میر اقائدؒ ایک سچا مسلمان ،ایک تاریخی انسان،پاکستان کے
لیے اپنا سب کچھ یعنی زندگی اور مال قربان کرنے والا انسان، دھن کا پکا
انسان ،بانی ِپاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒہے۔تاریخ کا رخ موڑنے والے
ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ نقشہ شاہدہ لطیف صاحبہ
،کہنہ مشق ادیبہ،شاعرہ،نقاد،محقق ، اسلامی روشن خیال صحافی اور صدارتی
انعام یافتہ نے اپنی کتاب ’’قائد اعظم محمد علی جناحؒ :ایک سوانح․․․ ایک
تاریخ‘‘ میں بڑی عرق ریزی سے کھینچا ہے۔ ویسے تو قائدؒ پر کافی کتابیں لکھی
گئی ہیں اور لکھی جاتی رہیں گی مگر اس کتاب میں قائد ؒ کے بچپن سے وفات
اورتحریک آزادی پاکستان کی مفصل تاریخ بیان کر دی ہے۔ قا ری کے لیے کتاب کے
آخر میں ماخذین اور فرہنگ لکھ کر اسے مذید آسان بنا دیا۔ہم نے قائدؒ پر
کافی کتابوں کا مطالعہ کیا اور ان پر تبصرے بھی کیے۔ ہماری ذاتی لائبیریری
میں ایک ذخیرہ جمع ہو گیا ہے۔مگر اس مفصل کتاب کے مطالعہ بعد ان نتیجہ پر
پہنچے ہیں کہ بانی پاکستان کے نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ سے سچی محبت
کرنے والے اہل اقتدار حضرات سے درخواست کرتے ہیں کہ اسے اسلامی جمہوریہ
پاکستان کے تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل کریں تو یہ قائدؒ کی روح اور
پاکستان کے ساتھ انصاف ہو گا۔پاکستان نے اپنی علاقائی زبانوں کی ترقی کی
طرف دھیان نہیں دیا۔ ان علاقائی زبانوں میں بھی اگر اس کتاب کاترجمہ کر کے
پھیلایا جائے تو و ہ پاکستان کی تاریخ سے واقف ہو کر قوم پرستی کی زہر سے
عوام محفوظ ہو سکتے ہیں۔خاص کر اس بات کو مدر نظر رکھتے ہو کہ اسلام دشمنوں
نے ہمارے نئی نسل کے دماغوں سے پاکستان کے دو قومی نظریہ اور پاکستان کے
اسلامی تشخص پر وار کیے ہیں۔ وہ پاکستان کا کھاتے ہیں اور پاکستان کی ہی
جڑیں کاٹتے ہیں۔ پاکستان کو دنیا میں بدنام کر کے پاکستانی حکمرانوں سے
انعام واکرام بھی حاصل کرتے ہیں۔ قائد اعظمؒسچے کھرے سیدھے سادھے مسلمان
ہیں۔ وہ پاکستان کے اسلامی تشخص کے وکیل بھی ہیں۔ سیکولر حضرات ،بانی
پاکستان قائد اعظمؒ کو، جعلی اور جھوٹے واقعات کا سہارا لے کر بے دین
اورسیکولر ثابت کرتے ہیں۔ اس کتاب میں بانی ِپاکستان کی بچپن سے موت ،
اسلام اورپاکستان کے اسلامی تشخص سے والہانہ محبت تک کے حالات قلم بند کیے
گئے ہیں۔تحریک پاکستان کی پل پل کی کہانی ، جد وجہد کے درمیان میں حائل
مشکلات،اپنے پراؤں کے رویے، قائد اعظمؒ کے مدبرانہ فیصلے اور بلا ا ٓخر ر
کامیابی کی کہانی سمو دی گئی ہے۔
دنیا کی واحد عجیب غریب اسلامی ریاست جو مذہب کے نام پر وجود میں آئی
ہے۔اسے ہم برعظیم کے مسلمانوں کو اﷲ تعالی کی طرف سے تحفہ قرار دیتے ہیں۔
کیوں نا ہو کہ جب مسلمانان برعظیم نے اپنے رب سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اے
ہمارے رب ہمیں علیحدہ ریاست عطا کر ۔تاکہ ہم اس مملکت میں تیرے نام کا بول
بالا کریں گے۔ برعظیم کے مسلمانوں کی خواہش اور اﷲ سے وعدے کو بانیِ
پاکستان قائد اعظم ؒ نے اﷲ کے سامنے اس رنگ میں پیش کیا۔کہ پاکستان کامطلب
