امیر الدین محبّت تو ایک غریب گھرانے کی لڑکی سے کرتا تھا
مگر شادی اس کی ایک امیر گھرانے کی لڑکی سے ہو گئی- ایسا کیوں کر ہوا؟ اس
سوال کا جواب کوئی مشکل نہیں- دراصل زندگی کی مشکلات جھیلتے جھیلتے وہ ایک
حقیقت پسند شخص بن گیا تھا- چھوٹی موٹی عارضی ملازمتیں کرکر کے وہ پریشان
ہوگیا تھا- ان عارضی نوکریوں سے وہ عیش تو خیر کیا کرتا، گزارہ بھی مشکل سے
ہوتا تھا- ایک رشتے لگانے والی کسی خاتون نے اس کی شادی کے لیے اس کی ماں
سے بات کی تھی- لڑکی کی عمر کچھ زیادہ ہوگئی تھی مگر اس کی شکل صورت اچھی
تھی- شکل صورت سے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ وہ کھاتے پیتے گھرانے کی تھی- اس
عورت نے سرسری طور پر یہ بھی بتایا کہ جہیز تو جہیز، لڑکی والے لڑکی کو
جہیز میں ایک چلتا ہوا کاروبار بھی دیں گے-
پیشکش پر کشش تھی- امیر الدین نے شادی کی حامی بھرلی- محبّت ہار گئی اور
دولت جیت گئی- ایسا بہت دفعہ ہوا ہے اور بہت دفعہ تک ہوتا رہے گا- امیر
الدین کی عمر یہ ہی کوئی بتیس سال تھی اور لڑکی جس کا نام خوش نصیب تھا، اس
سے تقریباً تین سال بڑی تھی- امیر الدین نے سوچا عمروں کا یہ فرق کوئی
زیادہ نہیں ہے-
اس کے سسرال والوں نے اپنے وعدے کی پاسداری کی اور جہیز میں ایک اچھے علاقے
کی مارکیٹ میں خوب چلتا ہوا برتنوں کا اسٹور بیٹی کے نام کردیا- خوش نصیب
اس کا کیا کرتی، یہ اسٹور اس نے میاں کے حوالے کردیا اور وہ ٹھاٹ سے گلے پر
بیٹھ کر وہاں کام کرنے والے دو ملازموں پر حکم چلانے لگا- چند ہی روز میں
اسے پتہ چل گیا کہ یہ اسٹور نہیں سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ہے- روزانہ
ہزاروں روپے کی سیل ہوتی تھی اور منافع بھی ہزاروں میں ہوتا تھا-
وہ اپنی بیوی کے ساتھ بہت اچھے طریقے سے رہتا تھا- اسے گھماتا پھراتا تھا
اور سسرال میں بھی اچھے طور طریقوں سے رہتا- کسی سے لڑتا جھگڑتا بھی نہیں
تھا اور اس کوشش میں لگا رہتا تھا کہ ہر کوئی اس سے خوش رہے-
ان ساری چیزوں کے پیچھے سسرالیوں کا وہ احسان تھا جو انہوں نے قیمتی جہیز
اور برتنوں کے اسٹور کی شکل میں دے کر اس پر کیا تھا- اس سے پہلے اسے چھوٹی
موٹی نوکریوں سے اتنے پیسے نہیں ملتے تھے کہ اس کا مہینہ ٹھیک ٹھاک گزر
جاتا- روپے پیسے کی تنگی بہت اذیت ناک ہوتی ہے- وہ اس اذیت سے گزر چکا تھا-
مگر اب حالات مختلف ہوگئے تھے- وہ مالی طور پر انتہائی آسودہ حال ہوگیا
تھا- گھر میں خوش حالی آئی تو اس کے ماں باپ نے بھی سکھ کا سانس لیا- اس کی
ماں تو اپنی بہو کا بہت خیال کرتی تھی کیوں کہ وہ سمجھتی تھی کہ اس خوش
حالی کے پیچھے اس کا ہاتھ ہے- ان تمام باتوں کے باوجود امیر الدین اپنی
