قرآنِ مجید فرقانِ حمیدنے محض کتابی علم پڑھنے کا حکم
نہیں دیابلکہ کائنات کے پوشیدہ رموز پر غوروفکر اور تدبر کی دعوت بھی دی
ہے۔اسی ریسرچ اور تحقیق کو اسلامی علوم کا نام دیا جاتا ہے۔قرآن مجید میں
واضح ہے کہ آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ ہے اسے انسان کے لئے مسخر کر دیا
گیا ہے۔انسانی فلاح اور بھلائی کے لئے جو بھی تحقیق یا ریسرچ کرکے نتائج
اخذ کئے جائیں گے وہ اسلامی تعلیم کا ہی حصہ ہوں گے۔اسلام اور سائنس متضاد
نہیں بلکہ سائنسی علوم دراصل اسلامی علوم ہیں۔
قرآن مجید میں فخر موجودات کی بعثت کا جو مقصد بتایا گیا ہے اس میں صرف
کتابی تعلیم نہیں بلکہ تزکیہ نفس اور تربیت بھی شامل ہے۔اس کے لئے مکتب
ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھتے ہیں۔مکتب کے معنی لکھنے کے ہیں۔مگر اصلاحاً مکتب
میں ہر وہ جگہ شامل ہے جہاں درس و تدریس ،تعلیم و تعلم کا کام ہو رہا
ہو۔جیسا کہ سکول میں مدرسہ،درس گاہ کے مفہوم میں لفظ مکتب استعمال ہوتا
ہے۔مکتب سے مراد ہر وہ ادارہ ہے جہاں علوم و فنون کی تعلیم کا اہتمام
ہو۔اسی طرح کسی بھی معاشرے میں مکتب کی اہمیت کا اندازہ اس معاشرے کی علمی
قدر سے ہو گا۔کسی بھی معاشرے میں لکھنا اور پڑھنا اس معاشرے کی مربوط بنیاد
کا مظہر ہو گا۔معلمِ انسانیت کی بعثت سے پہلے عرب جاہل ،گنوار اور اجڈ قوم
تھے۔جب آپﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی تو اس میں آپ کی بعثت کا مقصد واضح ہوتا
نظر آتا ہے۔قرآن نے کتابی تعلیم کے ساتھ ساتھ حکمت و دانائی کی تعلیم اور
تزکیہ نفس کی اہمیت بیان کی تو ساتھ ہی لکھنے پڑھنے اور تعلیم و تربیت
کاکام شروع ہو گیا۔اس لئے اسلامی تعلیم و تربیت کا پہلامرکز’’ دارارقم ‘‘
کے نام سے تاریخ انسانیت میں قائم ہوا۔جہاں ہادی برحق نے انسانی تعلیم و
تربیت کا باقاعدہ آغاز کیا۔
کسی بھی معاشرے کی ترقی و تنزلی کا اندازہ وہاں کے تعلیمی اداروں یا
درسگاہوں سے لگایا جا سکتا ہے اگر درسگاہیں آباد رہیں۔ان درسگاہوں میں ایسے
علوم سکھائے جائیں جو آگے جا کر اس قوم یا اس معاشرے کی ترقی کا سنگ میل
ہوں گے۔تو وہ معاشرہ بہت جلد عروج کی طرف گامزن ہو گا۔دنیا کی کوئی طاقت اس
کے عروج کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہوگی۔تعلیمی ادارے وہ مراکز ہیں جہاں کوئی
قوم اپنی تہذیب ،ثقافت،نظریات اپنی روایات اپنے ماحول اور اپنی عادات کو
نئی نسل تک منتقل کرتی ہے۔جس معاشرہ یا قوم کو اپنی تہذیب و ثقافت سے محبت
ہو گی۔وہ تعلیمی مراکز پر توجہ دے گی ۔وہی قوم ترقی کے اوجِ کمال پر ہو گی۔
تعلیمی ادارے حقیقت میں کسی بھی معاشرے اور قوم کے ٹریننگ سنٹرز ہوتے
ہیں۔جہاں وہ اپنے نظریات اور قوم کی امنگوں کے ترجمان سپاہی تیار کرتے
ہیں۔جو دیگر اقوام کے مقابلے میں نظریاتی اور فکری محاذ پر جنگ کرتے
ہیں۔اسلام ایک نظریہ ہے۔ایک تحریک ہے۔ایک مکمل ،عمدہ اور جامع ضابطہ حیات
ہے۔اس کی اپنی ایک تہذیب اور ثقافت ہے۔اپنی تاریخ اور اپنا انفرادیت سے
بھرپور نصاب و تعلیم ہے۔آغاز و ارتقاء سے ہی تاریخ اسلامی کی وحی الہیٰ سے
ابتداء ہے۔رب کریم نے اپنے محبوب کی تعلیم کا اہتمام غارِحرا سے کیا۔فخر
موجودات نے انسانی تربیت کے لئے مکتب دارارقم کو چنا۔مکتب کی اہمیت تب بھی
ایک ٹھوس حقیقت تھی۔جتنے مضبوط مکتب ہوں گے اگر اتالیق بھی اتنے ہی باشعور
ہوں تو ایک کامل معاشرہ اپنی اچھی اٹھان سے دنیا کے نقشے پر ابھر سکتا
ہے۔استاد کی ذمہ داری انسانیت کی تعمیر و تربیت ہے۔جو محض خانہ پری سے ممکن
نہیں ہے۔اس کے لئے استاد کو خود ایک ماڈل بننا ہو گا۔اگر استاد اعلیٰ کردار
و اخلاق سے مالا مال ہو گا تو جو نسل اس کے ہاتھ سے نکلے گی وہ ان اوصاف سے
بھرپور ہو گی۔وہ اکمل ترین نسل ہو گی۔اتالیق کو تنگ نظر جذباتی نہیں ہونا
چاہیے۔طالب علم کے سوالات کے جوابات کو ان کے مطمعن ہونے تک جامع اور آسان
فہم میں دینا ایک اچھے اتالیق کی اخلاقی اور پیشہ وارانہ ذمہ داری ہے۔استاد
نظم و ضبط کو اپنا شعار بنائے اور طلبہ کو بھی اس کا شعور دے۔ان میں ایثار
اور قربانی کے جذبے کو بیدار کرے۔مگر صد افسوس آج کے دور کا نہ طالب علم
متحمل مزاج یا باادب ہے اور نہ اتالیق اتنے اعلیٰ ظرف رہ گئے ہیں۔
درسگاہیں ایک منافع بخش کاروبار کی صورت اختیار کر گئی ہیں۔اینٹ اٹھائیں تو
اندر سے ایک سکول نکل آتا ہے مگر نہ تو اس معیار کے اتالیق بھرتی کئے جاتے
ہیں اور نہ ہی وہاں سے نکلی کھیپ کوئی کارنامہ سرانجام دیتی نظر آتی ہے۔علم
کے بیوپاری جگہ جگہ اپنا اپنا کاروبار سجا کر علم بیچ رہے ہیں۔کوئی سستا
خرید رہا ہے اور کوئی مہنگا۔ادارے کمزور ہیں۔درسگاہیں بزنس بن چکی ہیں اور
طلبہ وہاں علم کی بجائے تفریح کرتے ہیں۔یہ صورت حال برقرار رہی تو معاشرہ
بہت جلد اخلاقی پستی اور تنزلی کا شکار ہو جائے گا اور جو چراغ سحر سمجھے
جاتے ہیں ۔وہ چراغ ہلکی ہوا کے ارتعاش سے ہمیشہ کے لئے گل ہو جائیں گے۔
|