اختلاف اوراحتجاج جمہوریت ہی کے ثمرات ہیں۔ آزادی
اظہار انسان کا بنیادی حق ہے جسے کوئی جمہوری حاکم کسی صورت دبانہیں
سکتا۔اختلاف اوراحتجاج آئین۔قانون اوراخلاقیات کی حدودمیں رہتے ہوئے ملکی
سلامتی۔خودمختاری ۔حالات وواقعات اورعالمی معاملات کومدنظررکھتے ہوئے اپنے
ملک وقوم کے وسیع ترمفادات کونقصان پہنچائے بغیرپرامن طریقے سے کیاجائے تب
ہی یہ عمل جمہوری حق کہلائے گابصورت دیگر ریاست کوسخت رویہ
اختیارکرناپڑتاہے۔آج کل مولانافضل الرحمان کے ڈنڈابردار آزادی مارچ
اوردھرنے کی خبریں پاکستانی میڈیاسے زیادہ دشمن ملک بھارت کے میڈیاکی زینت
بن رہی ہیں۔ہم نے مولاناکے حق احتجاج کی حمائت پہلے بھی کی اوراب بھی کرتے
ہیں پرمولاناکی جانب سے مسلسل پاکستان کے دشمن ملک بھارت کوخوش کرنے
اورپاکستان کیلئے رسوائی کاباعث بننے والے اقدامات انتہائی افسوس ناک
ہیں۔گزشتہ دنوں پشاور میں باوردی ڈنڈا بردار فورس کی تربیتی مشقیں اور
مولانا فضل الرحمان کو سلامی دینے کے مناظردیکھنے کوملے اس موقع پر مولانا
فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم نے ہمیشہ آئین و قانون کا ساتھ دیا ہے اور
آج بھی آئین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ملک کے تمام ادارے آئین کی پاسداری کریں گے
تو پھر کوئی جھگڑا نہیں ہو گا۔ہمارے مینڈیٹ پر جو ڈاکہ ڈالے گا اس کے خلاف
جدوجہد کریں گے۔ ہم پر امن لوگ ہیں ہمیں نہ چھیڑا جائے۔ ہمیں چھیڑا گیا تو
پھر آپ گھروں میں بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہمارا میدان
سیاسی ہے اور عوام کے پاس جانا جمہوریت ہے۔آزادی مارچ کیلئے مولاناکے
کارکنوں نے ہزاروں کی تعداد میں ڈنڈے جمع کر رکھے ہیں جو انصار الاسلام کے
کارکنوں کے پاس ہوں گے۔ان ڈنڈوں پر جمعیت علمائے اسلام کے جھنڈے کی طرز پر
سفید اور کالے رنگ کی پٹیاں بنائی گئی ہیں۔جمعیت علمائے اسلام ف کے مطابق
انصارالاسلام کے ان سیکیورٹی رضاکاروں کی تعداد 12 ہزار سے زائد تھی جو
آزادی مارچ کے دوران سکیورٹی کے فرائض سرانجام دیں گے اور چاروں صوبوں سے
ایسے ہی مزیدپندرہ پندرہ ہزار رضاکار آزادی مارچ کے دوران سکیورٹی کے فرائض
انجام دیں گے جبکہ جے یوآئی ف کے رہنما سینٹرمولانا عطا الرحمان نے
نیوزچینل پربڑے بے باک اندازمیں تڑی لگاتے ہوئے کہاکہ ہمارے پاس 1 لاکھ صرف
ڈنڈا بردار فورس ہے ہم آئیں گے اور یہ حکومت بہہ جائے گی۔ان کو پتہ ہی نہیں
ہمارے ساتھ کتنے لوگ آرہے ہیں۔مولانانے فرمایاکہ اُن کا میدان سیاسی ہے اور
عوام کے پاس جانا جمہوریت ہے۔بالکل درست وہ سیاستدان ہیں اورعوام کے پاس
جاناجمہوریت ہے پرمولاناصاحب عوام کے پاس جانے کیلئے ایک لاکھ
ڈندابردارفورس بنانااورپھراس فورس کی جنگی مشقیں اورسلامی لینے سے
کیامرادہے؟کیا یہ ڈنڈابردارجمہوریت ہے؟وہ بھی ایسے وقت میں جب ہم دنیاکویہ
بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ پاکستان میں شدت پسندی کاکوئی وجودنہیں جبکہ
دوسری جانب دشمن ملک بھارت ہمیں دہشتگردثابت کرنے کی کوشش کررہاہے۔بھارتی
میڈیادہشتگردآرایس ایس کے ساتھ مولاناکی ڈنڈافورس کی مثال دے کرآرایس ایس
کوپرامن تنظیم ثابت کرنے کوشش کررہاہے۔ہم جانتے ہیں کہ مولاناکی رضاکارفورس
اُن کے احتجاج کی سکیورٹی کے فرائض سرانجام دینے کیلئے ہے پردنیاکویہ بات
کون اورکیسے سمجھائے گاجومسلمانوں کودہشتگردکہتی ہے؟مولاناصاحب کی
ڈندابردارفورس کی پریڈاورسلامی کے مناظر نے عوام کوشدیدکرب میں
مبتلاکردیاہے جس کی عوام شدیدمذمت کرتے ہیں۔عوام ریاست پاکستان سے سخت
ایکشن لینے کامطالبہ کررہے ہیں۔ ملک کے اندرایسے معاملات کی اجازت کسی
کوبھی نہیں ہونی چاہئے۔اس وقت ریاست پاکستان کی حکومت اورتمام ذمہ دارادارے
ایک پیج پرنظرآرہے ہیں اورملک بہتری کی طرف گامزن ہے ایسے حالات میں ملکی
