یہ بات ایک حقیقت ہے جس سے کوئی انکا ر نہیں کر سکتا کہ
اسوقت پاکستان کی سب سے قدیم سیاسی پارٹی جماعت اسلامی ہے۔ جس کا سنگ بنیاد
ابوالاعلی مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے قیام پاکستان سے قبل ۱۹۴۱ کو رکھا
تھا۔ اس جماعت کا سیاسی نظام دیگر سیاسی جماعتوں سے قدرے مختلف نظر آتا
ہے۔کیونکہ باقی سیاسی جماعتوں میں اپنے کارکنوں میں سےاقتدار اعلی ٰ کی
کرسی کے لیے ایسے شخص کا چناؤ کیا جاتا ہے جو کہ دولت سے مالا مال اور
اپنے علاقے میں چودھراہٹ اور نمبرداری کے اعتبار سے خوب اثر رسوخ رکھتا
ہو۔مختصر یہ کہ غریب کوسوں دورتک ان کے نزدیک ریاست کی زمہ داریاں سنبھالنے
کا اھل نہیں ہے اگرچہ وہ اعلی ٰ سے اعلی ٰ تعلیم یافتہ ہی کیوں نہ ہو۔پیسہ
نہیں تو جناب سوری (Sorry)۔بد قسمتی کا عالم یہ ہے کہ یہی اصول ہمارےمعاشرے
میں اپنی جڑیں گہری اور پھیلاتا چلا جارہا ہے۔ اگر کسی علاقے کا کارکن اس
اصول پر پورا نہیں اترتا تو پھر اپنوں کو نوازنے کی بھر پور کوشش کی جاتی
ہے۔ اسی اصول پر پیرابند جماعتیں ہی اکثر کرپشن جیسی لعنت سے داغ دار ہیں۔
جماعت اسلامی وہ سیاسی جماعت ہے جو کہ اس قسم کی جھنجلاہٹ اور عیب سے پاک
صاف دکھائی دیتی ہے۔اس جماعت میں غریب سے غریب تر کارکن بھی پارٹی میں ایک
اعلیٰ مقام حاصل کرنے میں کامیاب رہتا ہے اور اس کارکن کو اس کی قابلیت کی
بنیاد پر میدان سیاست میں بھی اپنے جوہر دکھانے کا سنہری موقع دیا جاتا ہے
تا کہ یہ ایوان تک رسائی حاصل کر کے ملک و قوم کی خدمت کےلیےاپنا تن من
نچھاور کردے۔یہی وجہ ہے کہ شاید میں نے کبھی نہیں سنا کہ اس جماعت کے کارکن
کرپشن کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔اس کے ساتھ یہ بات بھی مشاہدے میں ضرور
آئی ہے کہ تعلیمی قابلیت کے اعتبار سے اس جماعت میں میدان سیاست کے کارکن
تقریباًدوسروں پر سبقت رکھتے ہیں۔ جو کہ میرٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
دین کے میدان میں بھی یہ جماعت صف اوّل میں شامل ہے ۔ جس میں لوگوں کو
قرآن و سنت کی دعوت سے روشناس کروانے کے لیےمختلف پروگرامز کا انعقاد کیا
جا تا ہےاور ان پروگرامز میں شمولیت کے لیےلوگ پورے پاکستان کے طول وعرض سے
سفر کرتے نظر آتے ہیں۔جس کا صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہےکہ لوگوں کوحقوق اللہ
اور حقوق العباد جیسے دیگر مسائل سے آگاہی دی جائےتاکہ یہ معاشرے کا ایک
ابھرتا ہوا روشن ستارہ ثابت ہوسکیں۔
اس جماعت کے ذیلی اداروں پر نظر دوڑائی جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ یہ جگہ جگہ
پاکستان کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔گورنمنٹ کالجوں اور گورنمنٹ یونیورسٹیوں
میں اسلامی جمعیت طلبہ کے نا م سےکردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔جس میں
یونیورسٹی اور کالج کی سطح پرتنظیم کے ناظم اور نائب ناظم کا انتخاب اسی
ادارےکے طلباءسے ہی ہوتاہے۔ اس تنظیم کا کام استاتذہ اور طلباء کو درپیش
مسائل کو قومی و صوبائی سطح پر اجاگر کرنا اور ان کو حل کروانا مقصو د ہو
تاہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ تنظیم اسلامی اعتبار سےطلباء اور اساتذہ کی
رہنمائی میں بھی سرگرم عمل ہےجس میں اسلام کے بنیادی اراکین کی عملی طور پر
حفاظت ، مخلوط نظام تعلیم سے بڑھتی ہوئی برائیاں ، طلباء میں اخلاقی اقدار
کو پروان چڑھانا ، کرپشن سے متعلق آگاہی اور طلباء میں خود اعتمادی کےلیے