پہلی محبّت کو فراموش نہ کر سکا تھا- پہلی محبّت تو ہوتی ہی ایسی ہے کہ
بھلائے نہ بھولے-
رات کو جب دونوں میاں بیوی اپنے کمرے میں جاتے تو سونے سے پہلے باتیں کرتے-
یہ ان کا روز کا معمول تھا- خوش نصیب تو اسے وہ تمام باتیں بتاتی جو دن بھر
گھر میں رہ کر پیش آتی تھیں- اپنی ساس اور سسر کا تذکرہ وہ بہت احترام سے
کرتی تھی کیوں کہ دونوں کا رویہ اس کے ساتھ مشفقانہ ہوتا تھا- امیر الدین
اس سے نہ دکان پر پیش آنے والے واقعات کا تذکرہ کرتا نہ اس طرح کی دوسری
باتیں- وہ نہایت شوق سے اپنے ہونے والے بچے کے بارے میں باتیں کرتا تھا جس
کا نام بھی اس نے تجویز کرلیا تھا- اس قسم کی باتیں کرنا ان دونوں کا روز
کا معمول تھا-
شادی کو دو مہینے ہوگئے تھے- خوش نصیب فکرمند رہنے لگی- ابھی تک ایسے کوئی
آثار دکھائی نہیں دیے تھے کہ وہ امیر الدین کو بچے کی خوش خبری سنا سکے-
اسے اندازہ تو ہوگیا تھا کہ امیر الدین کو بچوں کا بہت شوق ہے اسی لیے وہ
ہر روز یہ تذکرہ کرتا تھا-
دن گذرتے رہے- خوش نصیب کی پریشانی میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا- امیر الدین
کی بچوں کے بارے میں کی گئی باتیں اسے بے چین کر دیتی تھیں- گھر میں کوئی
ایسا مہمان آجاتا جس کے چھوٹے بچے ساتھ ہوتے تو ان مہمانوں سے زیادہ اس کی
توجہ ان بچوں پر رہتی- خوش نصیب خود کو قصور وار سمجھنے لگی تھی- وہ چاہتی
تھی کہ اس کی گود بھی جلد ہری ہوجائے تاکہ اس کا شوہر خوش ہوجائے- امیر
الدین اب بھی مایوس نہیں ہوا تھا- وہ اکثر کہتا تھا کہ جب بھی اسے ایسی
کوئی خوش خبری ملے گی وہ خوش نصیب کو پلنگ سے پاؤں بھی نیچے نہیں اتارنے دے
گا- بچے کی ولادت تک وہ صرف کھائے پئے گی اور آرام کرے گی- یہ باتیں سن کر
خوش نصیب دل مسوس کر رہ جاتی تھی-
پھر جب شادی کو دو سال گزر گئے اور مراد بر نہ آئی تو ایک روز خوش نصیب نے
کہا- " مجھے انتہائی رنج ہے کہ میں آپ کو وہ خوشی نہ دے سکی جس کی آپ کو
عرصے سے تمنا ہے- میرا خیال ہے کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا- ہمارے مذہب میں
دوسری شادی جائز ہے- میں چاہتی ہوں کہ آپ دوسری شادی کر لیں تاکہ اس گھر
میں بھی بچوں کی قلقاریاں گونجیں-"
یہ کہتے کہتے خوش نصیب کی آنکھیں بھیگ گئیں- وہ امیر الدین سے بے حد محبّت
کرتی تھی- شوہر کی محبّت میں کوئی عورت کسی کو شریک نہیں کرنا چاہتی مگر وہ
اپنے شوہر کی بچوں والی بے پناہ خواہش سے مجبور ہو گئی تھی- مشرقی عورتیں
ہوتی ہی ایسی ہیں کہ شوہر کی خوشی کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار
ہوجاتی ہیں- یہ تو اکثر مرد ہی ہوتے ہیں جو مشرق کے ہوں یا مغرب کے، ایک
