غاصب جہاں جہاں بھی رہے جسموں پہ تو قبضہ کیے رکھاپران
کیلئے دلوں میں کسی نے پیارکوجنم نہیں دیا۔غاصب اپنے خیالات کے باعث خود کو
مظلوموں کاحاکم سمجھتے رہے اورجیسے دل چاہاان کے حقوق دبا کے بیٹھے رہے
پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد شرپسندوں نے لسانی سندھی ،بلوچی،سرائیکی
،پنجابی کوخوب ترویج دی لسانی وصوبائی تعصب کی آگ نے کئی زندگیوں کونگل لیا
کئی معصوموں کی جانوں سے کھیل کے پھربھی بجھنے کانام نہیں لیتی پنجاب کو
دوحصوں میں تقسیم کرکے رکھ دیاگیا ایک کوتوصرف پنجاب کانام دیاگیاجبکہ
دوسرے حصے کو جنوبی پنجاب کہہ کرلسانی تعصب کی ترویج کی گئی حالانکہ شمالی
اورجنوبی پنجاب تواس وقت تھے جب برصغیرپہ پاک وہندپہ انگریزقابض تھے
پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعدتوکسی شمالی جنوبی کاتصورنہیں رہتایہ
توساراپنجاب ہے لیکن نہیں حاکم ٹولے نے حاکمیت کا فائدہ
اٹھایااورتواورسرائیکی پنجابی کو خوب ہوادی اوراس میں جاگ پنجابی جاگ تیری
پگ نوں لگ گئی آگ سے خوب نام کمایااوردلوں میں اتنی نفرتیں پالیں گئی جیسے
سرائیکی بولنے والے اس پنجاب سے کیااس سیارہ زمین سے ہی نہیں بلکہ کسی
اورسیارہ سے زمین پرواردہوئے سوتیلی ماں جیسے سلوک صرف اورصرف سرائیکی خطہ
کے لوگوں سے پینڈوکہہ کرنفرت کااظہارکرنے والے تخت لہورنے جی بھرکے سرائیکی
وسیب کے حقوق غصب کیے چندسال پہلے کسی صاحب نے فرمایاتھا کہ دل دکھتاہے جب
یہ سچائی پتہ چلتی ہے کہ ایک لہوری پہ ترقیاتی بجٹ کا 128روپے خرچ
ہوااورایک راجنپوری پرصرف28روپے خرچ ہو۔یہی نہیں بلکہ ہرمیدان میں سرائیکی
وسیب کے ساتھ نہ انصافی کی گئی چاہے وہ تعلیم کامیدان ہویاصحت کا ۔تعلیم
اورصحت توبنیادی حقوق میں سے ہے پھران کے وسائل کی منصفانہ تقسیم کے
کھوکھلے نعروں کاپول یہاں کھلتاہے کہہ لہورکی تقریباً ایک کروڑ آبادی
اورسرائیکی وسیب کی 7کروڑ آبادی کیلئے سہولیات کا زراموازنہ فرمائیں ۔ایک
کروڑ آبادی والیوں کیلئے24یونیورسٹیاں اورسات کروڑآبادی والیوں کیلئے
3یونیورسٹیاں کااحسان ۔کوئی اپرپنجاب کا بیمارہوتو15بڑے ہسپتال اورکوئی
سرائیکی وسیب کاآدمی بیمارہوتوصرف ایک ہسپتال ۔میٹرو سروس تومہینوں میں
پایاتکمیل کوپہنچے جبکہ نشترگھاٹ پل کیلئے 60سالوں سے زائدکاعرصہ انتظارمیں
گزرے ۔وہاں کچی آبادی والوں کیلئے کارپٹ روڈ اوریہاں لاکھوں کی آبادی والوں
کیلئے سنگل روڈ جیسے قاتل روڈ کانام دیاجاتاہے جہاں آئے روز لوگ مرجاتے ہیں
۔سرائیکی وسیب کے ساتھ سوتیلی ماں جیساسلوک کوئی نئی بات نہیں تخت لہورنے
بڑے شوق سے وسیب کے حقوق کھائے ہیں اگرکوئی قسمت کامارانوکری کیلئے اپنی
cvجمع کرائے اورسرائیکی ہونے کابتادے تومجال ہے کہ نوکری مل سکے کئی وسیب
زادے وہاں سے صرف اورصرف سرائیکی ہونے کی وجہ سے خالی ہاتھ لوٹے سرائیکی
وسیب کے ساتھ ناانصافیوں کی کہانی ختم ہی نہیں ہوتی ٹائیلنٹ کے حوالے سے
بات کریں توسہولیات کے فقدان کے باوجودبھی وسیب میں لہورکی نسبت زیادہ
