سر سیّد احمد خاں اور ان کے سیکولر افکار کی معنویت

گنگا جمنی تہذیب کے لیے جانا جانے والا ہمارا ملک ہندستان آج جن حالات سے دوچار ہے ، وہ لائقِ تشویش بھی ہیں اور لائقِ عبرت بھی۔ ایسا نہیں کہ وطنِ عزیز نے اس سے قبل انقلابات کا منہ نہیں دیکھا، تاریخ شاہد ہے کہ اس ملک نے ایسے ایسے انقلابات دیکھے ہیں جنھیں بیان کرنے کے لیے بھی دل گُردے کی ضرور ت ہے۔ لیکن مالک کا کرم رہا کہ اس نے ہمیشہ ضرورت کے وقت میں اسی ملک کی خاک سے ایسے عمائدین و قائدین پیدا کیے، جنھوں نے عوام کی رہبری و قیادت کی بھرپور ذمّے داری ادا کی، جب کہ فی زمانہ ہمارا ملک قحط الرجال کا شکار ہے ۔صرف فرنگی دور کی بات کریں تو چند ایسی مسلم شخصیات ملک کے پورے منظر نامے پر چھائی ہوئی نظر آتی ہیں جن کے ذکر کے بغیر تاریخِ ہند کا بیان تو کُجا اس سمت میں مناسب پیش رفت بھی نہیں کی جا سکتی۔اس وقت علمی میدان میں من جملہ دیگر کے دو شخصیات بہت اہم ہیں جو اپنے ہم عصروں پر سبقت لے گئیں: (۱)ایک سر سید احمد خاں (۲) دوسرے مولانا محمد قاسم نانوتوی۔ اول الذکر نے ۱۸۵۷ء کی جنگ میں مسلمانوں کی ہزیمت کے بعد عصری علوم کو پروان چڑھایا تو ثانی الذکر نے دینی علوم کا احیا کیا۔ اب ان دونوں کے افکار و نظریات سے خوشہ چینی تو کی جا سکتی ہے، لیکن رو گردانی نہیں۔سر سید سے جدید علوم کی عظیم درس گاہ- علی گڑھ مسلم یونیورسٹی- اور ثانی الذکر سے علومِ اسلامی کی عظیم درس گاہ -دار العلوم دیوبند- یادگارہے ، جن کے بالواسطہ یا بلا واسطہ فیض یافتگان کی تعداد سیکڑوں ہزاروں نہیں، لاکھوں کی تعداد میں ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ برصغیر کی ہر علمی تحریک ان ہی اداروں کی مرہونِ منت ہے۔ بعض لوگوں نے اپنے مخصوص مزاج یا یارسائیِ عقل و ذہن کی بنا پر ان دو میں سے کسی ایک کے فیض کو تسلیم کر دوسرے کی افادیت سے انحراف کیا تو بعضوں نے ایک دوسرے کا حریف گر دانا، لیکن ایسا کرنا خیر کے حصۂ وافر سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے مترادف ہے۔پروفیسر ظفر احمد صدیقی نے بجا لکھا ہے:’سر سید احمد خاں اور مولانا محمد قاسم نانوتوی کو عام طور پر دو متحارب شخصیتوں کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایم اے او کالج، علی گڑھ اور دارالعلوم دیوبند کو بھی ایک دوسرے کا حریف ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، حالاں کہ فی الواقع ایسا نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بھی محض ایک مفروضہ ہے کہ مولانا محمد قاسم نانوتوی یا اس عہد کے دیگر علماے کرام انگریزی زبان یا دوسرے علومِ جدیدہ کی تعلیم و تحصیل کو ناجائز تصور کرتے اور اس سے روکتے تھے۔ علما کا سر سید سے اختلاف در حقیقت عقاید کی بنیاد پر تھا۔‘( سر سید نمبر،جہانِ کتب، سر سید احمد خاں اور مولانا محمد قاسم نانوتوی)