ساکھ کومتاثرکرنے والی کوئی حرکت قابل قبول نہیں۔مولانافضل الرحمان صاحب سے
گزارش ہے کہ وہ احتجاج کرناچاہتے ہیں۔عمران خان کی حکومت گرانے کی کوشش
کرناچاہتے ہیں۔نئے عام انتخابات کرواناچاہتے ہیں یاجوبھی مزیدکوشش
کرناچاہتے ہیں یہ اُن کاجمہوری حق ہے پرڈنڈے دیکھاکردشمن ملک بھارت کے موقف
کوسپورٹ نہ کریں۔ملک وقوم کے وسیع تر مفادات کومدنظر رکھتے ہوئے اختلاف
رائے یا پرامن احتجاج ہرکسی کاجمہوری حق ہے ۔مولاناکوچاہئے کہ اپنے طرزعمل
پرقوم سے معافی مانگیں۔ایک بہت ہی اہم سوال ہے کہ مولاناصاحب پی ٹی آئی کی
حکومت کیخلاف احتجاج کرنے جارہے ہیں یاریاست سے بغاوت کرنے کے مشن پرکام
کررہے ہیں؟مولانافضل الرحمان کی قیادت میں اپوزیشن کے اعلان کردہ حکومت
مخالف احتجاج کے متعلق مختلف نکتہ نظرکے لوگ مختلف رائے کااظہارکررہے ہیں
جبکہ راقم کے خیال میں تاریخ۔دن یامہینے کاانتخاب کرنابھی جمہوری اوربنیادی
حق ہے اورپھرسیاسی کھلاڑی ہمیشہ ایسے وقت کاانتخاب کرتے ہیں جس وقت لوہاگرم
ہوچکاہو۔مولاناکے نزدیک احتجاجی مارچ شروع کرنے کیلئے اظہاریکجہتی کشمیرڈے
27اکتوبرکادن بہترہے توکوئی بات نہیں۔مولانامسئلہ کشمیرکی نزاکت سے دنیاکی
توجہ ہٹاناچاہتے ہیں توکوئی بات نہیں۔مولاناصاحب مارچ کرناچاہتے ہیں۔اسلام
آبادیاپورے ملک میں دھرنادیناچاہتے ہیں۔پی ٹی آئی کی حکومت گراناچاہتے
ہیں۔نئے عام انتخابات کرواناچاہتے ہیں۔عمران خان یاعارف علوی کی جگہ خود
وزیراعظم یاصدرپاکستان بننا چاہتے ہیں توکوئی بات اپنی کوشش ضرورکریں
پرخداراپاکستان کے دشمنوں کی زبان اورطرزعمل اختیارنہ کریں ۔مولانانے کہاکہ
ہم پرامن لوگ ہیں ہمیں نہ چھیڑا جائے۔ہمیں چھیڑا گیا تو پھر آپ گھروں میں
بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔یعنی مولاناصاحب کے مطابق وہ ڈنڈابردارجمہوریت کے
ساتھ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آبادکوفتح کرنے آئیں توان کے راستے میں
کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔جب تک پی ٹی آئی کی حکومت کاخاتمہ نہ ہوجائے۔جب تک
نئے عام انتخابات کے نتیجے میں مولاناصاحب وزیراعظم یاصدرپاکستان نہ بن
جائیں تب تک انہیں کوئی پریشان نہ کرے ورنہ آپ اپنے گھروں میں بھی غیرمحفوظ
ہوجائیں گے۔اب ہم مولاناصاحب کے ’’آپ‘‘ کوکیاسمجھیں کہ انہوں نے ’’آپ‘‘ کس
کوکہاہے؟معاف کیجئے گامولاناصاحب آپ کاطرزعمل جمہوری نہیں رہا۔آپ کے طرز
عمل سے تولگتاہے کہ آپ پی ٹی آئی کی حکومت کے نہیں بلکہ ریاست پاکستان
کیخلاف اعلان جنگ کررہے ہیں پھربھی ہم امیدکرتے ہیں کہ مولاناصاحب حکومت
مخالف احتجاج کریں گے پاکستان مخالف نہیں۔ایک سینئرسیاستدان کی جانب سے جان
بوجھ کریاانجانے میں جمہوریت کی آڑمیں ملک دشمن ایجنڈے کوسپورٹ کرناکسی
صورت قابل قبول نہیں۔حکومت کی غیرسنجیدگی چار اشارے دے رہی ہے۔نمبرایک
حکومت حالات کی نزاکت کااندازہ لگانے سے قاصرہے۔نمبردوحکومت حدسے زیادہ
پراعتمادہے۔نمبرتین وزیراعظم عمران خان خودچاہتے ہیں کہ ملک میں حالات اس
قدرخراب ہوجائیں کہ سسٹم بدل جائے یعنی ملک میں صداراتی نظام کی راہ
ہموارہوجائے جس کے مطابق انہیں وہ سارے اختیارات مل جائیں جن کے وہ خواہش
م،مندہیں۔نمبرچارحکومت کورپورٹ دینے والے غلط خبریں دے رہے ہیں۔مولانا فضل
الرحمان نے ملک کی دوبڑی اورکئی چھوٹی سیاسی جماعتوں کی حمایت کے ساتھ بڑے
احتجاج کااعلان کررکھاہے۔تاجرحضرات۔کارخانہ دار۔مزدور۔ڈاکٹرزحضرات دیگرعملے
کے ساتھ پہلے ہی سڑکوں پرہیں۔مولاناکسی صورت وزیراعظم کے استعفے سے کم
پربات کرتے نظرنہیں آتے۔جبکہ اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج میں اُن کے حمایت
یافتہ وکلاء بھی شامل ہوجائیں گے۔موجودہ صورتحال حکومت کیلئے بڑاچیلنج ثابت
ہوگی
|