پولیو فری پاکستان کیسے؟

پولیو ایک مہلک اور متعدی (چھوت ) کا مرض ہے جو زیادہ ہلاکتوں کا سبب تو نہیں بنتا البتہ اس نے دنیا بھر میں ہزاروں بچوں کو معذور ضرور بنادیا ہے یعنی یہ کہہ لیجیے کہ دنیا بھر کے ہزاروں بچوں میں معذوری کی سب سے بڑی وجہ پولیو کا یہی موذی مرض ہے۔پاکستان کو خصوصی طور پر پولیو کے مرض کی وجہ سے عالمی سطح پر مختلف پابندیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ 2019سے قبل دنیا میں صرف تین ممالک ایسے تھے جن میں پولیو کا جان لیو ا مرض کا وائرس خطرناک سمجھا جارہا تھا ان میں بر اعظم افریقہ کا پسماندہ ترین ملک نائجیریا ،مسلسل جنگوں سے تبا ہ حال ملک افغانستان اور پرائی جنگ میں گرفتاردہشت گردی کیآگمیں جلنے والا ملک پاکستان ہے جہاں جب بھی کوئی بہتری کی کرن جلوہ گر ہونا چاہتی ہے ایک نئی آزمائش اپنے پر پھیلانے کے درپے ہوجاتی ہے ، لیکن رواں برس ان ممالک کی تعداد میں کمی واقع ہوچکی ہے اوربراعظم افریقہ کے انتہائی پسماندہ ترین ملک نائجیریا میں دو ماہ سے پولیو کا کوئی کیس رونما نہ ہونے کے باعث یہاں اس وائرس کا خاتمہ ہوچکا ہے اور عالمی ادارہ صحت (WHO) نے بھی اس کی تصدیق کردی ہے کہ رواں برس نائجیریا میں پولیو کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا تاہم پروٹوکول کے مطابق کسی بھی ملک کو پولیو فری کا سرٹیفیکیٹ اس وقت تک نہیں دیا جاتا جب وہا ں تین سال تک کوئی بھی پولیو کیس رپورٹ نہ اور البتہ انسداد پولیو مہمات کا سلسلہ بدستور جاری رہے ، اس وقت نائجیریا اس طرح کی نگرانی میں ہے اور یہ بھی خوش آئند امر ہی تصور کیا جانا چاہیے کہ وہاں بہرکیف ایک موذی مرض کا وائرس دم توڑ چکا ہے ۔یہاں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ ایک پسماندہ ملک میں اگر پولیو کا وائرس ختم ہوچکا ہے تو ہمارے ملک پاکستان میں میں جو ترقی کی راہوں پر گامزن ہے یہاں کیونکر اس کا خاتمہ ممکن نہیں ہوسکا جبکہ یہاں سب سے زیادہ عرصہ سے انسداد ِ پولیو مہمات بہت مؤثر انداز میں ہوتی چلی آرہی ہیں ۔

اس سے قبل کہ ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ پاکستان میں پولیو کے مرض کے خاتمے کیلئے کیا کچھ اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور پولیو ورکرز کی کیا کاوشیں شاملِ حال رہی ہیں ، ہم پولیو کے بارے میں جان لیتے ہیں کہ اس کی تاریخ کیاہے، اس کی تشخیص کب ، کہاں اور کیسے ہوئی اور سب سے اہم بات یہ کہ یہ پھیلتا کیسے ہے۔

یوں تو پولیو کا جنم قبل از تاریخ ہی ہوچکا تھا لیکن 20ویں صدی عیسوی سے قبل دنیا اس سے مکمل طور پر آگاہ نہیں تھی۔ پولیو کا سب سے پہلا رجسٹرڈ کیس معروف ناول نگار اور شاعر سروالٹر سکاٹ کا تھا جو 1773میں رونما ہوا، ان کی ٹانگ مفلوج ہونے پر انہیں کہا گیا کہ انکی ٹانگ شدید بخار کی وجہ سے مفلوج ہوئی ہے حالانکہ یہ ٹانگ پولیو کے باعث فالج زدہ ہوئی تھی جس کا ادراک اس وقت کے ڈاکٹرز کوئی نہیں تھا۔ پولیو کے بارے میں پہلی رپورٹ 1843میں شائع ہوئی جبکہ 1880تک پولیو کا یہ موذی مرض یورپ سمیت امریکا بھر میں پھیل چکا تھا۔

