بسم اﷲ الرحمن الرحیم
بدھ 9اکتوبر2019ء کو ترکی نے اپنے ایک اعلان کے مطابق شام کے شمال مشرقی
علاقے میں اپنی فوجی کاروائیوں کاآغاز کیا۔یہ شام اور ترکی کے درمیان سرحدی
علاقہ ہے جوگزشتہ کئی دہائیوں سے آگ کاالاؤ بن چکاہے۔مقامی کرد قبائیلیوں
کی جنگ جو فطرت کے باعث سرحدی جھڑپیں تو ایک عرصہ سے جاری تھیں لیکن جب سے
امریکی افواج نے یہاں اپنی امن دشمن کاروائیوں کاآغاز کیا تب سے یہ خطہ
عالمی خبروں کا مستقل موضوع بنارہا۔اب جب کہ امریکی افواج کو عالمی
پسپائیوں کاسامناہے تو افغانستان کی طرح شام کے سرحدی علاقوں سے بھی امریکہ
راہ فراراختیار کرنے میں اپنی عافیت دیکھ رہاہے۔امریکی صدر ٹرمپ نے شمال
مشرقی شام سے امریکی فوجوں کے انخلاکااعلان کیاتھا۔اس اعلان کے بعدترکی کی
بیدارمغزقیادت نے ان حالات میں بہت ہی دانشمندی کافیصلہ کیا اور میدان خالی
چھوڑنے کی بجائے اس مذکورہ علاقے سے امریکی باقیات کی صفائی کافیصلہ کیا۔
گزشتہ تین سوسالہ تاریخ میں سیکولراستعمار جہاں بھی گیاہے وہاں شر اور فساد
کے ایسے بیج بو کر گیاہے کہ وہاں پر انسانی خون رکنے کانام ہی نہیں لے
رہا۔فلسطین،کشمیراورافغانستان اس کی تازہ مثالیں ہیں۔ایسے میں علاقے کو
خالی چھوڑ دینا سیکولرازم کی انسان دشمن دہشت گردانہ کاروائیوں کے لیے
میدان کھلا چھوڑ دینے کے مترادف تھا۔ترکی کی اسلام پسند حکومت نے امریکی
افواج کے خالی کردہ خلاکو بروقت پر کرنے کی منصوبہ بندی کر کے اپنے خطے کو
مزید کشت و خون سے بچانے کی حکمت عملی پر بڑی چابکدستی سے عمل کیاہے۔
بدھ کو کیے گئے حملے کے بعد جمعرات تک ترک فوج بہت قابل ذکر کامیابیاں حاصل
کر چکی تھی۔عسکرجمہورشامی(Syrian Democratic Force)جوامریکہ کا اتحادی
دہشتگرد گروہ ہے ،اسے کم و بیش ایک سو بیس کلومیٹر کے وسیع و عریض علاقے
میں ترکی کی افواج اسلامی کے ساتھ مقابلہ درپیش ہے۔ترک افواج اسلامی نے اس
علاقے کے دو اہم چھوٹے شہروں’’راس العین‘‘اور ’’تل ابیض‘‘پر مکمل قبضہ
کرلیاہے اور بعد کی آنے والی اطلاعات کے مطابق بیس قصبات پربھی ترک افواج
اسلامی نے اپنی فتح کے جھنڈے گاڑھ دیے ہیں،نیزاس علاقے کی اہم شاہراہیں بھی
ترکی فوج کے زیرتسلط آچکی ہیں۔ترکی افواج اسلامی کو بھاری فوجی مشینری اور
ترکی فضائیہ کی مدد بھی حاصل ہے۔ترک صدر طیب اردگان نے کہاہے کہ شامی
سرحدکے ساتھ 480کلومیٹر کاعلاقہ ان کے پیش نظر ہے جسے انہوں نے ایک پرامن
علاقہ بنانے کا تہیہ کررکھا ہے ۔ان کاکہنا تھا یہ علاقہ شامی مہاجرین کے
لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بھی ہو سکتی ہے ۔اب تک کی جنگ میں امریکی اتحادی
گروہ کے377دہشت گرد ہلاک ہو چکے ہیں اور زخمیوں کی بھی ایک کثیر
تعدادہے۔دوسری طرف عسکرجمہورشامی نے ترکی کے اس دعوے کی تردید کی ہے لیکن
اپنی ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد نہیں بتائی۔ عسکرجمہورشامی نے امریکہ سے
کہاہے اس موقع پر ان کی مدد کرنا امریکہ کااخلاقی فرض ہے۔اس تنظیم نے
امریکہ پر الزام لگایا ہے کہ امریکہ نے سلامتی فراہم کرنے کے پختہ معاہدے
کے باوجود ان کے ساتھ وعدہ خلافی کی ہے۔امریکہ نواز یہ تنظیم اسی طرح
امریکی عسکری مدد کاانتظار کررہی ہے جس طرح مشرقی پاکستان کے باسی آج تک
