آج جہاں خواتین کو خوبصورت بننے کا شوق ہیں وہیں مرد بھی
اب ان سے کم نہیں رہے کسی قسم کا کوئی تہوار ہو یا پھر شادی بیاہ خواتین کے
ساتھ ساتھ مر د حضرات بھی جازب نظر اور خوبصورت نظر آنے کیلئے جگہ جگہ
محلوں او ر بازاروں میں کھلے ہوئے معمولی اور غیر معیاری بیوٹی پارلرز کا
رخ کرتے ہیں جو ان سے بیوٹی کے نام پر ہزاروں روپے بٹور لیتے ہیں ۔ بیوٹی
پارلرز کے باہر بڑے بڑے خوبصورت اور دلآویز بینرز لگے ہوتے ہیں جن پر
خوبصورت خواتین کی تصاویر آویزاں ہوتی ہیں اور ان پر انتہائی پر کشش اور دل
موہ لینے والے جملے لکھے ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر اور پڑھ کر ایک بار تو
خواتین اور مرد حضرات ٹھٹھک جاتے ہیں اور انکے دل میں خوبصورت اور جازب
نظرلگنے کی خواہش مچلنے لگتی ہے ۔ خوبصورت روپ اور حُسن کے یہ دلدادہ مرد و
خواتین آخر ان دل موہ لینے والے انتہائی خوبصورت بیوٹی پارلرز پر سجے دھجے
ان بینروں سے متاثر ہو کر انکا رخ کر لیتے ہیں اور پھر بیوٹی پارلرز والوں
کی چاندی ہو جاتی ہے۔ بیوٹی پارلرز کے نام پر خواتین اور مرد حضرات میں
جلدی بیماریاں پھیلانے والے یہ نا تجربہ کارا اور غیر مستند بیوٹیشنز جو
انسانی جلد کے بارے میں اسکی ابجد سے بھی واقف نہیں ہوتے خواتین کو خوبصورت
بنانے کے دعوے کرتے ہیں اور زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے دکھائی دیتے
ہیں کہ ہم آپکو پیر کے انگوٹھے سے لیکر سر کے بالوں تک پر کشش بنا سکتے ہیں
جس سے آپ عام لوگوں سے منفرد نظر آئینگے۔ یہ بیوٹی پارلرز خواتین اور مرد
وں کو مختلف قسم کی خدمات فراہم کرتے ہیں جن میں بالوں کو رنگنا، گرتے ہوئے
بالوں کو روکنا، گنجے پن کا علاج،فیشن کی مناسبت سے مختلف بالوں کے اسٹائل،
چہرے کا فیشل، ماسک، پلکنگ، تھریڈنگ، چہرے کی جھریوں کا علاج، چہرے پر
نکلنے والے مختلف دانوں کا علاج، جلد کی خوبصورتی اور اسے تر و تازہ رکھنے
کیلئے مختلف لوشنز کا استعمال، ابرؤں کی بناوٹ، گالوں کی لالی، آنکھوں کی
خوبصورتی کیلئے ان پر کاجل کا استعمال، ہونٹوں کو چہرے کی مناسبت سے ان پر
لپ اسٹک لگانا، ناخن پالش، ہاتھوں پر مہندی کے ڈیزاین ، دلہن میک اپ، چہرے
اور گردن کا مکمل میک اپ وغیرہ وغیرہ شامل ہیں ۔ ہم اپنی خوبصورتی کو پیش
نظر رکھتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ وقتی طور کی اس خوبصورتی میں استعمال
ہونے والا میک اپ کا یہ سامان انتہائی مضر صحت، غیر معیاری اور انسانی جلد
کیلئے خطرناک ہو سکتا ہے کیونکہ یہ خطرناک کیمیکلز پر مشتمل میک اپ انہیں
ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مختلف بیماریوں جن میں جلد کا کینسر اور جلدی امراض
وغیرہ شامل ہیں میں مبتلا کرکے عمر بھر کیلئے روگ لگا سکتا ہے جو ہمیشہ
ہمیشہ کیلئے آپ کے چہرے کو بھدا اور انتہائی بد نما بنا دیتا ہے۔ یعنی وقتی