یہ وبائی مرض 1910میں دنیا بھر کے تمام ترقی یافتہ ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا ۔ پولیو کیسز سے متعلق رپورٹ کے مطابق 1893میں پولیو کے 132کیسز سامنے آئے جن میں 18افراد لقمہ ء اجل بنے۔1907 میں صرف نیویارک شہر میں 25سو کیس رجسٹرڈ ہوئے ۔ 17جون 1916میں امریکا کے ایک سرکاری اعلامیہ کے مطابق ریاست ہائے امریکا میں 27ہزار پولیو کیسز رجسٹرڈ ہوئے جن میں 6ہزار موت کے منہ میں چلے گئے ۔ 1947میں 2720افراد اس وائرس کا شکار ہوکر زندگی کی بازی ہار گئے،1940اور 1950کے درمیانی عرصے میں جب پولیو عروج پر تھا اس وقت دنیا بھر میں سالانہ کی بنیاد پر پانچ لاکھ سے زائد افراد اس کی وجہ سے ہلاک ہوئے یا پھر فالج میں مبتلا ہوئے ۔ بعدازاں پولیو کا یہ وائرس یورپ اور امریکا سے ہوتا ہوا دنیا کے گوشے گوشے کو اپنی لپیٹ میں لینے لگا جس سے ہر جانب تشویش پھیلنے لگی۔

1950 کے اوائل کی بات ہے جب ہوسٹن چلڈرن ہسپتال کے ماہرین کی ایک ٹیم نے انسانی ریشوں سے پولیو وائرس کشید کیا جو بعد میں پولیو ویکسین بنانے کا باعث بنا۔1954میں اس کامیابی پر مذکورہ ٹیم کے سربراہ جان اینڈرز اور ان کی ٹیم کے ممبران کو نوبل پرائز بھی نوازا گیا۔

12اپریل 1955میں جونس سالک نے باقاعدہ طور پر پولیو ویکسین بنانے کا اعلان کیا اور 1957میں پولیو ویکسین کی تیاری کے بعد امریکا میں پہلی بار انسداد ِ پولیو مہم چلائی گئی جس کے نتیجے میں پولیو کیسز کی تعداد 58ہزار سے ک ہوکر56ہزار پر آگئی اور بالآخر 20اگست 1994 میں امریکا کو پولیو فری ہونے کا اعزاز مل گیا۔1988میں عالمی ادارہ صحت (WHO)نے دنیا بھر میں پولیو کے خاتمے کا بیڑا اٹھایا ،اس وقت سوائے چندممالک کے دنیا بھر سے پولیو وائرس کا خاتمہ ہوچکا تھا۔