جیسے ہی ہوتے ہیں-
اس کی بات سن کر امیر الدین لمحہ بھر کو ہکا بکا نظر آنے لگا- پھر اس نے
نہایت محبّت بھرے لہجے میں کہا- "کان کھول کر سن لو- میں تمہاری محبّت میں
کسی کو شریک کرنے کو تیار نہیں- یہ میرا آخری فیصلہ ہے-"
اس کی بے پایاں محبّت کے اس اظہار نے خوش نصیب کو باقاعدہ رونے پر مجبور
کردیا تھا- وہ ہچکیاں لیتے لیتے بولی- "مجھے آپ کی خوشی ہر بات سے زیادہ
عزیز ہے- بس اب آپ کو میری قسم ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکا لیں گے- میں نے
اپنا اٹل فیصلہ سنا دیا ہے- میرے گھر والے بھی اس بات پر بہت فکرمند ہیں کہ
ہمارے یہاں بچہ کیوں نہیں ہو رہا-"
امیر الدین نے اس کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے اور بولا- "ایسا مت کہو- یہ بھی تو
ہوسکتا ہے کہ مجھ میں کوئی خرابی ہو- اگر ایسا ہوا تو پھر کیا ہوگا؟"
"یہ آپ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ میں اپنا فیصلہ بدل لوں- میرا اپنا خیال ہے
کہ اگر میری شادی چند سال پہلے ہوگئی ہوتی تو یہ مسئلہ درپیش نہ ہوتا- بس
آپ اب کچھ نہیں بولیں گے-"
اس کی بات سن کر امیر الدین خاموش ہو کر کچھ سوچنے لگا-
دو ایک روز بعد جب خوش نصیب اپنے گھر گئی تو اس نے اپنے اس فیصلے سے اپنی
ماں کو آگاہ کیا- ماں بھی اس مسئلے کی وجہ سے فکرمند رہتی تھی- مسئلہ بہت
بڑا سہی مگر وہ نہیں چاہتی تھی کہ خوش نصیب کا شوہر دوسری شادی کرے- اس نے
یہ بات خوش نصیب کے باپ کے گوش گزار کی- اس کے باپ کا چھوٹا بھائی احتشام
ان دنوں باہر سے چھٹیاں گزارنے آیا تھا- اس نے کاروبار میں بھائی کا ہاتھ
بٹانے کے بجائے اعلٰیٰ تعلیم حاصل کرنے پر زور دیا تھا اور کامیاب ہو کر
دبئی میں کسی کمپنی میں کام کرنے لگا تھا- خوش نصیب کے باپ نے اس بات کا
تذکرہ اس سے کیا اور اس کا مشوره مانگا-
"بھائی جان- ایک تو خوشی کی بات یہ ہے کہ دوسری شادی کا ارادہ خوش نصیب کے
شوہر کا نہیں ہے- یہ مشوره خوش نصیب نے خود اسے دیا ہے- دوسری بات یہ ہے کہ
اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ان دونوں کا میڈیکل ٹیسٹ کروا
لیا جائے- ہوسکتا ہے دونوں میں سے کسی ایک میں کوئی چھوٹی موٹی خرابی ہو
اور اس کا علاج ہوجائے- اس قسم کے ٹیسٹ حالانکہ شادی سے پہلے ہوجانا چاہئیں
مگر یہاں کے لوگ ان بکھیڑوں میں پڑنا ہی نہیں چاہتے جس کی وجہ سے بعد میں
الجھنیں پیدا ہوتی ہیں- میرا ایک دوست ڈاکٹر ہے- اس کا بہت بڑا میٹرنی ہوم
بھی ہے جسے اس کی گائنی ڈاکٹر بیوی چلاتی ہے اور وہ بھی یہاں بیٹھتا ہے-
اپنی اچھی کارکردگی کی وجہ سے دونوں میاں بیوی نے بہت شہرت کمائی ہے- ان کے
علاج سے بہت سے لوگوں کو فائدہ بھی ہوا ہے-"
بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کا مشوره مان لیا- احتشام دونوں کو اپنے ڈاکٹر
دوست کے پاس لے گیا- احتشام ان کا تعارف ڈاکٹر سے کروا کر چلا گیا تھا کیوں
کہ معاملہ ہی ایسا تھا- وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی موجودگی سے اس کی
بھتیجی خوش نصیب کسی قسم کی بے سکونی محسوس کرے- ڈاکٹر امیر الدین سے اور
اس کی بیوی خوش نصیب سے مختلف قسم کے سوالات کرنے لگی-
ڈاکٹر امیر الدین سے بڑی خوش اخلاقی اور نرمی سے ملا تھا- امیر الدین اس کے
رویے سے بے حد متاثر تھا اور دل میں سوچ رہا تھا کہ اگر تمام ڈاکٹر ایسے ہی
ہوجائیں تو لوگوں کے دلوں سے ان کے بارے میں طرح طرح کے جو گلے شکوے ہیں وہ
ختم ہوجائیں-
ڈاکٹر اور اس کی بیوی نے ان کے ایچ آئی وی، بلڈ گروپ، فرٹیلٹی اور جینیٹک
ٹیسٹس تجویز کیے تھے- وہاں کے ماحول کو دیکھ کر اور ان ٹیسٹوں کو دیتے دیتے
امیر الدین تو کافی نروس نظر آنے لگا تھا جب کہ خوش نصیب ذرا بھی پریشان
نہیں تھی- وہ درود شریف پڑھ پڑھ کر دعائیں کر رہی تھی کہ بہتری کی کوئی
صورت پیدا ہوجائے- ڈاکٹر کی بیوی نے خوش نصیب کی بہت ڈھارس بندھائی اور اس
سے کہا کہ وہ اطمینان رکھے- اگر کسی خرابی کی نشاندھی ہو بھی گئی تو اس کا
علاج ممکن ہے- میڈیکل سائنس نے بہت ترقی کر لی ہے-
ڈاکٹر نے امیر الدین کو رپورٹیں لینے کے لیے تیسرے روز بلایا تھا- وہ تیسرے
روز گم سم سا اس کے پاس پہنچ گیا- وہ خوش نصیب کو ساتھ نہیں لایا تھا-
اتفاق کی بات تھی کہ ڈاکٹر اکیلا ہی بیٹھا تھا- اس کی بیوی بھی وہاں نظر
نہیں آ رہی تھی- شائد وہ کوئی ڈلیوری کیس دیکھنے چلی گئی تھی-
امیر الدین کو دیکھ کر ڈاکٹر کے ہونٹوں پر مخصوص مسکراہٹ آگئی- اس نے اسے
بیٹھنے کا اشارہ کیا اور بولا- "مبارک ہو- دونوں میاں بیوی کی رپورٹیں ٹھیک
آئی ہیں- اس کی اطلاع میں نے احتشام کو دے دی ہے-" یہ کہہ کر اس نے دو سفید
لفانے جن میں رپورٹیں رکھی تھیں اس کے حوالے کردیں-
امیر الدین کا منہ حیرت سے کھل گیا- اس نے تھوک نگل کر کہا- "رپورٹیں اگر
ٹھیک ہیں تو پھر ڈاکٹر صاحب میں اب تک باپ کیوں نہیں بن سکا؟"
ڈاکٹر نے اس کے چہرے کی جانب غور سے دیکھا اور دیکھتا ہی رہا- ڈاکٹر کے اس
طرح دیکھنے پر امیر الدین گھبرا گیا تھا- اس کے چہرے پر پسینے کے قطرات نظر
آنے لگے- جانے کیوں اس میں ڈاکٹر سے نظریں ملانے کی ہمت نہ رہی تھی- وہ
دوسری طرف دیکھنے لگا-
تھوڑی دیر تک اسے گہری نظروں سے دیکھنے کے بعد ڈاکٹر ہونٹوں پر اپنی مخصوص
مسکراہٹ لا کر بولا- "باپ بھی بن جاؤ گے اگر خاندانی منصوبہ بندی والی
تدابیر پر عمل کرنا چھوڑ دو-"
(ختم شد) |