طور پر غیر معیاری میک اپ کا سہارا لیکر حسین نظر آنے والی خواتین اپنے
قدرتی حسن سے محروم ہو جاتی ہیں۔ ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ کیا جس بیوٹی
پارلر پر آپ جا رہی ہیں وہ عطائی اور غیر مستند خواتین تو نہیں چلا رہیں
اور کیا میک اپ میں استعمال ہونے والے عنصر اور ان پر مشتمل اجزاء کہیں
نقلی یا پھر جعلی اور کیمیکل سے تیار شدہ تو نہیں ہیں جو آپکی صحت کیلئے
انتہائی نقصان دہ ہوں؟ ہمیں جہاں اپنے آپ کو جازب نظر آنا ہے و ہیں یہ خیال
بھی رکھنا ہے کہ کیا ہمارا انتخاب ہر لحاظ سے درست ہے؟ کیا جس بیوٹی پارلر
میں آپ جا رہی ہیں وہاں کی بیوٹیشن ایک تجربہ کار ، اپنے فن میں ماہر اور
کسی منظور شدہ اور اچھے منظور شدہ ادارے سے سند یافتہ ہے یا پھر وہ عطائی
بیوٹیشن تو نہیں جو صرف پیسے بٹورنے کی خاطر خواتین کو خوبصورتی کے نام پر
لوٹ رہی ہے اورانہیں مختلف جلدی امراض میں مبتلا کر رہی ہے۔ خواتین کو
بیوٹیشن کے چناؤ میں انتہائی محتاط ہونا چاہئے اور انہیں ایک ایسے بیوٹیشن
کا چناؤ کرنا ہے جو انکی جلد کو سمجھتی ہو اور جلد کے معاملات میں مکمل طور
پر آگاہی رکھتی ہو ۔ جہاں یہ بیوٹی پارلرز والے خواتین سے ہزاروں روپے بٹور
رہے ہیں وہیں جگہ جگہ کھلے ہوئے ان بیوٹی پارلرز میں جا کر ہم مختلف جلدی
امراض اور اپنے سر کے بالوں کو ڈرائرز سے خشک کروا کر اور انہیں غیر معیاری
اور خطرناک کیمیکلز پر مشتمل شیمپو سے دھلوا کر نہ صرف بالوں کو نقصان
پہنچا رہے ہوتے ہیں بلکہ ہم اپنے سر کی جلد میں انفیکشن پھیلا کر اسکی قمیت
ادا کر رہے ہوتے ہیں اور عام مرد اور خواتین اس سے واقفیت نہ رکھنے کی بنا
پر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بالوں کے امراض میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔ انتہائی
ناقص کیمیکل زدہ میک اپ کا سامان استعمال کرنے والے یہ بیوٹی سیلون خواتین
اور مردوں میں میک اپ کے دوران استعمال ہونے والے آلات کو ایک دوسرے پر
استعمال کرتے رہتے ہیں اور انکے پاس ان آلات کی سٹرلائیزیشن (جراثیم کش )
کا مناسب انتظام نہیں ہوتا جس سے میک اپ میں استعمال ہونے والے برش، اسفنج،
ٹویزرز، تولیہ اور دوسرے اوزار جراثیم ذدہ ہو جاتے ہیں جس سے یہ جراثیم ایک
دوسرے کی جلد میں منتقل ہوتے رہتے ہیں اور جلدی امراض اور جلدی کینسر اور
ہیپا ٹا ٹئیٹس کا باعث بنتے ہیں۔ اسی طرح ان غیر معیاری بیوٹی پارلرز اور
سیلون پر کام کرنے والے انتہائی نا اہل ہوتے ہیں جو مناسب طور پر ویکسنگ کا
استعمال نہیں کرتے اور یہ ویکس کئی مرتبہ مختلف خواتین کی جلد پر استعمال
کی جاتی ہے جس سے یہ جراثیم زدہ ہو جاتی ہے اور مختلف عورتوں میں منتقل ہو
کر بیماریاں پھیلانے کا باعث بنتی ہے ۔ اگر یہ ویکس ایک سے ذیادہ خواتین پر
استعمال کی جائے تو یہ جراثیم سے آلودہ ہو جاتی ہے اور بکٹیریا کو ایک سے