ساتویں امریکی بحری بیڑے کے منتظر ہیں۔امریکی اتحادی عسکرجمہورشامی کی گولہ
باری سے شامی سرحدی علاقے میں ایک بچے سمیت پانچ شہری مارے گئے ہیں۔امریکہ
نے کہاہے کہ ترک افواج اسلامی نے شام کی سرزمین پرامریکی فوجی اڈے کو بھی
اپنے میزائلوں سے نشانہ بنایاہے،لیکن ترک وزیر دفاع نے اس الزام کی تردید
کی ہے۔تاہم شام میں ایک امریکی کمانڈر نے بتایا کہ ایک امریکی فوجیوں کی
چوکی جوشامی سرحد پر واقع ہے وہ ترکی فوجی حملے کی زد میں آئی ہے لیکن جانی
نقصان نہیں ہواکیونکہ ترکی فوج کے داغے ہوئے میزائل وہاں سے تھوڑے فاصلے پر
گرے ہیں۔شام اورترکی کی سرحد پر اس جنگ میں ترکی کوشام کے شہریوں کا اعتماد
بھی حاصل ہے چنانچہ شام کے کچھ نیم عسکری نوعیت کے گروہ ترکی افواج کی مدد
کررہے ہیں۔اس سے اندازہ ہوتاہے ترکی کی اس امن پزیر عسکری کاروائی کو شامی
عوام کی حمایت بھی حاصل ہے۔
امریکہ سمیت کل عالم مغرب نے امت مسلمہ کے ساتھ دوہری چالیں چلی ہیں۔ایک
طرف خودساختہ دہشت گردوں کی داڑھیوں کو دنیائے عالم کے سامنے دکھاکر انہیں
مسلمان ثابت کیاہے ،پھران دہشت گردوں سے اسلامی ملکوں میں عام طورپر اور
وطن عزیز میں خاص طورپر قتل و غارت گری اور دہشت و خوں ریزی کابازارگرم کیے
رکھا۔دوسری طرف مسلمان ملکوں کی حکومتوں کو مجبورکیاکہ اس مصنوعی دہشت گردی
کی آڑ میں اپنی ریاست سے راسخ العقیدہ، پابندشریعت اورمحب وطن شہریوں
کوامریکہ کے حوالے کریں یا خود ان کا قلع قمع کردیں ۔ اس مقصد کے لیے دشمن
اسلام خفیہ اداروں نے بے پناہ وسائل خرچ کر کے ،ٹی ٹی پی اورداعش جیسی
تنظیمیں بنائیں اورانہیں اپنی مرضی کے مطابق اسلام کا عملی نمونہ
بناکردنیاکے سامنے کرپیش کیا۔یہ مغربی دنیاکا دہراچہرہ تھا کہ پس پردہ اس
طرح کی عسکری تنظیموں کی پرورش کی جاتی اور دوسری طرف ان کے پیش کردہ اسلام
سے دنیاکو خوف زدہ کر کے اپنی عالمی بدمعاشی کا جواز فراہم کیاجاتا۔آفرین
ہے ترکی کی موجودہ اسلام پسند قیادت کو جس نے ان تنظیموں کے خلاف ہتھیار
اٹھا لیے ہیں اوراب عسکرجمہورشامی سمیت داعش کو بھی خطرہ لاحق ہو چکاہے
۔اگر شام میں ترکی کی فوجی کاروائی کے نتیجے میں امن قائم ہو جاتا ہے تو
داعش کابھی بوریہ بسترگول ہو جائے گااور کچھ بعیدنہیں کہ داعش کا بھانڈہ
بھی پھوٹ جائے اور امریکہ سمیت کل مغربی دنیا کے مکروہ عزائم دنیائے عالم
کے سامنے بے نقاب ہو جائیں۔حالانکہ نام نہادعالمی برادری اگر دنیاسے دہشت
گردی ختم کرنے میں سنجیدہ ہے تو اسے بڑھ کر ترکی کاساتھ دینا چاہیے کیونکہ
ترکی نے برملا کہاہے کہ وہ خطے میں امن کاخواہاں ہے اور اپنی شامی سرحد پر
سے دہشت گردوں کا خاتمہ چاہتاہے اور شامی مہاجرین کو باعزت اپنے گھروں میں
بسانے کاارادہ رکھتاہے،یادرہے کہ ترکی کی حکومت چھتیس لاکھ شامی مہاجرین کی
میزبانی کررہی ہے اور یخ بستہ موسم کاجان لیواآسیب پھر سرپر کھڑاہے ۔امریکی
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی اور اس کے متحارب گروہوں کے درمیان ثالثی کی پیشکش
کی ہے لیکن ترکی کے صدر طیب اردغان نے اس پیشکش کے یقینی نتائج کوسامنے
دیکھتے ہوئے اسے اپنی پاؤں کی ٹھوکر پررکھاہے اور کھل کرجرات و دلیری سے
کہاہے کہ حملے ہر صورت میں جاری رہیں گے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے عالم انسانیت کی آنکھوں میں دھولی جانے والی خاک کی
