انصاف کون دے گا؟

 محکمہ پولیس کوہمیشہ تنقیدکانشانہ بنایاجاتاہے،ہمیشہ منفی پہلوزیربحث لائے جاتے ہیں جبکہ یہ حقیقت ہے کہ جرائم پیشہ عناصرکوپولیس کاخوف نہ ہوتوعام عوام کاجینامشکل ہوجائے،آج ہم اپنے گھرمیں محفوظ ہیں،شہرمیں آزادانہ نقل وحرکت کرسکتے ہیں تواس پرامن ماحول کے پیچھے محکمہ پولیس کے جوانوں کی قربانیاں بھی ہمیں نظرآنی چاہیے ،محکمہ پولیس کے جوان اپنے گھراوراپنے پیاروں سے دور رات دن خطرناک مجرمان کے نشانے پرڈیوٹی کرتے ہیں،دوران ڈیوٹی شہادت بھی پیش کرتے ہیں جبکہ ہم ہروقت پولیس کومنفی نظرسے دیکھتے ہیں،عوام کومحکمہ پولیس سے اتنی ہی شکایت ہے جتنی عدلیہ اورحکمران طبقے سے ہوسکتی ہے،قوم کو پورے سسٹم سے شدیدتحفظات ہیں،محکمہ پولیس میں کرپٹ عناصرموجود ہیں توکیادیگرادارے اس معاملے سے پاک ہیں؟ کون نہیں جانتاکہ بااثرسیاسی لوگ پولیس کواپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتے ہیں؟بااثرطبقہ مخالفین سے انتقام لینے کے لئے پولیس کے اہلکاروں کواستعمال کرتاہے جبکہ تنقیدکانشانہ صرف محکمہ پولیس بنتاہے،پولیس کلچرکوتبدیل کرنے کی بات توہم سب کرتے ہیں جبکہ اصل مسئلہ پولیس کلچرنہیں رائج الوقت نظام ہے جس میں طاقتورکیلئے ہرطرف چوردروازے ہیں،آپ کویادہوگاکہ رواں برس پہلے مہینے میں سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے ساہیوال کے قریب جی ٹی روڈ پر ایک گاڑی پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں خلیل نامی شہری اپنی اہلیہ،بیٹی اور ڈرائیور سمیت موقع پر جانبحق ہوگئے تھے،اس موقع پرگاڑی میں موجود خلیل کے تین بچے زخمی بھی ہوئے ،سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کی جانب سے کی جانے والی کارروائی کے بعد متضاد بیانات سامنے آئے،محکمہ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں پہلے کارروائی کو دہشت گردوں کے ساتھ مقابلہ،پھر بچوں کی بازیابی کی کارروائی کہا اوربعدازاں کارروائی کی ویڈیو منظر عام آئی تومارے جانے والوں میں سے ایک کو دہشت گرد اور دوسرے کو دہشتگردوں کا سہولت کارکہا گیا،ہمیشہ کی طرح میڈیاپرشوربرپا ہونے کے بعدوزیر اعظم عمران خان کے نوٹس لینے پر سی ٹی ڈی اہلکاروں کو حراست میں لے کر تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی،سانحہ پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے ملوث ملزمان کو قرار واقعی سزا دینے کا اعلان کیا تھا،سانحہ ساہیوال اپنی نویت کانیایاانوکھاواقع نہیں اس سے قبل17جون 2014ء کے دن سانحہ ماڈل ٹاؤن رونماہوا جس کے نتیجے میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے دو خواتین سمیت 14 افراد جانبحق اور90 سے زئدافراد شدید زخمی ہوگئے تھے،سانحہ ماڈل ٹاؤن دن کی روشنی میں رونماہواجس میں پولیس اہلکاروں نے پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان پرسیدھی فائرنگ کردی جبکہ گولیاں چلانے کی بجائے مظاہریں کو گرفتاربھی کیاجاسکتاتھا،سانحہ ساہیوال میں جانبحق ہونے والوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق جاں بحق ہونے والے چارافراد کو انتہائی قریب سے گولیاں لگیں،اتنے قریب سے گولیاں لگنے کی وجہ سے جسم کے مختلف حصوں کی جلد جل گئی،ڈرائیور ذیشان کو13،خلیل کو11اریبہ کو 6نبیلہ کو4گولیاں لگیں،ننھی اریبہ کو پشت سے سینے کے دائیں جانب 9 سینٹی میٹرکے ایریا میں چار گولیاں لگیں ،گولیاں لگنے سے اریبہ کی پسلیاں ٹوٹ گئیں،خاتون نبیلہ کو لگنے والی 4گولیوں میں سے ایک سر میں لگی،خلیل کو لگنے والی 11گولیوں میں سے ایک سر میں لگی، خلیل کو دائیں ہاتھ کے قریب سے گولی لگی جس سے جلد جل گئی،ڈرائیور ذیشان کو 13گولیاں لگیں، سر میں لگنے والی گولی سے ہڈیاں باہر آگئیں،زخمی ہونے والی 6 سالہ منیبہ کے ہاتھ میں شیشہ نہیں بلکہ گولی لگی تھی جو اس کے دائیں ہاتھ میں سامنے سے لگی اور پار ہوگئی،واقعے میں زخمی ہونے والے ننھے عمیر کو لگنے والی گولی دا ہنی ران کو چیرتی ہوئی دوسری جانب سے نکل گئی۔