاوہ ازیں عوام کو تعلیم صحت اور ٹرانسپورٹیشن کی بنیادی سہولیات فراہم
کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اگر ادویات کی تیاری میں عالمی معیار کو مدنظر
رکھنا ضروری ہے تو پھر ادویات کی قیمتوں کو قابو کرنا بھی حکومت کی اولین
ڈیوٹی ہے اور پھر دیگر معاملات میں بھی عالمی معیار اور اقدار کو اپنا کر
عوام کو اس سے مستفید کیا جائے
|