مرد شادی محبوبہ سے کرتا ہے مگر زندگی اسکو بیوی کے ساتھ
گزارنی ہوتی ہے ۔اگر بیوی کو بھی محبوبہ کی طرح رکھے تو دونوں میں محبت
قائم رہے ۔اسی طرح بیوی شادی کے بعد شوہر کی پسند ناپسند کا اس طرح خیال
نہیں رکھتی جس طرح شادی سے پہلے اس دوران رکھتی تھی جب منگنی کے بعد کا
گولڈن پیریڈ تھا ۔آج ہماری سوسائٹی میں طلاق کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ گیا
ہے ۔دونو ں میاں بیوی میں عدم برداشت کا عنصر خاص وجہ ہے ۔جب ہم بچے تھے ہم
نے کبھی طلاق کا نام نہیں سنا تھا مگر آج کل بچے بچے کو پتا ہے اس بارے میں
کونکہ ہر دوسرے گھر میں ہو رہی ہے طلاق ۔
شوہر غصے میں طلاق دے دیتا ہے اور بعد میں پشتاتا ہے تو کہیں گھر والوں کے
دباؤ میں آ کر دی جاتی ہے طلاق ۔دونوں سورتوں میں نقصان دونوں کا ہوتا ہے
اور ان سے بھی بڑھ کر انکے بچوں کا ہوتا ہے ۔انکی پوری شخصیت متاثر ہوتی ہے
اور پھر وہ معاشرے کے رحم و کرم پے ہوتے ہیں ۔
اللّه کو حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسند جو چیز ہے وہ طلاق ہے ۔اگر
کوئی عورت بلاوجہہ طلاق کا بار بار مطالبہ کرتی ہو تو وہ جنت کی خوشبو بھی
نہیں سونگھ پاۓ گی ۔مگر آج کل شادی شدہ زندگی میں ذرا سی تکلیف آ جائے تو
بہت سی عورتیں بجاے صبر سے کام لینے کے فورن طلاق کا مطالبہ کرنے لگتی ہیں
۔پہلے کی عورت ہر حال میں شوہر کا ساتھ دیتی تھی معاشی حالات سہی نہیں بھی
ہوتے تھے طب بھی کم میں گزارہ کر لیتی تھی مگر آج کل کی لڑکیوں میں صبر اور
برداشت کا مادہ کم ہے ۔پھر ماں باپ بھی کہتے ہیں بیٹی ہم ہیں سسرال میں
کوئی سختی برداست مت کرنا جبکہ پہلے کے ماں باپ کہتے تھے اب سسرال میں ہی
بسنا چاہے بہت کچھ برداشت کرنا پڑے ۔اور پھر واقعی کچھ عرسے میں سب ٹھیک ہو
جاتا تھا ۔اللّه کرے کہ کسی کا گھر نہ ٹوٹے کسی کے بچے دربدر نہ ہوں ۔غصے
میں خود پے قابو پانا آ جائے دونوں کو تو بعد میں پشتانا نہ پڑے اور روز
روز یہ خبر سننے کو نہ ملے کہ آج پھر ایک بیٹی کو طلاق ہو گئی ۔آج پھر ایک
بیٹے کا گھر برباد ہو گیا ۔
|