حقیقت طشت از بام ہونے کے خوف سے امریکہ نے ترکی کی اس امن پزیر فوجی
کاروائی کی سخت مخالفت شروع کر دی ہے۔امریکہ کے سیکریٹری دفاع ’’مارک
ایسپر‘‘نے ترکی کے حالیہ عسکری اقدام پر سنگین نتائج کی دھمکی دی ہے اور
امریکی وزیرخزانہ’’اسٹیون منوچن‘‘نے امریکہ کی طرف سے ترکی پر پابندیوں
کاعندیہ بھی دے دیاہے۔ذوالوجہین امریکہ کی یہ بات ناقابل فہم ہے کہ شام میں
امریکی فوج امن قائم کرنے جائے تو ٹھیک ہے لیکن اگرکسی اسلامی ملک کی افواج
امن قائم کرنا چاہے تو ان کے لیے ناقابل برداشت ہے،کیایہ قوم شعیب کے
پیمانے نہیں ہیں؟؟؟فرانس جو ترکی کا نیٹواتحادی بھی ہے ،اس نے کمال ڈھٹائی
سے ترکی کو ہتھاروں کی فراہمی معطل کر دی ہے،فرانس کی وزارت دفاع اور وزارت
خارجہ کے مشترکہ بیان میں کہاگیاہے ترکی افواج کے زیراستعمال تمام ہتھیاروں
کی فراہمی فوری طور پر معطل کردی گئی ہے۔یہ ان حکومتوں کااخلاقی معیار ہے
کہ باہمی معاہدے کو یکطرفہ طورپر ختم کردیاگیا،عہد شکنی کی کیا خوبصورت
مثال ہے کیونکہ نیٹو معاہدے کے تحت نیٹوکے تمام ممالک ایسے موقع پر ترکی کی
مدد کے پابندہیں۔امریکہ اور فرانس کی دیکھادیکھی جرمنی نے بھی ترکی کواسلحے
کی ترسیل میں کمی لانے کا فیصلہ کر لیاہے۔عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل
’’احمدابوالغیظ‘‘نے کہاہے کہ ترکی شام کودولخت کرناچاہتاہے،عراق کے
صدر’’برہیم صالح‘‘نے بھی اقوام متحدہ سے مطالبہ کیاہے ترکی شام تنازعے کو
پرامن طریقے سے حل کیاجائے،بھارت بھی اسلام دشمنی کے اس موقع پر پیچھے نہیں
رہا اور بھارتی وزارت دفاع سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہاگیاہے انقرہ
کے اس اقدام سے علاقے کی سلامتی اور استحکام کو خطرات درپیش ہو سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ عرب لیگ اوردیگرعرب ممالک اس وقت کیوں نہ بولے جب امریکہ اور
دیگر یہودونصاری اپنی ناپاک افواج سرزمین عرب پر اتاررہے تھے؟؟؟عراق اورشام
سمیت دیگرعرب آبادیاں جب بمباریوں کے نتیجے ویرانوں میں تبدیل ہورہی تھیں
تواس وقت عربوں کا ’’نیشل ازم‘‘کہاں سدھار گیاتھا؟؟؟اب شام کے علاقے میں
غیرعرب مداخلت برداشت نہیں ہے تو اس سے پہلے عربستان میں غیرمسلم مداخلت
کیوں برداشت کر لی گئی؟؟؟یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سرزمین عرب پر بسنے
والے مسلمانوں نے اپنی مرضی یا باہمی مشاورت سے ان حکمرانوں کواقتدارنہیں
دیا۔جس سیکولراستعمارکو وطن عزیزمیں جمہوریت سے بے حد لگاؤ بلکہ عشق کی حد
تک پیار ہے اسی کو صحرائے عرب کے باسیوں پر بادشاہت اور خاندانی اقتدار
حددرجہ عزیز ہے۔لیکن ترک قوم نے سیکولرازم کے خلاف دوتین نسلوں سے جاری جنگ
جیت کر ایک نمائندہ حکومت کواپنااعتماددیاہے۔اورخلافت عثمانیہ کے حوالے سے
یہ اسلام پسند ترک حکومت پوری امت مسلمہ کی قیادت و سیادت کی تاریخی وارث
ہے۔اﷲ تعالی نے چاہا تو ترکی افواج اسلامی کا یہ حملہ اس پورے خطے میں امن
کاضامن ہوگااور بہت جلد ایک بار پھر کل امت مسلمہ کاکھویا ہواادارہ خلافت
اسلامیہ بحال ہوگااور بھٹکتی ہوئی بے سروساماں امت وسط کو ایک دیندار،جرات
مند اور صالح قیادت میسرآجائے گی،ان شااﷲ تعالی۔
|