ٹیلنٹ ہے اسی لیے مقابلہ جات برائے مضمون نویسی تقریر مباحثہ میں عرصے سے
سرائیکی وسیب کے نوجوانوں نے اپنے جوہردکھائے مقابلہ جات میں ضلعی سطح
اورڈویژن سطح تک کوالیفائی کرتے ہوئے اپنے ضلع اورڈویژن کو ٹاپ کرنے والے
کس طرح صوبائی سطح پہ سرائیکی وسیب سے ہونے کے ناطے استحصال کاشکارہوتے ہیں
اس بات کا اندازہ اسی سے لگایاجاسکتاہے کہ ایک ڈیرہ غازی خان کے طالب علم
سے اپنے فوکل پرسن کوساتھ لانے اوراتھارٹی لیٹرپرتصویرتک کامطالبہ
کیاجاتاہے اورلاہورسے تعلق رکھنے والے طالبعلم بنااتھارٹی لیٹراورفوکل پرسن
کے مقابلے میں حصہ داربن جاتے ہیں ۔شلوارقمیض میں ملبوس سرائیکی شہزادہ
نگاہ حیرت سے دیکھاجاتاہے تضحیک وطنز کے نشترسینے میں چبھتے محسوس کرتے
ہوئے یقیناً وسیب شہزادے کی دل سے یہی آہ نکلتی ہوگی کہ کاش میں بھی لہوری
ہوتا۔مقابلے میں حصہ لے لیں ہارجیت مقدرہے ،جیت نہ سہی لہورتوگھوم لیں گے
کے جیسے دلاسے دیے جاتے ہیں ۔بدقسمتی سے کسی وسیب زادے کی پوزیشن آبھی جاتی
ہے تواستفہامیہ اندازمیں دوسرے ساتھیوں کے سوالوں کی بوچھاڑ
کاسامناکرناپڑتاہے اورہوبھی کیوں نہ سرائیکی شہزادے کی پوزیشن آجاناناقابل
یقین واقعہ جوٹھہرا۔سرائیکی وسیب سے ہرمیدان میں سوتیلی ماں جیساسلوک
روارکھاگیاآخرکب تک تخت لہورسرائیکی وسیب کے حقوق پامال کرے گاآخرکب تک
ہمارے ٹیلنٹ کی بے قدری کی جائے گی ؟آخرکب تک ہمارے تعلیمی حصے کے فنڈ
لہورکی گلی اورنالیوں کی تزائین وآرائش میں کی نظرہوتے رہیں گے؟آخرکب تک
ہمارے صحت سہولیات کے لیے بلکنے والے بچوں کاحق عاقبت اندیشن سیاستدانوں کی
پرتعیش زندگیوں کالقمہ بنتارہے گا؟آخرکب تک تخت لہورمیں سرائیکی
ہوناسزاتصورکیاجائے گا؟شلوارقمیض توپاکستان کاقومی لباس ہے پھرخودکوماڈرن
سمجھنے والے لہوری ایک طالبعلم کے لیے غیرموزوں لباس کیوں سمجھتے ہیں اپنے
وسیب کی نمائندگی کرنے والے ٹیلنٹڈ طالب علم کو’’اچھاآپ‘‘کے طنز کاکب تک
سامناکرناپڑے گا؟کب تک ظلم وناانصافی کی رات ڈھلے گی؟کب محبت وایثارکے جذبے
پیداہوں گے کب حقائق آشکارہوں گے؟کب حقوق کی یقینی فراہمی کاوعدہ پایہ
تکمیل کوپہنچے گا؟کب معیارتعلیم یکساں ہوگا؟کب صحت کی یکساں سہولیات سے
مستفیدہوں گے؟کب وسائل کی منصفانہ تقسیم کے کھوکھلے نعروں کاباب بندہوگا؟کب
آخرکب ہروسیب میں رہنے والا ان سوالوں کے جواب چاہتاہے بلاشبہ تخت
لہورسرائیکی وسیب کے بنیادی حقوق کاغاصب ہے اوراس بات کاادراک ہرصاحب فہم
کوہے کچھ تواس وجہ سے چپ ہیں کہ کہیں ان پہ آفت نہ ٹوٹ پڑے یاکوئی تخت
لہورکاپٹھواس سے خفانہ ہوجائے اورکچھ نے اس لیے ا پنے ہونٹ سی لیے ہیں کہ
وہ صرف اورصرف ذاتی مفادسے کام رکھتے ہیں جب ان پرکوئی مصیبت آئے تب دل میں
دردہوتاہے کہ ایہ ایساہوناچاہیے تھاویساہوناچاہیے تھاجوحق جانتے ہیں اوران
میں حق بات بولنے والے چندہیں مگردرددل رکھنے والے ہوتے ہیں اورباقی خاموش
ہیں اورظلم وناانصافی کے خلاف نہ بولنے والے بھی شریک جرم ٹھہرائے جاتے ہیں
بقول شاعر:’’ہمیں خبرہے لٹیروں کے سب ٹھکانوں کی ، شریک جرم نہ ہوتے
تومخبری کرتے‘‘۔
|