اساتذہ و طلبۂ علوم دینیہ کے لیے امام احمد رضا کے تعلیمی و تعمیری افکار کی عصری معنویت

اساتذہ کا احترام حصولِ علم میں معین ہے۔ طلبہ کے لیے تعلیمی ذرائع مہیا کرنا، ان کی بہتر تربیت کے لیے کوشاں رہنا تعلیمی شعبے میں لازمی جُز کی حیثیت رکھتا ہے۔ امام احمد رضا قادری محدث بریلوی (م۱۳۴۰ھ/ ۱۹۲۱ء) عظیم مصنف، عالم، محقق، مصلح اور ماہرِ علم و فن تھے؛ تعلیمی رموز سے آگاہ بھی؛ آپ نے درس گاہ، نصاب، طلبہ کی تربیت کے اُصول، اساتذہ کا اکرام، ان کی ذمہ داریاں جیسے عناوین پر بہت مفید تدابیر دی ہیں۔ جن پر عمل کر کے ہم اپنے تعلیمی نظام کو مستحکم، پختہ اور منظم کر سکتے ہیں۔

طلبا کو وظائف: امام احمد رضا تحریر فرماتے ہیں: ’’طلبا کو وظائف ملیں کہ خواہی نخواہی گرویدہ ہوں۔‘‘ ( فتاویٰ رضویہ، رضا اکیڈمی ممبئی، جلد ۱۲،ص۱۳۳)

ایک صدی قبل جب کہ تعلیمی فیلڈ میں طلبا کو وظائف دینے کا باقاعدہ کوئی اہتمام نہیں تھا، اس کی افادیت مستقبل میں کس قدر ہو گی ،اسے امام احمد رضا نے بہ خوبی سمجھ لیا تھا۔ اس نکتے کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ طلباجومعاشی مشکلات کے سبب تعلیم چھوڑ بیٹھتے ہیں؛ وظیفہ ملنے پر وہ تعلیم سے محروم نہیں رہ سکیں گے، اور قوم کو ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانے کا پورا موقع بھی ملے گا۔امام احمد رضا کے اس نکتے پر اگر عمل کی سبیل نکالی جاتی تو قابل افراد کی خاطر خواہ تعداد آج موجود ہوتی اور وہ والدین جو اپنے بچوں کو افلاس و غربت کے سبب کام کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں وہ شوق سے مدرسہ بھیجتے۔علوم سے آراستہ کرواتے۔

جو کام ہمارا اپنا تھا اس سے ہم دور ہو رہے؛ جب کہ ایک صدی قبل مفکر اسلام امام احمد رضا نے فکروں کو بیدار کیا تھا۔ اغیار نے اس پہلو کو دیکھا اور عمل کیا، آج متعدد ممالک بالخصوص جو ترقی یافتہ کہلاتے ہیں وہاں تعلیم کی مفت سہولت دستیاب ہے، ذہین طلبا کو وظائف دیے جاتے ہیں۔ برطانیہ میں ۱۸؍ سال کی عمر تک تعلیم مفت ہے اور وظیفہ بھی دیا جاتا ہے پھر جو اعلیٰ تعلیم کا عزم رکھتے ہیں انھیں آگے بھی وظیفہ دیا جاتا ہے، اس طرح وہ اپنے قومی دھارے کو مضبوط کر رہے ہیں، ہر فیلڈ کے لائق افراد تیار کر رہے ہیں ، تعلیم کی طرف لوگوں کو مائل کر رہے ہیں۔ اور یہاں معاملہ برعکس ہے، گرچہ بعض مدارس کے بعض شعبہ جات میں اس سمت پیش رفت ہوئی ہے، مثلاً الجامعۃالاشرفیہ مبارک پور، جامعہ امجدیہ گھوسی، جامعۃ الرضا سمیت بعض مدارس؛ اور معاصر علوم کے اداروں میں اس پر توجہ ہے۔ ضروری ہے کہ مدارسِ اسلامیہ کے ذمہ داران غریب و نادار اور مفلس طلبہ کو وظائف دے کر ان کے تعلیمی سفر کو مضبوط و مستحکم کریں؛ اس کا نتیجہ یہ بھی ظاہر ہو گا کہ طلبہ دل جمعی سے پڑھائی کریں گے۔عوام کو چاہیے کہ مدارس کو مالی تعاون مستقل فراہم کریں۔