دوسری خواتین میں پھیلاتی رہتی ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔ اسی طرح نا اہل
اور عطائی بیوٹیشن جو لیزر کے ذریعے جھریوں کو ختم کرنے اور بالوں کے گرنے
کے علاج کا دعویٰ کرتے ہیں وہ بھی خواتین اور مردوں میں مختلف مسائل پیدا
کر کے انہیں گوناں گوں مسائل کا شکار کر رہے ہیں۔ یہ خواتین بیوٹیشن گیلے
ہاتھوں سے خواتین کی جلد کو چھوتی ہیں اور انہوں نے ہاتھوں پر دستانے نہیں
پہنے ہوتے جو مضر صحت ہے۔ بالوں کو سیدھا کرنے یا پھر گھنگھریالے بنانے
کیلئے جو سٹریٹنر استعمال کیا جاتا ہے اس سے بال گرنا شروع ہو جاتے ہیں
کیونکہ ہیئر ڈرائر سے نکلے والی انتہائی گرم ہوا جسکا درجہ حرارت انسانی
جسم سے موافقت نہیں رکھتا اور اتنا ذیادہ ہوتا ہے کہ جب وہ بالوں پر لگتی
ہے تو اس سے بالوں میں موجود قدرتی لینولن ( قدرتی تیل جو بالوں اور انکی
جڑوں میں پایا جاتا ہے) تباہ ہو جاتا ہے جس سے بالوں کی قدرتی چمک ختم ہو
جاتی ہے اور وہ روکھے اور سوکھے ہو جاتے ہیں اور وہ گرنا شروع ہو جاتے ہیں۔
مختلف گھٹیا جعلی اور نقلی تیل، بلیچنگ کیمیکل، بالوں کو مختلف رنگ دینے
والا آمیزہ اور بالوں میں استعمال ہونے والی غیر معیاری کریمیں بالوں کو
تباہ کر دیتی ہیں۔ اسی طرح خواتین کے چہرے وغیرہ کے بالوں کو نوچنے کیلئے
جو ٹوئزر(موچنا) استعمال کیا جاتا ہے ایک غیر تریبت یافتہ بیوٹیش کی معمولی
سی غلطی خواتین اور مردوں کو کاربنکل ( بال کی جڑ میں پیدا ہونے والا
انفیکشن) کے مرض میں مبتلا کر سکتی ہے جس سے بال کی جڑ میں انفیکشن پیدا ہو
جاتا ہے اور جلد کے بافتے متاثر ہو کر تباہ ہو جاتے ہیں یہ انتہائی خطرناک
ہوتا ہے اور پھر یہ انفیکشن ایک سے دوسرے شخص میں پھیلنے کا سبب بن سکتا ہے
بعض اوقات یہ کینسر کی شکل بھی اختیار کر لیتا ہے۔ اکثر کریموں اور بلیچنگ
کیمیکل کے استعمال اور انکی مقدار کی صحیح مناسبت نہ ہونے سے خواتین کے
چہرے کی جلد بری طرح متاثر ہوتی ہے اور وہ خراب ہو جاتی ہے جس سے چہرے پر
سرخ رنگ کے دھبے پڑ جاتے ہیں۔ بیوٹیشن کا عمل دیکھنے میں جتنا آسان ہے یہ
اتنا ہی مشکل اور انتہائی احتیاط کا کام ہے۔ گھٹیا اور غیر معیاری میک اپ
کا سامان جس میں فاؤنڈیشن، لپ اسٹک، مسکارا، نیل پالش، بلشز ، پاؤڈر، رنکل
کریم، پمپل کریم، رنگ گورا کرنے والی کریمیں، داغ دھبے دور کرنے والی
کریمیں، چہرے سے چھائیاں ختم کرنے والی کریمیں، کم عمر دکھائی دینے والی
کریمیں، باڈی لوشن، فیس لوشن، آئی میک اپ، بیوٹی سکن کریمیں ہزاروں خواتین
کو جلدی امراض میں مبتلا کر چکی ہیں جس سے چہرے کی سوجن، چہرے پر مختلف قسم
کے کالے رنگ کے دھبے اور سانس لینے میں دشواری جیسی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 10 سے 12 لاکھ خواتین ہر سال غیر