تقریری مقابلہ جات اور کوئزز وغیر ہ کا انعقاد کیا جاتاہے۔
علاوہ ازیں جماعت اسلامی کے اپنے تعلیمی ادارے بھی انسانیت کو جہالت سے
روشنی کی طرف لانے کےلیے دن رات کوشا ں ہیں جن میں بچوں کواعلیٰ سے اعلیٰ
دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلام سے وابستہ رکھنے کےلیے قرآن و سنت کی
تعلیم بھی دی جاتی ہے۔
خدمت انسانیت سے سرشار جماعت اسلامی یوں تو کسی سے پیچھے نہیں ہےبلکہ غرباء
، فقراء، مساکین ، یتامیٰ کی مد د کے لیےاس کی ایک مشہور انجیو الخدمت
فاؤنڈیشن متحرک ہے ۔ جس کے زیر اہتمام پورے پاکستان میں سینکڑوں
ایمبولنیسیں کسی بھی قسم کے حادثے سے نمٹنے کےلیے ہمہ وقت تیار رہتی ہیں۔
مریضوں کے مفت،سستے اور معیاری علاج کےلیے ڈسپنسریاں اور ہسپتال بنائے گئے
ہیں۔ اسی طرح پینے کے صاف پانی کےلیےاعلیٰ قسم کے فلٹریشن پلانٹس بھی لگائے
گئے ہیں۔مذید یہ کہ کسی بھی قدرتی آفت زلزلہ ، سیلاب اور طوفان سے ہونے
والے نقصانات کے ازالے کےلیے لوگوں کی مدد میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔
آغوش کے نام سےادارہ بھی عوامی خدمت کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے جو کہ
الخدمت فاؤنڈیشن کی ہی ایک ذیلی تنظیم ہے جس میں بے سہار،نادار، یتیم ،
مساکین اور غریب بچوں کی کفالت احسن طریقے سے کی جاتی ہے ۔ اس میں بچوں
کےرہنے کے لیے رہائش کا انتظام ، کھانے کےلیے اچھے اچھے کھانوں کا بندوبست
اور ان کی تعلیم وتربیت پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہےتاکہ یہ بچے بڑے ہوکر
احساس کمتری کا شکار نہ ہوں ۔
حالات حاضرہ میں جہاں پاکستان کو دیگر مسائل کا سامہنا ہے وہا ں ایک
انسانیت سوز مسئلہ کشمیر بھی ہے ۔ جو کہ تقریباً ستر برس سے ہندو کی جارحیت
کا شکار بنا ہوا ہے۔جس میں بھارت نےکشمیری مسلمانوں پر ہرطرح کے ظلم وستم
کی رقم قائم کردی ہے۔ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ متعدد بار کشمیریوں کے
حق خود ارادیت پر قراردادیں پیش کر چکی ہے مگر یہ قراردادیں عملی اعتبارسے
مکمل طور پرپس پشت ڈال دی گئی ہیں۔
مگر اب کشمیر کے حالات کچھ مزید گھمبیر ہو چکےہیں ۔سبب یہ ہے کہ بھارتی
وزیر اعظم نریندر مودی نے اقتدار میں آتے ساتھ ہی کشمیر کی سالمیت کو
نقصان پہنچانے کےلیے آرٹیکل 370 اور 35ٓA کا خاتمہ ہی نہیں بلکہ کشمیر کے
مسلمانوں کو کرفیولگا کر گھروں میں محصور کردیا ہے۔جس سے لوگ جانوروں کی
طرح گھروں میں مکمل طور پر بند ہو کر رہ گئے ہیں ۔جبکہ جانور کو تو کھانے
کے لیے پھر بھی کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے۔مگر کشمیریوں کو کھانے کے لیے کچھ
بھی نہیں، دیگر سہولیات پر تبصرہ کیا کرناہے؟۔ہاں ہاں اگر جانور کسی مصیبت
میں پھنس جائیں تو پوری دنیا اُن کے تحفظ کے لیے حرکت میں آجاتی ہے۔ مگر
کشمیر ی مسلمانوں سے جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جارہا ہے جو کہ ظلم کی
ایک انتہا ہے ۔بھارتی وزیر اعظلم نریندر مودی اپنے اس عمل سے مطمئن
ہے۔بہرحال اس گھناؤنے مسئلے کے پیش نظر جماعت اسلامی کی قیادت کشمیریوں سے
اظہار یکجہتی کےلیے اپنے موجودہ امیر سراج الحق کی سربراہی میں پورے
پاکستان کے تما م شہروں میں ریلیوں اور بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کررہی ہے
تاکہ بھارت کے انسانیت دشمن چہرے کو بے نقاب اور مظلوم کشمیری مسلمانوں کی
فریاد رسی ہوسکے۔خواجہ میر درد نے اسی لیے کہاتھا۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں
|