۱۷؍اکتوبر۱۸۱۷ء یعنی آج سے تقریباً دو سو دو سال قبل’سر سید احمد خاں‘کا اس عالمِ رنگ و بو میں ورود ہوا، اسی مناسبت سے اس تاریخ کو ’سر سید ڈے ‘ کے نام سے منایا جاتا ہے۔ ویسے عقیدت مندوں کی جانب سے سال میں فقط ایک آدھ دن اپنے بڑوں کی تاریخِ ولادت و وفات کے نام سے منا لینا، اور پھر ان کے درس اور عام کیے ہوئے پیغام کو بھلا دینا ایک المیہ ہے، جس کی ہندستانی سماج کو گویا عادت پڑ چکی ہے۔سر سید جیسی عظیم شخصیت کے ساتھ بھی ہمارا یہی رویہ عام ہے۔سرسید کے فکری اثاثے کو بہ اعتبارِ معنویت کسی خاص عہد سے منسوب کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا، وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، ان کے فکری سرمایے کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ آج بھی گلوبلائزیشن کے مختلف چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ،اس لیے کہ وہ زمانے کے نبض شناس شخص تھے ، جن کی دور بیں نظروں نے ملک کے بدلتے ہوئے سماجی و سیاسی حالات کا بہ نظرِ غائر جایزہ لیا تھا، اسی لیے وہ اپنی حکیمانہ فکری بصیرت سے کام لے کر اس مرض کا علاج کرنا چاہتے تھے جس میں مبتلا ہو کر ہندوستانی اقوام ناامیدی، مایوسی اور احساسِ کمتری کا شکار تھے۔ وہ سیکولرزم کے دل دادہ اور کسی بھی قسم کے تعصب کو انسان کی بدترین خصلت قرار دیتے تھے ، ان کا نظریہ یہ تھا کہ اپنے عقیدے اور مذہب پر پختہ ہونا ایک عمدہ صفت ہے لیکن سماجی اور مذہبی معاملات میں تعصب ایک نازیبا بات ہے۔جیسا کہ وہ لکھتے ہیں:’اب ہم یہ بات بتاتے ہیں کہ اپنے مذہب میں پختہ ہونا جدا بات ہے اور یہ ایک نہایت عمدہ صفت ہے جو کسی اہلِ مذہب کے لیے ہو سکتی ہے اور تعصب‘ گو کہ وہ مذہبی باتوں میں کیوں نہ ہو، نہایت برا اور خود مذہب کو نہایت نقصان پہنچانے والا ہے۔‘ (مضمون: تعصب)

سر سید کی نگاہوں کے سامنے جو دور تھا، اس میں انگریزوں کے سب سے بڑے دشمن مسلمان تھے ، جس کی وجہ یہ تھی کہ انگریزوں نے مسلمانوں ہی سے حکومت چھینی تھی، اس لیے اُنھیں سب سے زیادہ خطرہ بھی اُنھیں تھا۔ سر سید نے اس پس منظر کا بہ غور مطالعہ کیا اور اس کے بعد انھیں جو ٹھیک لگا اس کو سر انجام دینے کے لیے کمر بستہ ہوگئے ۔ انھوں نے ایک طرف قوم کو بیدار کرنے کے لیے ان میں تعلیم کا ذوق پیدا کیا تو دوسری طرف انگریزوں کی غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش بھی کی۔ جب کبھی اس موضوع پر گفتگو کی جائے ، ذہن نشین رہنا چاہیے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ انگریزی تعلیم حاصل کرنا عیسائیت کے مترادف سمجھا جاتا تھا،اور سر سید قوم کو جس اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کرنے کے خواہاں تھے اس کا راستہ انگریزی سے ہوکر ہی گزرتا تھا، اس لیے ان کا خیال تھا کہ جدید تعلیم کے بغیر ہندوستان ترقی نہیں کرسکتا، جس کی پاداش میں بعض اہل و نا اہلوں نے ان کی ذاتیات تک پر حملے کیے۔سر سید اور علی گڑھ تحریک دو الگ چیزیں نہیں، اور علی گڑھ تحریک کے متعلق پروفیسر رشید احمد صدیقی کا یہ کہنا بالکل درست ہے:’علی گڑھ(تحریک) کو سمجھنے کے لیے اس کی ضرورت ہے کہ ہم ان حالات و حوادث کا اندازہ لگائیں، جن کے ماتحت یہ ادارہ وجود میں آیا اور ان تدابیر کو پرکھیں جو وقتاً فوقتاً صورتِ حال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اختیار کی گئیں۔ یہ مناسب نہ ہوگا کہ حالات تو آج کے پیشِ نظر رکھیں اور حکم لگائیں ان حوادث پر جو کم و بیش پون صدی پہلے وقوع میں آئے ۔ موجودہ سیکولر جمہوری فضا کو غدر (پہلی جنگِ آزادی) اور ما بعد کی انگریزی قہرمانی سے کیا نسبت؟‘(سر سید شناسی)