پولیو سے متعلق اگلا سوال اور اہم ترین سوال یہ ہے کہ آخر یہ موذی مرض پھیلتا کیسے ہے؟ماہرین اس حوالے سے کہتے ہیں کہ یہ ایسا مرض ہے جو چھونے سے پھیلتا ہے ،یعنی اسے ہم چھوت کی بیماری بھی کہ سکتے ہیں جو زیادہ تر بچوں پر حملہ آور ہوتا ہے کیونکہ ان میں قوت ِ مدافعت بہت کم ہوتی ہے ۔یہ مرض متاثرہ شضص کے فضلہ سے پھیلتا ہے ، یہ فضلہ گٹر کی نالیوں میں جاتا ہے اور پانی میں مکس ہوکر دوسروں کو متاثر کرتا ہے، اس کا وائرس ہوا میں پھیل کر ہماری خوراک میں شامل ہوجاتا ہے اور ہم اس خوراک کو استعما ل کرتے ہیں ۔ ہمارے یہاں چونکہ سیوریج کا نظام بہت اچھا نہیں یہی وجہ ہے کہ اس وائرس کو پھیلنے میں زیادہ دقت نہیں ہوتی اور یہ باآسانی ہمیں متاثر کردیتا ہے۔پولیو کا وائرس بچے کے منہ کے ذریعہ جسم میں داخل ہوتا ہے ۔ گلے ، معدے اور آنتوں میں 3سے5روز تک پرورش پاتے ہوئے بخار ، تھکاوٹ، سر درد، قہ، قبض( بعض اوقات دست) ، بازو یا ٹانگ میں درد اور گردن میں اکٹراؤ کا سبب بنتا ہے، پھر یہ وائرس خون میں شامل ہوکر اعصابی نظام پر حملہ آور ہوتا ہے ، بچوں میں چونکہ قوت مدافعت کی کمی ہوتی ہے لہٰذا یہ بچے اس کا آسان ہدف ہوتے ہیں( البتہ وہ افراد جو قوت ِ مدافعت کی کمی میں مبتلا ہوتے ہیں وہ بھی اس کا شکار ہوئے بغیر نہیں رہ پاتے اور کم از کم فالج جیسی کیفیت میں ضرور مبتلا ہوجاتے ہیں)بچوں میں فالج بالعموم مستقلتک ہوتا جو موت اور کم از کم معذوری کا باعث بننے کی ایک وجہ ہے۔

عالمی ادارہ صحتWHO نے بھارت ، بنگلہ دیش اور سر ی لنکا جیسے ممالک سمیت جنوبی ایشیا کو سوائے پاکستان اور افغانستان کے پولیو فری قرار دیدیا ہے جس کے بعد دنیا کی تقریباً 80فیصد آبادی اس وائرس سے محفوظ ہوچکی ہے ، یوں WHOسرٹیفیکیشن میں شامل خطوں کی تعداد 4ہوگئی ہے ۔ عالمی ادارہ صحت کسی بھی ملک کو اس وقت پولیو سے پاک ملک قرار نہیں دیتا جب تک اس ملک میں تین سال کے دوران کوئی پولیو کیس سامنے نہ آجائے ، علاوہ ازیں پولیو وائرس کی لیبارٹری کی بنیاد پر بہترین نگرانی ہو، وائرس کی نشاندہی کی عملی صلاحیت ہو ، رپورٹ ہونے اور باہر سے آنے والے پولیو کیسز سے نمٹنے کی صلاحیت موجود ہو۔WHOکے ریجنل ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ پولیو فری ممالک کو خوشی منانے کے ساتھ ساتھ ان عوامل کی بھی کڑی نگرانی کرنی ہوگی تاکہ یہاں یہ وائرس پھر سے رپورٹ نہ ہو۔ جب تک دنیا بھر سے پولیو کا خاتمہ نہیں ہوجاتا ، تمام ممالک خطرے سے دوچار رہیں گے ۔

دنیا بھر میں انسداد ِ پولیو مہمات کی وجہ سے اس وائرس کا خاتمہ ہوچکا ہے اس کے باوجود پاکستان سے اس مرض کا اب تک خاتمہ کیوں نہیں ہوسکا ایک سب سے بڑ اسوالیہ نشان ہے ، موجودہ صورتحال یہ ہے کہ پولیو کیسز میں ایک بار پھر تیزی سے اضافہ ہو نا شروع ہوگیا ہے جس کی وجہ سے عالمی دباؤ میں بھی اضافہ ہونے جارہا ہے اور عارضی طور پر سفری پابندیوں میں انٹرنیشنل ہیلتھ ریگولیشنز کی ہنگامی کمیٹی جانب سے تین کی توسیع کی سفارش کی جاچکی ہے۔ہنگامی کمیٹی نے پاکستان میں بڑھتے ہوئے پولیو کیسز کے باعث تشویش کااظہار کیا ہے اور اسے عالمی خطرہ قرار دیدیا ہے۔ رواں برس کے اب تک کے اعدادوشمار کے مطابق موثر انسداد ِ پولیو مہمات کے باوجود صوبہ ء سندھ سے 8، کے پی کے سے 53، بلوچستان سے 6جبکہ پنجاب سے 5کیسز رپورٹ ہوئے ہیں ، یعنی مجموعی طور پر کیسز کی تعداد72ہوچکی ہے جو قابل تشویش ہے ۔