کیا’’ لا الہ الااﷲ‘‘پھر اﷲ نے مسلمان ِبرعظیم کوپاکستان تشتری میں رکھ کر
پیش کر دیا۔ قرآن کے مطالعہ سے یہ بات اظہر من التمش ہوتی کہ اﷲ حی القیوم
کی سنت ہے کہ جب اس کے بندے اﷲ سے صدق دل سے کچھ مانگتے ہیں۔ تو اﷲ انہیں
ضرور عطا کرتا۔ یہ اﷲ کی نہ بدلنے والی سنت ہے۔اسی لیے ہم مملکت اسلامی
جمہوریہ پاکستان کو مثلِ مدینہ اسلامی فلاحی جہادی ریاست کہتے اور لکھتے
رہتے ہیں۔
دنیا کی واحد مدینہ کی اسلامی ریاست جو سب سے پہلے ربِ کا ئنات کی وحی کے
ذریعے اور ہدایت کے مطابق اﷲ کے پیغمبر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے
ہاتھوں مدینہ منورہ میں قائم ہوئی تھی۔ پھر اسلامی ریاست کو خلفائے راشدین
ؓ نے اس دنیا میں کامیابی سے چلا کر دکھایا تھا۔پھر اسی اسلامی ریاست کی
ایک شکل نے اس دنیا پر کامیابی سے بارہ(۱۲) سو سال حکمرانی کے ڈھنکے بجائے
تھے۔مدینہ کی اسلامی ریاست اب بھی مسلمانوں کی آئیڈل ہے۔ ہر مسلمان ان کو
دوبارا، اس دنیا میں قائم و وائم دیکھنے کی خواہش اپنے دل میں پالے ہوئے
ہے۔ اسی کا اظہار شاعر اسلام علامہ اقبالؒ نے اس طر ح بیان کیاکہ:۔
نکل کے صحرا جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا۔
اسی کی تکمیل کو رب کائنات نے ۱۹۴۷ء میں قائداعظمؒ کے ہاتھوں اﷲ کی باغی
اور بت پرست آبادی سے علیحدہ کرکے دنیا کی اسلامی ریاستوں میں سے سب سے بڑی
اسلامی ریاست کے طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے وجود بخشا
تھا۔قائداعظمؒ کو اﷲ نے قیام پاکستان کے فوراًبعد اپنے پاس بلا لیا اوروہ
تحریک پاکستان کے دوران اﷲ سے کیے گئے وعدہ نہ نبا سکے ۔ ہم دعوے سے کہتے
ہیں کہ اگر بانیِ پاکستان ،قائد اعظم ؒ کی وفات کے بعد مسلم لیگ کے کھوٹے
سکے قائداعظمؒ کے وژن کے مطابق پاکستان میں اسلامی نظام حکومت قائم کر دیتے
تو پاکستان دنیا کی ترقی یافتہ ریاست ہو تا۔ جب کوئی اﷲ سے اپناوعدہ پورا
کرتا ہے تو اﷲ جواب میں اپنی رحمتیں نازل کرتا ہے۔قرآن میں ہے کہ اگر
بستیوں کے لوگ اﷲ کے احکامات پر عمل کرتے تو اﷲ آسمان سے رزق نازل کرتا اور
زمین اپنے خزانے اُگل دیتی۔ہم اﷲ سے وعدہ خلافی کر کے دنیا کی غریب ترین
قوم بن گئے ہیں۔ہمارا ازلی دشمن بھارت ہمارے ناک میں دم کیے ہوئے ہے۔ہمار ے
آدھے وجود ختم کر چکا اورباقی کو ختم کر کے اسے اکھنڈ بھارت میں شامل کرنے
کے منصوبے بنائے ہوئے ہے۔ ہمیں دنیا میں دہشت گرد ثابت کرنے کی مہم کا
سرخیل بنا ہوا ہے۔ ہم پر ہوائی حملہ کر چکا۔ پاکستان پرجنگ مسلط کرنے کے
ارادے سے سرحدپر جنگ کا سماں پیدا کیے ہوئے ہے۔
ہماری شہ رگ کشمیر کی نسل کشی کے بعد اس کی آبادی کو اکثریت سے اقلیت میں
تبدیل کرنے کے ظالمانہ طریقے سے بھارت میں ضم کر چکا ہے۔ احتجاج کرنے والے
کشمیریوں پر کئی ماہ سے کرفیو لگا رکھا ہے۔کشمیری عورتیں کسی محمد بن قاسم
کے انتظار میں نڈھال ہو چکی ہیں۔
اس کتاب میں ایسے مندرجات ہیں جو پاکستان سے محبت کرنے والوں کے دل سیراب
کرے گی۔اس سے دشمنی رکھنے والے کے سینوں پر مونگ دلے گی۔شاہدہ صاحبہ لکھتی
ہیں کہ جب پاکستان بناتو سارے ملکوں نے اقوام متحدہ میں پر زور تائید