سر سید نے اپنے عہد کا پُر بصیرت مطالعہ کیا تھااور اس کے بعد اُنھیں ذاتی طور پرجو راستہ مسلمانوں کوقعرِ مذلت سے نکالنے والا لگا، وہ اُسی راستے پر چل پڑے۔یہ اور بات ہے کہ ان کے موقف سے بہت سوں نے اختلاف کیا،لیکن اس حقیقت کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ انھوں نے جو کچھ کیا، اپنی دانست میں ’صواب‘ سمجھ کر کیا اور اگر ظرف کو ذرا وسیع کرکے دیکھا جائے تو ان کی کاوشوں سے خاطر خواہ فائدہ ہی نہیں بلکہ ایک عہدِ جدید کا آغاز بھی ہوا۔ سر سید پر بہت سے بے جا اعتراضات بھی کیے گیے اور انھیں مخالفتوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ یہ درست ہے کہ سر سید اپنے بہت سے مذہبی خیالات میں آزاد نظر آتے ہیں،ان کے بہت سے تفردات بھی ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ غیروں کے سامنے اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے نہایت دلیر، جری اور ثابت قدم تھے۔ ان کا شاید سب سے بڑا ’جرم‘یہ تھا کہ’ان کے ظاہر وباطن میں یکسانیت تھی اورکوئی اختلاف نہیں تھا‘۔

اس بابت جو غلطی ہوتی ہے وہ یہ کہ آج کے دور پر ماضی کو قیاس کیا جاتا ہے ، جب کہ سر سید نے جس دور میں کام کیا، وہ ایسا پُر آشوب دور تھاکہ مسلمان زوال پذیر بلکہ اپنی عظمتِ رفتہ کے سحر میں مسحور تھے جب کہ ان کی سیاسی قوت تقریباً ختم ہو چکی تھی، اس کے باوجود وہ اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ وہی اب بھی حکمراں ہیں،جس کا ازالہ۱۸۵۷ء کی جنگ کے نتائج سے ہوا۔ ایسے میں سر سید غور وفکر کے بعد جس نتیجے پر پہنچے، وہ یہ تھا کہ سماج حیاتِ اجتماعی کا ایک متحرک اور مسلسل ترقی پذیر مظہر ہے ، جو کبھی ایک منزل پر نہیں ٹھہرتا، ہر وقت بدلتا رہتا ہے ، جس کے ساتھ ساتھ انسانوں کو بھی اپنے معاملات میں لچک کا پہلو اختیار کرنا چاہیے، بنا بریں سر سید نے سیکولرزم کی بھرپور حمایت کی۔

’سیکولرزم‘کی اصطلاح لفظ ’سیکولر‘ سے ماخوذ ہے، جس کے لفظی معنی ’دنیوی‘ہیں۔ مغرب میں اس کی تایخ نہایت قدیم ہے اور ہندستان میں یہ تصور مغرب سے برآمد ہوا ہے، لیکن مغرب سے مشرق تک آتے آتے اس میں بہت سی تبدیلیاں درآئیں، اسی لیے ہندستان میں سیکولر حکومت سے مراد ایک ایسی غیر متعصب حکومت ہے،جو عوام کے درمیان مذہب، نسل، علاقے اور رنگ و زبان کی بنیاد پر کوئی فرق نہ کرے ، جیسا کہ بھارت کے آئین کی ’دفعہ:۲۵‘میں مرقوم ہے ۔سر سید کا بھی یہی ماننا تھا کہ ایک مہذب حکومت کو مذہبی معاملات میں قطعی طور پر غیر متعصب ہونا چاہیے بلکہ وہ تعلیم و تدریس میں بھی اسی کے خواہاں تھے۔بقول عبد الحق:’مسلمانوں کی تباہی و بربادی اور ابتری کو دیکھنے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ قوم کو اس ورطۂ مذلت سے کیوں کر نکالا جائے؟ بہت غور و فکر کے بعد (وہ) اس نتیجے پر پہنچے کہ اس کا علاج صرف تعلیم یعنی جدید مغربی تعلیم ہے۔‘(مطالعہ سرسیداحمد )

