گزشتہ دنوں کراچی سے ایک جاننے والے کا فون آیا کہ میری
بہو سخت بیمار ہے ،پرائیویٹ کلینک پرزچگی کے کیس کو لے کر گئے تو انہوں نے
پچاس ہزار روپے کی ایڈوانس ڈیمانڈ کرڈالی ،محترمہ نے بتایا کہ جب سے پی ٹی
آئی کی حکومت آئی ہے ہسپتالوں میں ادویات ،ڈاکٹرز دونوں ناپید ہیں ۔سونے پر
سہاگہ یہ کہ محترمہ کے دو بیٹے جو کہ ایک پرائیویٹ گارمنٹس کی فیکٹری میں
مزدوری کرتے تھے حکومت کی ظالمانہ ٹیکس پالیسی ،ایف بی آر کے چھاپوں ،سیل
ٹیکس ،پروفیشنل ٹیکس ،بھاری بجلی وگیس کے بلوں کے باعث بند ہوگئی جس سے ان
کے دونوں فرزند بے روزگار ہوگئے ۔انہوں نے ہم سے مالی امداد کا مطالبہ کیا
۔ہم نے انہیں بتایا کہ ہر شخص رونا رو رہا ہے ۔بے روزگاری ،مہنگائی ،بدامنی
،کرپشن کا لیکن ہمارے وزیر اعظم کو جیسے لگتا ہے کہ سانپ سونگھ گیا ہے ۔انہوں
نے عوام کے دکھ اور ان کی تکالیف،پریشانیوں ،بھوک وافلاس کی جانب دیکھنا
بلکہ توجہ دینا ہی چھوڑ دیا ہے ۔سفید پوش آدمی کے لئے دو وقت کی روٹی کا
حصول مشکل جبکہ غریب فاقوں اور قرضوں پر مجبور ہو چکا ہے لیکن ستم ہائے ستم
یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت ان کے وزراٗ وقائدین اور خلائی مخلوق جنہوں نے
یہ ظالم ،نااہل حکومت ہم پر مسلط کی کو عوامی دکھ درد سے کوئی دلچسپی نہیں
ہے ۔انہوں نے خرگوش کی طرح آنکھیں بند کرلی ہیں اوراب عمران خان انٹر نیشنل
مسائل کو حل کرنے میں جت گئے ہیں ۔بہت اچھا ہے اگر آپ ایران ،سعودی عرب
تعلقات بحال کروالیتے ہیں ۔دونوں کے درمیان جنگ کی صورتحال روک لیتے ہیں تو
قابل تعریف ہے آپ کا اس سلسلے میں کردار ،لیکن بھائی آپ کو پاکستان کی عوام
نے ووٹ دیئے تھے اپنے ملک کے حالات سدھارنے کے لئے ملک اس وقت معاشی ،اقتصادی
،زرعی لحاظ سے شدید مشکلات کا شکار ہے ۔سرکاری ،کاروباری ،ڈاکٹرز ،تعلیمی ،سیاستدان
،کسان ،زمیندار ،صنعت کار ،مزدور ،بے روزگار ،طالب علم سب احتجاج پر ہیں ۔ٹی
وی چینلز کے اینکرز اتنی سخت سنسر شپ ہونے کے باوجود ناگفتہ بہہ حالات کی
دہائی دے رہے ہیں لیکن لگتا ایسا ہے کہ سکہ شاہی والی حکومت ہے جو کسی بھی
احتجاج کو اور عوام کی زبوں حالی کی طرف توجہ نہیں دے رہی ۔ہم نے اپنی
زندگی میں پہلی ایسی حکومت دیکھی ہے جس سے سوائے خلائی مخلوق کے کوئی طبقہ
خوش نہیں ہے ،تاجر طبقہ کاروبار معطل ہونے ،ٹیکسوں کے پیچیدہ نظام اور جبری
سیلز ٹیکس رجسٹریشن ،پاکستان کے ان پڑھ تاجروں کو ودہولڈنگ ایجنٹ بنانے کے
خلاف سراپا احتجاج ہیں ۔انہوں نے پہلے 13 جولائی کو ملک گیر ہڑتال کی ،ایسی
ہڑتال جس کی کسی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ،اب دوبارہ انہوں نے ایف بی آر
کے چیئر مین شبر زیدی کے ساتھ کئی مذاکرات کے سیشن میں ناکامی کے بعد 29
اور 30 اکتوبر کو ملک گیر ہڑتال کی کال دے دی ہے ۔جس سے نہ صرف تاجروں کا
