پاکستان کے سابق وزیرِاعظم نواز شریف بدستور لاہور کی
سروسز ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں جہاں بدھ کو بھی ان کی جسم میں پلیٹلیٹس کی
تعداد میں اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آیا۔
پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی وزیر صحت یاسمین راشد نے ہسپتال میں ان سے
ملاقات کی جس کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے
بتایا کہ 'تشخیص کا عمل جاری ہے جس کے مکمل ہونے پر پتہ چلایا جا سکے گا کہ
نواز شریف کی جسم میں پلیٹلیٹس کم ہونے کی وجہ کیا ہے‘۔
|
|
انہوں نے بتایا کہ نواز شریف کے جسم میں بدھ کو پلیٹلیٹس کی تعداد 29 ہزار
سے گر کر سات ہزار تک آ گئی تھی تاہم انہیں پلیٹلیٹس لگائے جا رہے ہیں۔
ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو بہترین طبی سہولیات فراہم
کی جا رہی ہیں اور وہ ان سے مطمئن بھی ہیں۔
ان کے مطابق 'انہیں برش اور شیو نہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے‘۔
یاد رہے کہ نواز شریف کو طبیعت ناساز ہونے اور جسم میں پلیٹلیٹس کم ہونے کی
وجہ سے نیب لاہور کی حوالات سے پیر اور منگل کی درمیانی شب سروسز ہسپتال
منتقل کیا گیا تھا۔
تاہم پلیٹلیٹس کی کمی کی وجہ سے نواز شریف کو کس قسم کی پیچیدگیوں کا خطرہ
ہو سکتا ہے اس کے لیے یہ جاننا مددگار ثابت ہو سکتا ہے کہ پلیٹلیٹس ہوتے
کیا ہیں اور انسانی جسم میں ان کا کیا کام ہوتا ہے؟
|
|
پلیٹلیٹس کیا ہوتے ہیں؟
پلیٹلیٹس انسان کے خون کے اندر گردش کرتے پلیٹ کی شکل کے چھوٹے چھوٹے ذرے
ہوتے ہیں جن کے گرد جھلی ہوتی ہے۔ ان کا کام جسم سے خون کی انخلا کو روکنا
ہوتا ہے۔
لاہور کے شیخ زید ہسپتال کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفر اقبال امراض باطنیہ کے
ماہر ہیں۔ بی بی سی سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ 'پلیٹلیٹس بنیادی طور
پر بلیڈنگ کو پلگ کرتے ہیں۔ یہ خون کے ساتھ گردش کرتے رہتے ہیں اور کہیں
بھی کٹ یا خراش لگنے کی صورت میں وہاں جمع ہو کر کلاٹ (خون کا لوتھڑے) بنا
لیتے ہیں‘۔
پلیٹلیٹس کیا کام کرتے ہیں؟
اس کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ پلیٹلیٹس چھوٹی چھوٹی ایسی پلیٹس ہیں جو
کسی بھی جگہ جہاں خون کا اخراج ہو اس مقام پر پہنچ کر وہاں بند باندھ دیتے
ہیں۔ خون کا یہ اخراج اندرونی بھی ہو سکتا ہے اور بیرونی بھی۔
بیرونی طور پر جسم پر زخم آنے کی صورت میں بہنے والا خون اور ایسی خراشیں
یا زخم جو اندرونی طور پر آتی ہیں، پلیٹلیٹس ان سے خون کو رسنے یا خارج
ہونے سے روکتے ہیں۔
ڈاکٹر ظفر اقبال کے مطابق یہ عمل انسان کے جسم میں جاری رہتا ہے۔
'ہم جو کھانا کھاتے ہیں اس دوران اندرونی خراشیں آ سکتی ہیں یا جیسا کہ اگر
سر پر چوٹ آئے تو دماغ کے اندر بہت نازک کیویٹیز ہوتی ہیں اور اگر وہاں
اندورنی طور پر خون کا اخراج ہو تو اس سے نقصان ہو سکتا ہے‘۔
پلیٹلیٹس کی کمی سے کیا نقصان ہو سکتا ہے؟
پلیٹلیٹس کی غیر موجودگی میں خون دماغ میں جمع ہونا شروع ہو جائے گا اور اس
میں غیر معمولی دباؤ کا سبب بنے گا۔
