نکمے بچے۔۔۔۔۔بچوں کی ایک اہم قسم

بچوں کی ایک اہم اور نہایت ہی وافر مقدار میں پائی جانی والی قسم ہے نکمے بچے۔ ان بچوں کی پہچاننا بہت آسان ہے۔ بچے تو بچے یہ لوگ جب بڑے بھی ہوجاتے ہیں تو بھی ان کو بڑی آسانی سے پہچانا جا سکتا ہے۔ ایک صاحب تو اپنے نکمے ہونے پر اس قدر نازاں تھے کہ وہ بارہا یہ بیان کرتے تھے کہ صاحب اس دنیا میں جتنی بھی ایجادات ہوئی ہے نکمے اور سُست لوگو ں نے ہی کی ہیں۔ چُست اور قابل لوگ صرف ان ایجادات سے فائدہ ہی اٹھاتے ہیں جو ان کو نکمے لوگوں نے فراہم کی ہیں۔نکمے بچے اپنے آپ کو کام سے بچانے کے سو بہانے تراشتے ہیں۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ وہ ایک تنکہ بھی یہاں سے اٹھا کر وہاں کر دیں۔اپنی سستی اور کاہلی کی وجہ سے وہ کوئی کام نہیں کرتے۔ بہت سے ایسے بچوں کی پہچان ان کا موٹاپا بھی ہے۔ ان کو ہر وقت بھوک لگتی رہتی ہے۔ کھانے پینے کو انہیں ہر وقت چاہیے لیکن کام کے بارے میں کوئی نہ پوچھے ۔ سکول میں سب سے بُرا ٹیچر ان کو وہی لگتا ہے جو ان کو ذیادہ ہوم ورک دے۔ ان کے کھانے پر پابندی لگانے والے تو ان کو زہر لگتے ہیں۔ اکثر کلاس میں یہ لوگ کھانے پینے کی چیزیں نکال کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ٹیچر سے نظر بچائی اور چپس ُمنہ میں گئی۔جوس کا ایک سپ لیا اور ایک لفظ لکھ لیا۔ ان کا معمولی سے معمولی کام بھی دھرتی پر احسان سے کم نہیں ۔

سُست بچوں کو اگر کوئی لالچ دیا جائے تو گھنٹو ں کا منٹوں میں بھی کر سکتے ہیں۔ یہ لالچ ذیادہ تر چاکلیٹ ، برگر ، پیزا یا پھر شوارما کی شکل میں ہو سکتا ہے۔ بعض بچے تو لالچ دینے کے باوجود بھی کام نہیں کر تے ۔ ان کو اگر غصے میں آکر مارا جائے ان کے جسم پر چڑھی ہو ئی چربی کی وجہ سے ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ بعض بچے تو سردیوں میں تین چار جرسیاں پہن کر آتے ہیں۔ پینٹوں کے نیچے بھی تین چار ٹراؤزر ہوتے ہیں۔ٹیچر کی مار کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ جب سے مار نہیں پیار کا سلوگن آیا ہے۔ ان بچوں کی تو سب سے ذیادہ موجیں لگ گئی ہیں۔اب تو اس طرح کے بچے کلاس روم میں سوئے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ڈر کے مارے ٹیچر ان کو جگا بھی نہیں سکتے۔ گورئمنٹ نے تو ان کی موجوں کو چار تو کیا پانچ چھ چاند لگا دیئے ہیں۔

ان سُست بچوں کا تو یہ حال ہے کہ ایک لفظ لکھنے کے لیئے ان کو چارگھنٹے چاہیے۔ وہ جیسے کہتے ہیں کہ نالائق کا بیگ یا بستہ ہمیشہ بھار ی ہوتا ہے۔یہی حال ان بچوں کا ہے۔ کام کرنے سے ذیادہ وقت ان کا تیاری کرنے میں لگ جاتا ہے۔ کبھی پنسل نہیں مل رہی ۔ اگر مل گئی تو تراش کیئے جارہے ہیں۔ ایک لفظ لکھا تو اس کو مٹانے کے لیئے اریزر کی تلا ش شروع ہوجاتی ہے۔ بعض بچوں کو پاس تو اس قدر چھوٹے اریزر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ ان کو دیکھ کے لگتا ہے کہ آدھا تو یہ لوگ کھا ہی گئے ہونگے۔ اگلا مرحلہ پانی پینے کا ہوتا ہے اور اس سے اگلا واش روم جانے کا۔ اگر کھانے کا ٹائم ہو تو اس سے پکا بہانہ اور کوئی نہیں۔ روٹی کا لقمہ مُنہ تک آتے آتے پانچ منٹ لے لیتا ہے ۔ اگلے پانچ منٹ چبانے اور پھر پانی پینے کے لیئے بھی تو پانچ منٹ چاہیے۔

سُستی اور کاہلی تو ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے اور کام نہ کرنے کے بہانے تو بس ان سے سُن لیں۔کوئی نہ کوئی جدید سے جدید بہانہ ان کے پاس موجود ہوتا ہے۔ اپنے سارے رشتے داروں کو مرنے سے پہلے ہی موت کی وادی کی سیر کرا چکے ہوتے ہیں۔اور جو باقی بچ جاتے ہیں ان کے ہر مہینے میں ہفتہ دس دن ہسپتال میں ہی گزرتے ہیں۔سُستی بھی کامیابی کی نشانی ہوسکتی ہے اگر اس کو عمدہ طریقے سے استعمال کیا جائے۔
 

Tanveer Ahmed
About the Author: Tanveer Ahmed Read More Articles by Tanveer Ahmed: 71 Articles with 80756 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.