اس وقت جہاں دنیا کو دیگر لاتعداد مسائل کا سامنا ہے،
وہاں ایک بڑا سنگین مسئلہ بھوک اور افلاس کا بھی ہے، جہاں اقتصادی بحران
شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ہاں بھوک و افلاس شدید سے شدید تر ہوتی جا رہی
ہے،انسانی بچہ جب دنیا کی فضا میں پہلا سانس لیتا ہے تو سب سے پہلا واسطہ
بھوک سے پڑتا ہے اور وہ اپنے رزق کے سرچشموں کی طرف لپکتا ہے، جب انسان اس
دنیا میں آخری سانسوں پر ہوتا ہے تو بھی اس کے حلق میں کچھ ٹپکایا جاتا ہے
تاکہ اسے کچھ نہ کچھ توانائی مل سکے اور جب انسان اس دنیا سے رخصت ہو جاتا
ہے تو کہنے والے یہی کہتے ہیں کہ اس کے حصے کا رزق ختم ہو گیا، لہذا رزق
روٹی کا معاملہ ایسا ہے کہ جس سے انسان اپنی زندگی کے کسی سانس میں بھی بے
تعلق نہیں رہ سکتا۔ انسانی زیست کے لئے اس سے زیادہ اہم مسئلہ اور کیا ہو
سکتا ہے؟انفرادی زندگی سے آگے بڑھ کر انسان کی اجتماعی زندگی پر غور کریں
گے تو اس میں بھی یہی نظر آئے گا کہ قوموں کی تگ و تاز اور جدوجہد کے لئے
سب سے زیادہ جذبہ محرکہ معاش کا سوال ہوتا ہے۔معاش کی یہی اہمیت و افادیت
ہی تو تھی جس کے پیش نظر مارکس اس نتیجہ پر پہنچا کہ تاریخ انسانیت کی
تعبیرہی معاشی نقطہ نگاہ سے کی جا سکتی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مارکسی
اقتصادی تھیوری جو سائنسی اصولوں پر مبنی تھی اس کے آگے دنیا کے تمام
سرمایہ دار اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے کنکریٹ کا پل باندھ دیا تاکہ اس
معاشی تھیوری کا نفاد عمل میں نہ آئے اور رزق کے سرچشموں تک انکے علاوہ
کوئی شریک نہ ہو ۔ رزق سرچشمے سرمایہ دار کے قبضے میں آنے کے سبب آج دنیا
معاشی بحران میں ہے، یہ اسی استحصالی نظام سرمایہ داری کی کرشمہ سازی ہے کہ
اس نظام کے قائم کر دہ ادارے اپنے ہی نظام معیشت پر ماتم کناں ہیں اور ہر
سال ادارے اپنے اپنے اعدادوشمار پیش کرنے پر مجبور ہیں ۔ یہ اسی نظام کی
بدولت ہے کہ دنیا بھر میں بیاسی کروڑ انسان بھوک اور غذائی قلت کا شکار ہیں۔
یعنی دنیا کی کثیر آبادی ایسی ہے جسے دو وقت کی روٹی تو درکنار ایک وقت کی
روٹی بھی مشکل سے میسر آتی ہے۔ اس سلسلے میں گلوبل ہنگری انڈیکس کی 14
اکتوبر 2019 کی رپورٹ دنیا بھر کے حامل اقتدار کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ یہ
جرمن تنظیم (جی ایچ آئی)دنیا بھر میں غذائی قلت اور بھوک مری کا شکار ملکوں
کی عالمی درجہ بندی کو ہر سال تربیت دیتی ہے۔ اس میں مختلف ممالک کو اہم
علامتوں کی بنیاد پر رینکنگ کرتی ہے۔ غذائی کمی بھوک مری بچوں کی اموات
پانچ سال تک کے کمزور بچے اور بچوں کی جسمانی نشونما میں رکاوٹ وغیرہ کو
بنیاد بناکر رپورٹ مرتب کرتی ہے ۔ مذکورہ تنظیم کی رپورٹ کے مطابق پاکستان
28.5 پوانئٹس کے ساتھ بھوک اور غذائی قلت کے شکار 117 ملکوں میں شامل ہے۔
عالمی درجہ بندی میں پاکستانی 94 نمبر پر ہے۔ دنیا کی تیسری بڑی معیشت کا
دم بھرنے والا ہندوستان 102 پر کھڑا ہے، جنگوں سے زخم خردہ ملک افغانستان
108 درجہ پر نبگلہ دیش 88 پر، نیپال 73 پر، میانمار 69 پر، سری لنکا 66 ویں
نمبر پر موجود ہے۔ وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز کی جانب سے جون 2019 میں جاری
کردہ سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر 10 میں سے 4 بچے غذائی کمی کاشکار
ہیں۔ لڑکوں کی شرح 40.9 اور لڑکیوں کی شرح 39.47 فیصد ہے۔ پاکستان میں ہر
تیسرا بچہ وزن کی کمی کا شکار ہے۔ بلوچستان اور فاٹا کے علاقے بھوک اور
غذائی قلت سے زیادہ متاثر ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان
ملکوں میں ہوتا ہے جو سالانہ لاکھوں ٹن گندم اور چاول بیرون ملکوں کو فروخت
کرتا ہے لیکن دوسری جانب پاکستان ان ملکوں کی فہرست میں آگے ہے جہاں بچے