ڈاکٹر ظفر اقبال نے بتایا کہ اس سے کئی پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں۔
'اگر پلیٹلٹس کی جسم میں کمی ہو تو برین ہیمریج یعنی دماغ میں نس کے پھٹنے
یا خون کے رسنے کا عمل شروع ہونے کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے‘۔
وہ بتاتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ ایک صحت مند جسم میں پلیٹلیٹس کی تعداد ڈیڑھ
لاکھ سے ساڑھے چار لاکھ تک ہوتی ہے۔ یہ انسان کی بون میرو یعنی ہڈی کے گودے
کے اندر ضرورت کے مطابق قدرتی طور پر بنتے رہتے ہیں۔
|
|
اگر پلیٹلیٹس دس ہزار سے کم ہو جائیں تو؟
جسم میں ان کی زیادتی اور کمی، دونوں صورتیں عموماً کسی بیماری کی علامت
ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر ظفر اقبال کے مطابق 'کسی انسان کے جسم میں پلیٹلیٹس کی
تعداد پچیس ہزار یا دس ہزار تک بھی گر جانا زیادہ پریشانی کی بات نہیں ہوتی۔
'اس کے بعد مصنوعی طور پر اس مریض کو پلیٹلیٹس لگا کر ان کی تعداد بڑھا دی
جاتی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ مینیؤل طریقے سے بھی ٹیسٹ کیا جائے تاکہ ان کی
صحیح تعداد کا درست اندازہ لگایا جا سکے‘۔
تاہم اگر ان کی تعداد دس ہزار سے گر جائے تو اس صورت میں جسم سے خون کے
انخلا کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
بلیڈنگ یا خون کا انخلا اندرونی اور جلد کے نیچے خراشوں کی صورت میں بھی ہو
سکتا ہے۔ اس میں انسان کی ناک سے بھی خون آ سکتا ہے۔ اگر بیرونی طور پر
کوئی خراش یا زخم لگ جائے تو خون کا بہاؤ نہیں رکتا۔
پلیٹلیٹس کم کیوں ہوتے ہیں؟
ڈاکٹر ظفر اقبال کے مطابق جسم میں پلیٹلیٹس کی کمی کی کئی وجوہات ہو سکتی
ہیں۔ ان میں انفیکشن، گردوں کی بیماری، کئی ادویات کے اثرات یا جسم کے
مدافعاتی نظام میں خرابی شامل ہیں۔
'آٹو امیون سسٹم کی وجہ سے بھی پلیٹلیٹس میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اس میں
ہوتا یہ ہے کہ جسم اپنے ہی مدافعاتی نظام کے ساتھ لڑنا شروع کر دیتا ہے۔'
’امراض قلب کے مریضوں میں پلیٹلیٹس کو کام سے روکا جاتا ہے‘
تاہم ڈاکٹر ظفر اقبال کے مطابق دل کے امراض کے وہ مریض جن کے جسم میں
سٹینٹس ڈالے گئے ہوں انہیں ایسی ادویات دی جاتی ہیں جو پلیٹلیٹس کو غیر
فعال کرتی ہیں۔
'ان ادویات کی مدد سے پلیٹلیٹس کو اپنا کام کرنے سے روکا جاتا ہے تاکہ وہ
کلاٹ یا خون کا لوتھڑا نہ بنا پائیں۔'
سٹینٹ کی صورت میں قدرتی طور پر پلیٹلیٹس سٹینٹ کی جگہ پر یا اس کے دل کی
شریانوں میں حرکت کی وجہ سے پیدا ہونے والی خراشوں میں جا کر کلاٹ بنا دیتے
ہیں۔ اس طرح مریض کے دل کو خون کی فراہمی میں کمی ہو جاتی ہے جس سے دل کا
دورہ پڑنے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایسے مریضوں کے معالج انہیں ان کی ضروریات کے مطابق ایسی
ادویات یا ’اینٹی پلیٹلیٹ ایجنٹ‘ تجویز کرتے ہیں جو پلیٹلیٹس کی صلاحیت کو
محدود کر دیتی ہیں یعنی انہیں اپنا کام کرنے سے روکتی ہیں۔
تاہم ڈاکٹر ظفر اقبال کا کہنا تھا کہ ضروری نہیں کہ ایسی ادویات جسم میں
پلیٹلیٹس کی کمی کا سبب بنیں۔
|