پاکستان میں انسدادِ پولیو مہمات کا آغاز 1994 سے ہوا جب پولیو کیسز کی تعداد ہزاروں میں تھی تاہم موثر حکمت علمی کے باعث ان مہمات کو چلایا گیا اور 2000میں یہ تعداد ہزاروں سے سینکڑوں پر آگئی جو ایک بڑی کامیابی تصور کی جانے لگی تھی۔2000میں مجموعی تعداد 200 تھی جو 2012 میں گھٹ کر صرف 52رہ گئی تھیالبتہ اس عرصہ میں 100کے لگ بھگ پولیو ورکرز نے اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کئے ، یہ تعداد اس بات کا عندیہ تھی کہ اگلے ایک دو برس تک پاکستان پولیو ممالک کی فہرست میں شامل ہوجائے گا لیکن اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا واقعہ پیش آنے سے تمام محنت رائیگاں چلی گئی۔ یہاں یہ بات توجہ طلب ہے کہ پولیو کی مہمات سے اسامہ کی ہلاکت کا کیا واسطہ ہوسکتا ہے۔ عام فہم بات ضرور ہوسکتی ہے کہ یہ ایک من گھڑت اور عذرِ لنگ ہو، لیکن حقیقت اس سے الگ یو ں ہے کہ امریکا کو اسامہ بن لادن کی تلاش تھی اور اس کی انٹیلی جنس کے مطابق اسامہ پاکستان میں روپوش تھا، کوئی ذریعہ دستیاب نہ ہونے کے سبب وہ اس تک نہیں پہنچ پارہا تھا، پولیو ورکرز کا کام یہ ہے کہ وہ گھر گھر جاکر نہ صرف پولیو ویکسین بچوں کو پلاتی ہیں بلکہ ان کے ذمہ یہ بھی کام ہوتا ہے کہ وہ اپنے ایریا کے گھرانوں کی تفصیل بھی رجسٹر میں لکھیں تاکہ بچوں کی تعداد کتنی ہے ، سربراہ کون ہے ، مہمان بچہ بھی آیا ہے تو اس کو بھی ویکسین کرنا لازم ہے تاکہ ہر بچہ ، دو قطرے کے پرٹوکول پر عمل کیا جائے اور کوئی بھی بچہ ایسا نہ رہ جائے ۔ یہ ان ورکرز کا کام ہے اور اسی سے علاقے میں وائرس کے خاتمہ کی کوشش ہوتی ہے جو ہدف ہوتا ہے ، مہم کے آغاز سے قبل ڈیٹا لینا بھی لازم ہوتا ہے تاکہ ہدف کا تعین ہوسکے اور ویکسین منگوائی جاسکے۔ ڈاکٹر شکیل آفرید ی کو ان ورکرز کا کو آرڈینیٹر تعینات کیا گیا جو ایریے کے گھرانوں کی تفصیلات کا جائزہ لیکر انسداد ِ پولیو مہم کیلئے انتظامات کرتا تھا۔ گھرانو ں کی تفصیلات میں اسے علم ہوا کہ اسامہ کہاں چھپا بیٹھا ہے اور اس نے نمک حلال کرتے ہوئے اس خبر کو امریکا تک پہنچایا اور یو ں اسامہ کی ہلاکت ہوئی۔ WHO ہمیشہ سے اس بات سے انکاری ہے رہی کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی انسدادِ پولیو میم کا کبھی حصہ رہا ہے لیکن درحقیقت وہ ایک مخصوص وقت کیلئے پولیو ورکرز کے ساتھ کام کرتا رہا ہے۔بات اسامہ کی ہلاکت پر ختم ہوجاتی تو ٹھیک تھی لیکن صورتحال یہ تھی کہ طالبان کے کئی کمانڈرز اپنے اہل و عیال کے ساتھ پاکستان میں روپوش تھے جنہیں اس بات کا ادراک ہوگیا تھا کہ گو کوئی ایجنسی انہیں ڈھونڈ نہیں سکتی لیکن پولیو ورکرز کی ڈیٹا انٹر ی انہیں لازم ہے کہ روپوش نہیں رہنے دیں گے لہٰذا انہوں پولیو مہمات کو امریکی سازش کا نام دیکر مقامی مساجد کے مولویوں کو یہ پیغام عام کرنے کہا کہ یہ ویکسین حرام جانور کی چربی سے تیار کی جاتی ہے اور اس سے امریکیوں کو مسلمانوں کی نسل کشی مقصود ہے ۔ یہ طالبا ن کیلئے اپنی حفاظت کا بہترین پرپیگنڈہ تھا اور کمزور عقیدہ مسلمانوں پر اس کا بہت جلد اثر ہوا اور آج صورتحال یہ کہ 2012میں جو تعداد 52 تھی وہ 2014میں 3سے تجاوز کرگئی اور ہر سال اس کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتاچلاجارہا ہے۔حیران کن صورتحال یہ ہے کہ طالبا ن کے اس پروپیگنڈے کو پاکستان کے باشعور افراد نہیں سمجھ سکے حالانکہ مستند لیبارٹریوں کی رپورٹ بھی عوامی آگاہی کیلئے عام کی جاچکی ہیں ، پاکستان کے تمام مکاتب ِ فکر کے جید علماء کرامنے بھی اس ویکسین کو سوائے دوا کے ہر خیال سے عار ی قرار دیدیا ہے ، عالمی سطح پر بھی مسلم علماء اس بات کی مکمل تصدیق کرچکے ہیں اور گواہی دے چکے ہیں کہ اس ویکسین کی تیاری میں کوئی حرام اجزا نہیں اور نہ ہی یہ نسل کشی کا باعث ہے ۔ البتہ ملک میں تما م تخریبی آلائے کار ، کالعدم تنظیمیں اور وہ جرائم پیشہ افراد جنہیں روپوش رہنا ہے وہ عوامی سطح پر آ ج بھی پولیو ورکرز کے درپے اور لوگوں کو اس ویکسین پلانے انکاری اس لئے بنارہے ہیں تاکہ ان کی روپوشی قائم رہے اور وہ اپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہوجائیں ، حالانکہ وہ صرف اپنا عارضی تحفظ برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور جانتے بھی ہیں کہ ان کا پکڑا جانالازم ہے پھر بھی قوم کو اپاہج ہوتا دیکھ انہیں کوئی حیا نہیں آتی۔