اربوں کا نقصان ہوگا بلکہ حکومت کو بھی اربوں کا نقصان اٹھانا پڑے گا لیکن
معلوم ایسا ہوتا ہے کہ گورنر سٹیٹ بینک ،وزیر تجارت اور چیئر مین ایف بی آر
ملکی معیشت کو دفن کرکے ہی دم لیں گے وہ جس ایجنڈے کے تحت ہم پر تھونپے گئے
ہیں اسے پورا کرکے ہی دم لیں گے ۔آج ہمارا حال یہ ہوگیا ہے کہ ہماری
ایکسپورٹ اور امپورٹ میں توازن بری طرح بگڑ رہا ہے ہماری کرنسی افغانستان ،بنگلہ
دیش سے بھی نچلی سطح پر چلی گئی ہے ۔چھوٹے پیداواری یونٹس ،انڈسٹریز ،پاور
لومز بند ہوجانے کے باعث لاکھوں مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں ۔صحت کی سہولیات
ہسپتالوں سے آہستہ آہستہ وآپس لی جارہی ہیں ادویات کے نرخ آسمان کو چھور ہے
ہیں ۔کینسر کے مریضوں کو جو مفت ادویات شہباز شریف کے دور سے مل رہی تھیں
وہ بند کردی گئیں ۔ڈاکٹر ز نئے نظام کے خلاف سراپا احتجاج ہیں ۔خیبر
پختونخوا کے ڈاکٹرز کی پشاور میں پر امن مظاہرے پر لاٹھی چار ج ،پکڑ دھکڑ
نے مارشل لاء دور کی یاد تازہ کردی ۔اب گزشتہ ایک ماہ سے ڈاکٹرز ہڑتال پر
ہیں ۔او پی ڈیز بند ہیں ،مریض رل گئے ہیں ۔تاجر ،کسان ،مزدور ،زمیندار ،سرکاری
ملازم سب رل گئے ہیں لیکن ہم بین الاقوامی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے
میں مصروف ہیں ،ملکی ناگفتہ بہ حالات کا انہیں ادراک ہے اور نہ ہی وژن ،پاکستان
کی عوام نے ایک کرکٹر کو ووٹ دے کر جو غلطی کی اس کی سزا بائیس کروڑ عوام
بھگت رہی ہے ۔ان حالات میں جب ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان مسلم
لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی مصلحتوں اور اندرونی خلفشار کا شکار ہونے
کے باعث کوئی بھی مثبت اپوزیشن کا کردار ادا کرنے میں مکمل ناکام ثابت ہوئی
ہیں ۔مولانا فضل الرحمٰن کا 31 اکتوبر کادھرنا ہی عوام اور تاجر برادری کی
توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے ۔اس آذادی مارچ ہونے کی تیاریاں جے یو آئی (ف) کے
کارکنان ،اکابرین ان کی ڈنڈا بردار فورس زور وشور سے کررہے ہیں جن میں اگر
مخلصانہ طور پر نواز شریف اور زرداری کی جماعت بھی شامل ہوگئی تو حالات کو
کنٹرول کرنا ناممکن ہوجائے گا ۔ہر سیاسی جماعت کو پر امن احتجاج کا حق حاصل
ہے جیسا کہ عمران خان کی جماعت کو نواز شریف دور میں حاصل تھا ۔ایسے احتجاج
آذادی مارچ کو طاقت کے ذریعے روکنے کی کوئی بھی کوشش نہایت ہی برے اثرات
اور واقعات کو جنم دے سکتی ہے خاص کر ملک بھر کے تاجران جو 29 اور 30
اکتوبر کو ملک گیر احتجاج کررہے ہیں کے خلاف بھی اگر ڈاکٹروں کی طرز پر
کوئی کاروائی ہوئی تووہ مرتا کیا نہیں کرتا مولانا کے آذادی مارچ میں شرکت
پر مجبور ہوں گے پھر اس سیلاب کو روکنا کسی کے بس کی بات نہیں ہوگی۔
٭٭٭٭
|