سکول کے بچوں کے والدین میرے پاس شکایت لے کر آئے کہ
ہمارا بچہ گھر میں بد تمیزی کر تاہے۔ برتن توڑتا ہے۔ بھائی بہنوں کے ساتھ
جھگڑا کرتا ہے۔ ہماری بات نہیں مانتا۔ کوئی کام کہ دیا جائے تو نہ صرف کرنے
سے انکار کر دیتا ہے بلکہ آگے سے کھری کھری سنا دیتا ہے۔ رشتوں کا کوئی
احترام نہیں کرتا۔ گالم گلوچ کرتا ہے۔ ہم آپ کو بچے کی ماہانہ فیس کی مد
میں ہزاروں روپے دیتے ہیں اور آپ اس کی یہ تربیت کرتے ہیں کہ اس کو یہ ہی
نہیں پتہ کہ میں نے کس سے بات کس طرح سے کرنی ہے؟ ۔
میں نے بچے کو ان کے سامنے بلایا اور اس سے پوچھا کہ جو سب کام آپ گھر میں
کرتے ہیں کیا ہم آپ کو ان کی تربیت دیتے ہیں یا نہیں؟ بچے کا جواب نہیں میں
تھا۔ میں نے بات شروع کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے تو آپ جن تمام مسائل کا
تذکرہ کر رہے ہیں ان سب چیزوں کی تربیت ہم لوگ نہیں دیتے۔اس میں آپ کے گھر
کی تربیت کا سب سے اہم ہاتھ ہے۔ بچہ سکول میں پڑھنے کے لیے چار سے چھ گھنٹے
گزارتا ہے۔ اس کی نگرانی کے لیئے ہمہ وقت آٹھ سے دس لوگ سکول میں موجود
ہوتے ہیں جس میں ٹیچر زسے لے کر صفائی کرنے والی مائی اور پرنسپل بھی شامل
ہیں۔ وہ تمام لوگ سکول میں بیٹھ کر بچوں کو اس طرح کی تربیت ہر گز نہیں
دیتے۔
دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے اٹھارہ سے بیس گھنٹے بچہ گھر میں گزارتا ہے۔ اگر
اتوار بھی شامل کیا جائے تو یہ وقت اور بھی بڑھ جاتاہے ۔ بچہ ہر وہ کام کرے
گا جو وہ اپنے سامنے ہوتا دیکھے گا۔ جو آپ لوگ اس کے سامنے بولیں گے وہی
بچہ سُنے گا۔ اور جیسے ہی اس کو موقع ملے گا وہ اس کو دہرائے گا۔ اگر آپ
اپنے بزرگوں سے اچھا سلوک کریں گے تو بچے بھی آپ کے ساتھ اچھا سلوک کریں
گے۔اپنے میاں بیوی کے درمیان ہونی والے لڑائی جھگڑے کے تما م تر اثرات آپ
کی اولاد پر ہوتے ہیں۔اگر آپ ایک دوسرے پر چلائیں گے تو بچے بھی سمجھیں گے
کہ چلانا اچھی بات ہوتی ہے۔ اگر اس کے سامنے بچے ایک دوسرے کو گالی دیں گے
اور کوئی ان کو روکے گا نہیں تو وہ یہی تصور کریں گے کہ گالی دینا اچھی بات
ہوتی ہے۔ اگر ان کے ایک دوسرے کو مارنے کی حوصلہ افزائی ہوگی وہ پھر بھی وہ
شیر ہوجائیں گے۔
اگر آپ اپنے بچے کو درست اور اچھا دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کو گھر میں اچھا
ماحول دیں۔بچہ اگر ٹی وی دیکھ رہا ہے تو وہ یہ کام گھنٹوں کر رہا ہوتا
ہے۔کوئی اس کو آکر اٹھاتا نہیں ہے۔ اگر بچہ ضد کر رہا ہوتو ہم اس کی ہر بات
مانتے ہیں۔اپنا موبائل اس کے حوالے کر دیتے ہیں اور وہ بیٹھ کر نیٹ پر
کارٹون اور نہ جانے کیا کیا دیکھتا رہتا ہے۔ ان سب باتوں میں سکول کاکیا
کردارہے؟ جو خامیاں اور برائیاں آپ کے اندر ہیں وہ چاہتے نہ چاہتے ہوئے آپ
کے بچوں میں منتقل ہو جائیں گی۔اگر آپ خود بیٹھ کر دوسروں کی بد خوئیاں کر
رہے ہونگے اور اپنے بچوں سے یہ امید رکھیں گے کہ وہ ایسا نہ کریں تو یقینا
آپ غلطی پر ہیں۔جس طرح بچے آپ کی اچھی باتوں کو اپناتے ہیں اسی طرح وہ آپ
کے اندر پائی جانے والی بری باتوں کو بھی اپناتے ہین۔اچھی باتوں کے اثرات
کو دیکھ کر آپ خوش ہوتے ہیں اور بری باتوں کے اثرات کو دیکھ کر آپ کہتے ہیں
کہ یہ بات اس نے کہیں اور سے سیکھی ہوگی۔حالانکہ بچہ آپ سے سب کچھ سیکھے گا۔
اچھائی بھی اور برائی بھی۔اگر آ پ اپنی کمزوریا ں اور برائیاں دور کر لیں
یا کوشش کریں کہ وہ بچوں کے سامنے ظاہر نہ ہوں تو آپ یقینا اپنے بچے کے اند
ر اس کا عکس ضرور دیکھیں گے۔
|