مدرس اور ان کی قابلیت کا اعتراف: امام احمد رضا اپنے تعلیمی منصوبے میں تحریر فرماتے ہیں: ’’مدرّسوں کی بیش قرار تنخواہیں ان کی کار روائیوں پر دی جائیں کہ لالچ سے جان توڑ کر کوشش کریں۔‘‘(حوالۂ سابق)

مرحلۂ تربیت میں معلم کے کردار کو اَساسی حیثیت حاصل ہے، لیکن معلم کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ قومی و ملی تعمیر کی لگن رکھتا ہو، اور اس کا عقیدہ صحیح و درست ہو۔ وہ اپنی تدریس میں حق و صداقت کی تعلیم دے، نہ کہ ایسی تعلیم- جس سے فسادِ فکر واقع ہو۔ امام احمد رضا نے مدرس کے لیے ایسے ضابطے دیے ہیں جن پر عمل کر لیا جائے تو جو طلبا تیار ہوں گے ان سے اشاعتِ حق کا فریضہ بہ طریقِ احسن ادا ہو گا۔ امام احمد رضا نے اس پہلو سے جو ضابطے دیے ہیں انھیں بشکلِ نکات دیکھیں:
(۱) انہماک فلسفیات وتو غل مز خرفات نے معلم کے نورِ قلب کو منطقی اور سلامتِ عقل کو منتفی نہ کردیا ہو، کہ ایسے شخص پر خود ان علومِ ملعونہ سے یک لخت دامن کشی فرض اور اس کی تعلیم سے ضر ر اشد کی توقع۔
(۲) وہ عقائدِ حقہ اسلامیہ سنیہ سے بروجہ کمال واقف و ماہر اور اثباتِ حق و از ہاقِ باطل پر بعونہٖ تعالیٰ قادرہو ورنہ قلوبِ طلبا کا تحفظ نہ کرسکے گا۔
(۳) وہ اپنی اس قدر کو بہ التزامِ تام ہر سبق کے ایسے محل و مقام پر استعمال بھی کرتا ہے، ہر گز کسی مسئلۂ باطلہ پر آگے نہ چلنے دے، جب تک اس کا بطلان متعلم کے ذہن نشین نہ کرد ے۔
(۴) متعلم کو قبلِ تعلیم خوب جانچ لے کہ پورا سنی صحیح العقیدہ ہے، اور اس کے قلب میں فلسفۂ ملعونہ کی عظمت و وقعت متمکن نہیں۔
(۵) اس کا ذہن بھی سلیم او ر طبع مستقیم دیکھ لے، بعض طبائع خواہی نخوا ہی زیغ کی طرف جاتے ہیں، حق بات ان کے دلوں پر کم اثر کرتی اور جھوٹی جلد پیر جاتی ہے۔
(۶) معلم و متعلم کی نیتِ صالحہ ہو نہ اغراض فاسدہ ۔
(۷) تنہا اسی پر قانع نہ ہو بلکہ دینیات کے ساتھ ان کا سبق ہو کہ اس کی ظلمت اس کے نور سے متجلی ہوتی رہے، ان شرائط کے لحاظ کے ساتھ بعونہٖ تعالیٰ اس کے ضرر سے تحفظ رہے گا۔ اور اس تعلیم و تعلم سے انتفاع متوقع ہوگا۔ (فتاویٰ رضویہ (مترجم) ، برکات رضا پور بندر ، جلد ۲۳، ص ۶۳۵)

اُصولی مدرس کے لیے ان شرائط میں کوئی پہلو نہیں چھوٹتا۔ مطلوبہ شرائط کی روشنی میں فرض شناس مدرس کا تصور اُبھرتا ہے۔ امام احمد رضا ایسے قابل مدرس کے لیے ان کی خدمات کے پیش نظر عمدہ تنخواہ مقرر کرنے کی تلقین فرماتے ہیں کہ؛ جب وہ معاشی لحاظ سے آسودہ حال ہوں گے تو اپنی صلاحیتوں سے قوم کو راحت پہنچائیں گے اور جو طلبا ان کے گوشۂ تربیت میں ہوں گے وہ فکری لحاظ سے صحت مند ہوں گے۔یوں ہی طلبہ کے معیارِ تعلیم کی بلندی کے لیے ضروری ہے کہ امام احمد رضا کے افکار کو مشعلِ راہ بنایا جائے۔
 

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 256158 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.