ہم نہیں جانتے کہ سانحہ ساہیوال اورسانحہ ماڈل ٹاؤن میں جان بحق ہونے والوں میں کون دہشتگرداورکون سہولت کارتھایاپھرسب بے گناہ تھے،جانبحق ہونے والوں کے گناہگاریابے گناہ ہونے کی بحث سے بالاتررہ کرسوال کرناچاہتے ہیں کہ سی ٹی ڈی کے تربیت یافتہ اہلکاروں نے ایک گاڑی میں خاتون اوربچوں کی موجودگی اورانتہائی قریب پہنچنے کے باوجودگرفتارکرنے کی بجائے گولیاں کیوں اورکس کے حکم سے چلادیں؟سانحہ ساہیوال کے تمام ملزمان کوشک کافائدہ دیتے ہوئے بری کرنے والی عدلیہ نے ذمہ دارانتظامیہ سے پوچھاکہ اس طرح سرعام بچوں اورخواتین کوکس قانون کے مطابق اورکس کے حکم پرگولیاں ماری گئیں اوراصل مجرم کب گرفتارہوں گے؟مقدمہ میں نامزدملزمان مجرم ثابت نہیں ہوئے توکیامقتولین نے خودہی اپنے آپ کوگولیاں تونہیں ماریں؟گاڑی میں سواردہشتگردتھاتواسے جان سے ماردینے کی بجائے گرفتارکیاجاتاتوتحقیقات مزیدبہترہوتی اورپھرملزمان کوعدالتیں سزائیں دیتی تواس قدرخوف ہراس پھیلتانہ عوام کااپنے سکیورٹی اداروں سے اعتماداُٹھتا،گزشتہ روزسانحہ ساہیوال کیس کافیصلہ سناتے ہوئے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے مقدمے میں ملوث تمام ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیاہے جبکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقتول ابھی اپنے قتل کے مقدمے کافیصلہ آنے کے منتظرہیں،یہ توسب جانتے بھی ہیں اورمانتے بھی کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں 14 لوگ قتل ہوئے اورسانحہ ساہیوال میں 4لوگ قتل ہوگئے ،مقتولین گناہگارتھے یابے گناہ اس بات کافیصلہ کرنے کااختیارہمارے پاس نہیں البتہ سوال یہ ہے کہ قتل ہوئے،نعشیں بھی مل گئیں،مقدمات بھی درج ہوئے،عدالتوں نے کیس بھی سنے پرقاتل نہ مل سکے۔عوام جانناچاہتے ہیں کہ ریاست عوام کوفراہمی انصاف کی ذمہ داری کب پوری کرے گی؟مقتول اوراُن کے وارثان ریاست سے سوال کرتے ہیں کہ قتل ہوئے،مقدمات درج ہوئے،طویل تحقیقات ہوئیں،عدالتوں میں کیسزبھی چلے پھربھی مقتولین کوانصاف نہیں ملا،بے گناہ ثابت ہونے پرعدالت نے سب ملزمان کوبری کردیاہے توپھرریاست بتائے قتل کس نے اورکیوں کیے؟سانحہ ماڈل ٹاؤن کے14اورسانحہ ساہیوال کے4مقتولین اوراُن کے یتیم بچے انصاف کاسوال کررہے ہیں،پوچھ رہے ہیں کہ انصاف کب ملے گا؟کون دے گااورکس قیمت پرمل سکتاہے؟ وزیراعظم پاکستان عمران خان ملک کوریاست مدینہ جیسی ریاست بنانے کاعزم رکھتے ہیں توکیاوہ نہیں جانتے کہ ریاست مدینہ کی بنیادعدل وانصاف پرقائم ہوئی تھی؟فقط محکمہ پولیس پرتنقید کرنے سے کام نہیں چلے گا،عوام کوعدل وانصاف فراہم کرناریاست اورعدلیہ سمیت تمام ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے،ریاست ہرطرح کی مداخلت روکے اورعدلیہ انصاف کرنے لگ جائے تومحکمہ پولیس خودبخودٹھیک ہوسکتاہے،لواحقین کوڈرادھمکاکریاپیسے دے کرمقدمات ختم کروانے سے قبل ریاست اورریاستی اداروں کو یہ سوچ لیناچاہیے کہ اصل مدعی ریاست ہوتی ہے اورریاست کوعوام کے ساتھ ماں جیساسلوک کرناچاہیے
 

Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 510735 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.