کی۔حتہ کے ہمارے ازلی دشمن بھارت نے بھی مخالفت نہیں کی۔لیکن یہ فخر صرف
افغانستان( قوم پرست افغانستان) کوحاصل ہوا کہ اس کے نمائندے نے مخالف میں
رائے دی۔مصنفہ لکھتی ہیں کہ قائد اعظمؒ کی پاکستان سے محبت کا یہ ثبوت ہے
شدیدبیماری کے باوجود اسٹیٹ بنک آف پا کستان کراچی تقریب میں تقریر رک رک
کر پڑھی۔ اتنی کمزوری تھی کہ ان کی آواز مجمع میں بہ مشکل سنی جاسکتی
تھی۔قائد اعظمؒ کی یہ آخری قومی تقریب تھی جس میں وہ شا مل ہو سکے۔ پھر۷؍
اگست ۱۹۴۸ء کو پاکستان کی ساری مساجد میں قائد اعظمؒ کی صحت کے لیے دعائیں
مانگیں گئی تھیں۔ کتاب کے شروع میں ہی شاہدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ ’’ میں
سوچتی ہوں کہ ہمیں قائد اعظم محمد علی جناحؒ جیسے عظیم لیڈر کی بدولت آزادی
ملی تو آخر بھارتی قوم یہ کیوں نہیں سوچتی کہ وہ بھی تو ہمارے عظیم قائدؒ
کی مدبرانہ صلاحیت اور دو قومی نظریہ کی وجہ سے آزاد ہوئے ہیں۔ورنہ وہ تو
انگریزوں کے دست نگر ہی رہنا چاہتے تھے۔غلام ذہنیت اور متحدہ ہندوستان کے
داعی آج بھی اپنی ریشہ دوانیوں سے باز نہیں آتے جب کہ قیام پاکستان کے
موقعے پر ہمارے قائدؒ نے کہا تھا: ہم اچھے ہمسایوں کی طرح رہنا چاہتے ہیں۔
مصنفہ شاہدہ صاحبہ میں پاکستانیت بھری ہوئی ہے۔ وہ اس واقعہ سے ثابت ہوتی
ہے کہ ان کی ایک کتاب کی تقریب پزیرائی کے لیے انہیں بھارت تاج محل آگرہ
بلایا گیا۔ مگر انہوں نے انکار کیا اور کہا آپ میری کتاب ’’میں پاکستانی
ہوں‘‘ کی پزیرائی کی تقریب رکھیں تو میں تاج محل آنے کے لیے تیار ہوں۔ ایک
جگہ لکھتی ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ ہنددؤں کے تعصب کو دیکھیں کہ’’ قراداد
لاہور‘‘ کو’’ قرارداد پاکستان‘‘ سے تشبیہ دے کر ہندو پریس نے خود پاکستان
کے قیام کو مشہور کر دیا۔پھر یہ قائد اعظمؒ کا کمال تھا کہ ہندوستان پر
انگریزوں اور ہنددؤں کی مضبوط گرفت کے باوجود سات سال کے اندرپاکستان حاصل
کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔شاہدہ صاحبہ نے اس کتاب کے آخری حصہ میں قائد
اعظمؒ کے تحریک آزادی پاکستان کے دوران میں پڑھے گئے خطبات کو شامل کے کتاب
کو ایک تاریخی دستاویز بنا دیا ہے۔ ہمارے نذیک کتاب ’’ قائد اعظم: محمد علی
جناحؒ․․․ایک سوانح ․․ ایک تاریخ ‘‘پاکسانیت کا انساکلوپیڈیا کا کام دے سکتی
ہے۔۔ ہم قائد اعظمؒ کے ، نظریہ پاکستان، دو قومی نظریہ سے محبت کرنے والوں
کو اس کتاب کے مطالعہ کی سفارش کرتے ہیں۔
شاعر علی شاعر صاحب مینیجنگ ڈائرکٹر: رنگ ادب پبلی کیشن کراچی ’’ نے کتاب
قائد اعظم محمد علی جناحؒ:ایک سوانح․․․ ایک تاریخ‘‘ جازب نظر گیٹ اپ اور
بہترین کاغذ پر شائع کی ہے۔ اس سے قبل بھی، ان کی طرف سے شائع کردہ کتاب
’’قائداعظم ؒ ․․․ ایک مطالعہ‘‘ میرے مطالعہ میں رہی۔ جس پر میرا تبصرہ پرنٹ
میڈیا میں شائع ہوا ۔معلوم ہوا ہے کہ ان کے پاس، مصور پاکستان علامہ اقبالؒ
پر بھی ایک کتاب زیر طباعت ہے۔ اس سے ان کی بانی ِپاکستان قائد اعظم محمد
علی جناحؒ ، مصور پاکستان شیخ علامہ محمد اقبالؒ ؒ،نظریہ پاکستان اوردوقومی
نظریہ سے لگاؤ کاثبوت ملتا ہے۔
|