اور اصل مرض کی تشخیص ہو جانے کے بعد وہ چاہتے تھے کہ ملک کی تمام قومیں آپس میں مل جل کر پڑھیں اور آگے بڑھیں، جیسا کہ مولانا الطاف حسین حالیؔنے وضاحت کے ساتھ لکھا ہے:’سب سے زیادہ ضروت مسلمانوں کی موجودہ اور آیندہ نسلوں میں اتفاق و یک جہتی و قومی ہمدردی پیدا کرنے کی ہے، جس کے نہ ہونے سے تمام قوم روز بہ روز مضمحل اور تباہ و برباد ہوتی جاتی ہے۔ ۔۔ان میں اتفاق پیدا ہونے کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ ان کی نسلیں اتفاق کے سایے میں نشونما پائیں اور ایک مدت تک ایسی سوسائٹی میں زندگی بسر کریں جہاں مختلف خاندانوں، مختلف صوبوں اور مختلف مذہبوں کے لڑکے ایک ہال میں کھانا کھائیں، ایک مسجد میں نماز پڑھیں، ایک فیلڈ میں مردانہ کھیل کھیلیں، ایک میدان میں گھوڑے دوڑائیں، ایک کلب میں ڈبیٹ کریں، ایک کالج میں پڑھیں اور ایک احاطے میں دن رات سگے بھائیوں کی طرح شیر و شکر ہو کر رہیں اور اس طرح اتفاق کی حلاوت ماں کے دودھ کی طرح اُن کی رگ و پے میں سرایت کر جائے۔‘ (حیاتِ جاوید)

مذکوہ بالا اقتباس سے صاف پر معلوم ہوتا ہے کہ سر سید کے سیکولر افکار بالکل واضح تھے۔انھوں نے ایک دو بار نہیں بار بار پُر زور انداز میں کہا کہ جس قدر سوشل برتاؤ اور باہمی محبت و ارتباط ہندو اور مسلمانوں میں ترقی کرتا ہے، اُنھیں اتنا ہی خوش گوار معلوم ہوتا ہے۔ وہ اپنے مضمون ’ہندو اور مسلمانوں میں ارتباط‘ میں رقم طراز ہیں:’ہم نے متعدد دفع کہا ہے کہ ہندستان ایک خوب صورت دلھن ہے اور ہندو اور مسلمان اُس کی دو آنکھیں ہیں۔ اس کی خوب صورتی اس میں ہے کہ اُ س کی دونوں آنکھیں سلامت و برابر رہیں۔ اگر ان میں سے ایک برابر نہ رہی تو وہ خوب صورت دلھن بھینگی ہو جاوے گی اور اگر ایک آنکھ جاتی رہی تو کانی ہو جاوے گی۔ ہم دونوں کی سوشل حالت قریب قریب ایک ہی سی ہے بلکہ بہت سی عادتیں اور رسمیں مسلمانوں میں ہندوؤں کی آگئی ہیں۔ پس جس قدر ان دوننوں قوموں میں زیادہ تر محبت، زیادہ تر اخلاص، زیادہ تر ایک دوسرے کی امداد بڑھتی جاوے اور ایک دوسرے کو مثل بھائی کے سمجھیں- کیوں کہ ہم وطن بھائی ہونے میں تو کچھ شبہ نہیں-اُسی قدر ہم کو خوشی ہوتی ہے۔‘

وہ دور اور موجودہ دور کئی معنوں میں یکساں ہے، ا س لیے آج بھی سر سید کے اس حکیمانہ عمل اور سیکولر نظریے کی معنویت باقی ہے بلکہ کئی معنوں میں بڑھ گئی ہے۔ اس لیے کہ ہمارے ملک کا وہ آئین و نظام جس کی تعمیر سیکولر بنیادوں پر ہوئی ، آج اس کی بقا و حفاظت کے لیے سر سید کا پڑھایا ہوا یہ سبق پھر سے دہرانے کی ضرورت اور موجودہ صورتِ حال اس کی شدت سے متقاضی ہے تاکہ فرقہ پرست اور شرپسند عناصر کی طرف سے ملک کی فضا کو آلودہ کرنے کی کوششیں ناکام ہو سکیں۔اگر ہمیں ترقی کی راہیں وَا رکھنی ہیں تو ناگزیر ہے کہ اپنے وطنی بھائیوں کے ساتھ کندھے سے کندھا اور قدم سے قدم ملاکر چلنا سیکھیں،اس لیے کہ کسی بھی ملک کی مجموعی ترقی کے لیے اجتماعی کاوشوں کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔
 

Maulana Nadeem Ahmed Ansari
About the Author: Maulana Nadeem Ahmed Ansari Read More Articles by Maulana Nadeem Ahmed Ansari: 285 Articles with 347243 views (M.A., Journalist).. View More