معیاری میک اپ کے استعمال سے مختلف جلدی امراض میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ جس
طرح ہمیں اپنے جسم میں پیدا ہونے والی بیماریوں سے نبرد آزما ہونے کیلئے
ایک اچھے مستند اور تجربہ کار معالج کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ہمیں میک اپ
کروانے کیلئے بھی ایک اچھے مستند، تجربہ کار بیوٹیشن اور اسمیں استعمال
ہونے والے میک اپ کے انتہائی معیاری سامان کی ضرورت درکار ہوتی ہے مگر ہم
تا حال ان خطرناک جلدی بیماریاں پھیلانے والے بیوٹی پارلرز سے بے خبر ہیں
جو خواتین کو وقتی طور پر خوبصورت بنانے کی آڑ میں ان سے ایک ایک میک اپ کا
8ہزار روپے سے لیکر 20 ہزار روپے بٹور لیتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں ان گھٹیا اور غیر معیاری بیوٹی پارلز جو
جگہ جگہ کھل چکے ہیں اور وہ خواتین میں جلدی امراض اور جلدی کینسر پھیلانے
کا باعث بن رہے ہیں ان سے چھٹکارہ کیسے حاصل کیا جائے۔ سب سے پہلے تو ہمیں
ایسے غیر معیاری پارلرز کا رخ ہی نہیں کرنا چاہئے اور اگر خواتین جاتی بھی
ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ اس بات کی تصدیق اور تسلی کر لیں کہ میک اپ میں
استعمال ہونے والا سامان غیر معیاری ، نقلی اور جعلی تو نہیں اور آلات اس
بیوٹی سیلون میں میک اپ کیلئے استعمال کئے جا رہے ہیں انہیں مناسب طرح سے
سٹرلائز کرنے کے مکمل انتظامات موجود ہیں۔ دوسرے یہ کہ ہمارے ارباب اختیار
نے جہاں دوسرے اہم معاملات میں اپنی آنکھیں موند رکھی ہیں وہیں اس اہم
مسلئے کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی ہماری حکومت کو چاہئے کہ بیوٹی
پارلرز اور بیوٹی سیلون کو کسی قانون اور قاعدے کے دائرے میں لائیں ۔ حکومت
کو چاہئے کہ ایسے بیوٹی پارلرز کو محکمہ صحت کے تابع کرتے ہوئے انکے لئے
سخت سے سخت قوانین بنائے جائیں اور انہیں محکمہ صحت سے ٹریننگ ، لائیسنس
اور سرٹیفیکیٹ لینے کا پابند بنایا جائے اور انکے لئے کوڈ آف کنڈکٹ طے کئے
جائیں جنکے تابع رہتے ہوئے یہ بیوٹیشنز خواتین اور مردوں کو اپنی ماہرانہ
خدمات فراہم کر سکیں۔ عطائی بیوٹیشنز جو ہمارے معاشرے میں نہ صرف جلدی
امراض پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں ان میں سے کئی بیوٹی پارلرز اور سیلون
جنسی بے راہ روی پھیلانے کا باعث بھی بن رہے ہیں ۔ان میں سے بہت سے بیوٹی
پارلرز میں خواتین اور مرد حضرات کو ملوانے کے انتظامات بھی موجود ہوتے ہیں
جو فحاشی کو فروغ دیکر اچھے اچھے گھرانوں کی خواتین کو شکار کرکے انکے گھر
وں کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایسے بیوٹی پارلرز کیوجہ
سے بے راہ روی اور جنسی رجحان تیز ی سے بڑھ رہا ہے جس پر قابو پانا اور
معاشرے میں پھیلنے والی ان قبیح برائیوں سے نبرد آزماہونا وقت کی اہم ضرورت
ہے۔
تحریر و تحقیق: سید انیس احمد بخاری.
|