"ایک عجیب بازار "

میری آنکھوں کے سامنے ایک بازار لگا ہوا ہے. ہوا تک میں تاجروں اور گاہکوں کی سرگوشیاں مل گئی ہیں. اس شور کا پیچھا کرتے میں آگے بڑھتی ہوں تو مجھے ایک جھریوں بھرے چہرے اور سفید سر والی بڑھیا نظر آتی ہے جو کہ دکان کے بورڈ کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے، جس پر "جوانی برائے فروخت" لکھا ہے. دکان میں دائیں جانب چند عورتیں مجسموں کی طرح سے بیٹھی ہیں. ہر عورت کے ساتھ ہزاروں کے نوٹوں کی ڈھیریاں لگی ہوئی ہیں. یہ ساری حسین عورتیں دکان کے شیشے سے باہر جھانکتی ہیں اور پھر اپنے ساتھ لگی روپیوں کی ڈھیری کو دیکھتی ہیں. نہ تو ان عورتوں کے پیروں میں زنجیر ہے اور نہ ہی دکان کے دروازے پر تالا لگا ہوا ہے. لیکن پھر بھی وہ مقید نظر آتی ہیں.

ذرا آگے بڑھنے پر خوشی خریدنے آئے لوگوں کی قطار بندھی ہے. عجیب بات یہ ہے کہ اس بازار میں ہر شخص کے سر پر ایک پوٹلی ہے، دکھوں کی پوٹلی. جو کوئی جتنا غریب ہے، اسکی پوٹلی اتنی ہی بڑی ہے. اسی دوران میری نظر ایک انوکھے سے تماشے کی طرف جاتی ہے. میں دیکھتی ہوں کہ ایک بڑے میدان میں بہت سے لوگ جمع ہیں اور ہر شخص کے ہاتھوں میں مختلف مکھوٹے موجود ہیں. کھیل کچھ ایسا ہے کہ مکھوٹوں کی مدد سے اپنا اصل چہرہ کسی بھی صورت عیاں نہ ہونے پائے. تماشا یونہی جاری رہتا ہے کہ ایک سسکیوں بھری آواز میری توجہ اپنی طرف موڑ لیتی ہے. ایک ہاتھ پاؤں بندھی ہوئی چیز جو کہ شاید "محبت" ہے، روتے ہوئے" سکون" کے دیپ کی جانب اشارہ کرتی ہے جو کہ لالچ کی آندھی کی بدولت بجھنے کے قریب ہے-
 

Muqadas Majeed
About the Author: Muqadas Majeed Read More Articles by Muqadas Majeed: 17 Articles with 14239 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.