غذائی قلت کا شکار ہیں۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہو تا ہے
جہاں نومولود بچوں کی اموات اور غذائی قلت کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ ماہرین
کے مطابق پاکستان کا مسئلہ سماجی و اقتصادی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خوراک
موجود ہے لیکن رزق کے سرچشموں تک غریب عوام کی رسائی نہیں۔ دنیا میں بھوک
مری، غذائی قلت اور عالمی معاشی بحران کے اسباب جو بیان کیے گئے ہیں وہ یہ
ہیں کہ بین الاقوامی تنازعات، جنگیں، موسمیاتی تبدیلی۔ پوچھنا صرف یہ ہے کہ
ان مذکورہ بالا عوامل کیموجد کون ہیں؟ جنگ کا کاروبار کون کرتا ہے؟ چونکہ
اسلح بندی پر سالانہ ٹریلین ڈالر خرچ ہوتے ہیں چنانچہ بہت سی قوتوں کے
ذرائع روزگار جنگ سے وابستہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ کو معاشرتی ، سیاسی و
اقتصادی ادارہ کہنا درست ہوگا۔ انہی وجوہات کی وجہ سے جنگ موجود ہے حالانکہ
ہر کسی کو خبر ہے کہ یہ انسانیت کے لئے کس درجہ تباہ کن ہے، ہم سب جانتے
ہیں کہ جنگ پاگل پن ہے لیکن موجود ہے عسکری صنعتی کمپلیکس کو دشمنوں کی
ضرورت ہوتی ہے۔ دشمن نہ ہوں گے تو یہ صنعت مرجھا جائے گی جنگ عظیم دوم ختم
ہوئی تو اس اسلحہ ساز صنعت کو بحران کا سامنا ہوا۔ ایک نئے دشمن یعنی
کمیونزم کی دریافت نے اسے بچا لیا تاہم سرد جنگ ختم ہوئی تو اسے پھر ایک
خوف ناک بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ اسلحہ ساز کمپنیاں اور تحقیق ، حکومت اور
ذرائع ابلاغ میں موجود انکے ساتھی بھی بحران سے دوچار ہوئے۔ لوگوں نے امن
کے ثمرات میں حصہ داری مانگی۔ یعنی وہ لوگ سالانہ اسلح سازی پر خرچ ہونے
والے ٹریلین ڈالر کے تعمیری استعمال کی بات کرنے لگے۔ تاہم عین وقت پر اس
عسکری صنعتی کمپلیکس کو ایک بار پھر نیویارک پر ہونے والے 11 ستمبر کے
حملوں نے بچا لیا۔ یہ حملے بجائے خود جنگ نہیں تھے بلکہ انہیں انفرادی فعل
سمجھا جا سکتا تھا اور فوج کے بجائے ان کے خلاف پولیس کو سرگرم کرنے چاہئیے
تھا مگر اعلان یہ ہوا کہ یہ جنگ ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے سرد جنگ کی
جگہ لے لی ا س جنگ کو اسلحہ سازوں کی ضرورت سمجھا جا سکتا ہے۔ جنگ کی قیمت
اتنی زیادہ ہے جسکا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ عالمی سطح پر ہی جنگ کا
صنعتی ادارہ ایسا غالب ہے کہ ٹیکس کی رقم، پیداوری آمدن تعمیری اور پر امن
مقاصد کے لئے یا بھوک و افلاس مٹانے یا صحت پر استعمال نہیں ہو سکتی۔ دوسری
وجہ یہ تھی کہ موسمیاتی تبدیلیاں یعنی ماحولیاتی تباہی سامان جنگ نے فقط
175 ملین انسانوں کی جان ہی نہیں لی بلکہ ماحولیاتی تاریخ کا سب سے زیادہ
نقصان بھی پہنچا ہے، ویت نام جنگ کے دوران استعمال نباتات کش ادویات نے
شمالی اور مغربی سائیگون میں 6.2 بلین بورڈفیٹ اعلی درجہ کی لکڑی کے جنگلات
تباہ کر دئیے۔ بلکہ جو زمین کبھی انتہائی زرخیز تھی پھر بانجھ ہو گئی۔
دنیا میں دیگر جگہوں پر بھی قیمتی زرعی زمین بارودی سرنگوں اور کسٹر بموں
کے باعث ناقابل استعمال ہو گئی۔ 1990 کی خلیجی جنگ کے دوران 150 ملین بیرل
تیل بہہ گیا۔ اس جنگ میں یورینیئم کے بے شمار بم فائرکئے گیے جسکی گرد
اکثرکینسر کا سبب بنتی ہے اور یہ عشروں تک عراقی ماحول میں موجودرہے گی۔
افغانستان پر جو ہزاروں ٹن بارود کی بارش کی گئی ہے تو اسکا کیا اثر ہوگا؟
یہ بھوک و افلاس یہ غذائی قلت ، یہ معاشی بحران یہ جنگیں و عالمی تنازعات ،
معاشی منڈیوں کی لڑائی، تہذیبوں کی فنا ہی، موجودہ جمہوری نظام کے خدوخال
یہ شخصی آمریتیں ، یہ بادشاہیں اور ملوکیت سرمایہ دارانہ نظام کی پیدا کردہ
ہیں ہمیں اس موجودہ استحصالی نظام سرمایہ داری کی ضد کو تلاش کرنا ہے۔ ورنہ
،جو بھوک ہوتی ہے۔۔۔ بہت سفاک ہوتی ہے۔۔۔!!
|