ہم بحیثیت ِ مجموعی ایک باشعور قوم ہیں ، موجودہ دور انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کا دور ہے ، بنا تصدیق کوئی بھی فرد کسی سے کچھ لے کر نہیں کھاتا ، اور نہ کوئی غلط کام ہوتے دیکھ سکتا ہے ، ضروری ہوگیا ہے کہ پولیو ویکسین کی تصدیق کروالی جائے تاکہ شکوک و شبہات نکل جائیں اور ہم اپنے بچوں کو زندگی بھر کی معذوری سے بچالیں ۔ اﷲ تعالی ٰ کی جانب سے عطا کردہ شعور استعمال میں لانا آج کی اہم ضرورت ہے ۔ ہم انسان ہیں اور انسان کا انسان کے بغیر کام ادھورا رہ جاتا ہے ، بین الاقوامی طور بھی یہی صورتحال ہے ، قومیں ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتیں ، عالمی سطح پر پابندیوں سے ہم اکیلے رہ جائیں گے جو انسان کجا کوئی جاندار بھی تصور نہیں کرسکتا کہ وہ اکیلا رہ جائے اور تنہائی کے ساتھ ساتھ معذوری یہ تو ذہن کا کوئی گوشہ بھی نہیں سوچ سکتا ۔ بے وقعت اور بے وقار رہنا ہم جیسی باوقار قوم کا خاصہ نہیں ، ضروری ہے کہ ہم سب اس پر غور کریں ۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Mujahid Shah
About the Author: Mujahid Shah Read More Articles by Mujahid Shah: 60 Articles with 49078 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.