گذشتہ سال یعنی2018 میں سبکدوش ہونے والی کابینہ لاہور
بار ایسوسی ایشن نے نئے الیکشن سے تقریباً گیارہ روز قبل اپنے صدرملک ارشد
کی سربراہی میں سیشن کورٹ لاہور میں واقع نیو جوڈیشنل کمپلیکس میں جب نئے
تعمیر ہونے والے وکلاء چیمبرز کی الاٹمنٹ ’’نوجوان وکلاء ‘‘ میں کی تو یہ
عمل متنازعہ بن گیا جس کے بعد بہت سے’’ سینئر و نامی گرامی وکلاء
صاحبان‘‘نے وکلاء چیمبرز کی الاٹمنٹ کے عمل کوــ’’ بندر بانٹ‘‘ کا نام دے
کرمیڈیا کی مدد سے اعلان جنگ کرتے ہوئے موقف اختیار کیاکہ لیگل پریکٹیشنرز
اینڈ بار کونسلز ایکٹ 1973کے تحت الیکشن بورڈ کے قیام کے بعدکابینہ کے
اختیارات ختم ہوجاتے ہیں لہٰذا ملک ارشد اور اُن کی کابینہ کے پاس الاٹمنٹ
کا اختیار نہیں تھا۔
دوسری طرف سابقہ صدر ملک ارشد اور اُن کی کابینہ کے مطابق انہوں نے وکلاء
چیمبرز کی الاٹمنٹ کاکام ایک اعزاز سمجھ کر کیا کیونکہ اِس سے پہلے سابقہ
صدر لاہور باراور سینئر رہنما انڈیپنڈنٹ گروپ جہانگیر اے جھوجھہ کوصرف یہ
اعزاز حاصل تھاجنہوں نے تقریباً 31 سال قبل لاہور کی ضلع کچہری میں وکلاء
چیمبرز کی الاٹمنٹ کی تھی۔جہاں تک اچانک الاٹمنٹ کی بات ہے توسابقہ صدر ملک
ارشد اور اُن کی کابینہ کا موقف تھا کہ اُس وقت کے رجسٹرارلاہورہائیکورٹ
اور سیشن جج لاہور وکلاء چیمبرز کے نام پر بننے والی عمارت کو’’ پراسیکیوشن
ڈیپارٹمنٹ ‘‘کے حوالے کرنا چاہتے تھے اِس لئے الاٹمنٹ کا عمل خفیہ اور
اچانک کر نا پڑا۔
اِس بات سے تو کوئی بھی انکاری نہیں ہوسکتا کہ یہ عمارت بنی ہی وکلاء
چیمبرز کیلئے تھی۔ وکلاء چیمبرز کی الاٹمنٹ توکئی شہروں میں کی گئی ہے لیکن
وہاں اِ س عمل کو متنازعہ نہیں بنایا گیا ۔صرف لاہور میں الاٹمنٹ کو
متنازعہ بنانا سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ عدالتوں کے احاطہ جات میں’’ سینئر
و نامی گرامی وکلاء صاحبان‘‘ کو بیٹھنے کیلئے جگہ یا ’’سٹنگ پلیس‘‘اُن
کوکسی نے الاٹ نہیں کی ہے اوراِن میں سے اکثر نے تو وہاں چیمبرز بھی تعمیر
کرلیے ہوئے ہیں۔
سب سے پہلے پنجاب بار کونسل نے وکلاء چیمبرز کی الاٹمنٹ کے طریقہ کار پر
حکم امتناعی جاری کیا جسے پاکستان بارکونسل نے معطل کرکے ایک چار رکنی
کمیٹی بنائی پھر لاہور ہائیکورٹ کے جج صاحبان اِس معاملے میں ڈالے اور نئی
اور موجودہ کابینہ لاہوربار نے اِس عمارت کو خالی کروانے کیلئے کئی بار
دورے کیے جس کے بعد آج تک وکلاء چیمبرزکی اِس عمارت میں سہولیات فراہم نہ
کی گئی ہیں اور اکثر چیمبرز بند ہیں جبکہ چند ایک نے اپنی مدد آپ کے تحت
وہاں بجلی اور پانی کا انتظام کیا ہے اور یہی وکلاء صاحبان روزہ کی بنیاد
پر اپنے چیمبرز آبادکئے بیٹھے ہیں۔
جہاں تک بات وکلاء سیاست کی ہے تووکلاء چیمبرز کی الاٹمنٹ کے خلاف مہم
چلانے والوں کے امیدواروں کوگذشتہ الیکشن میں ہی شکست کا منہ دیکھنا پڑا
جبکہ الاٹمنٹ کرنے والے سابقہ صدرلاہوربار ملک ارشداُسی الیکشن میں منفی
مہم کے باوجود نائب صدر کی نشست پر اپنے امیدوار پرویز سلہری کو جیت سے
ہمکنار کروانے میں کامیاب رہے ۔جس کی اصل وجہ یہ تھی کہ وکلاء چیمبرز کی
الاٹمنٹ ایسے وکلاء میں ہوئی ہے جو کسی بھی امیدوار کا ـ’’ہر اوّل دستہ‘‘
بن کر الیکشن مہم چلاتے ہیں۔بلاشبہ اِن کا اثر آئندہ کئی
الیکشنزخصوصاًپنجاب بار کونسل کے الیکشن 2020میں ضرور نظر آئے گاجس میں بڑے
بڑے برج الٹنے کی توقع کی جارہی ہے۔
میری ذاتی رائے میں وکلاء چیمبرز کی عمارت کی شکل بگاڑنے میں الاٹمنٹ کے
خلاف میڈیا کی مدد سے مہم چلانے والوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے جن کے شاگردوں کے
نام آج بھی مختلف دیواروں پر لکھے ہوئے ہیں جوکہ اِس عمارت کے متنازعہ بننے
کی اصل وجہ ہے۔پہلے ایک اعلان یہ بھی ہواتھا کہ پاکستان بار کونسل کی کمیٹی
چیمبرز کا قبضہ الاٹی وکلاء سے فوری طور پر واگزارکرواکر دوبارہ الاٹمنٹ
کرے گی۔دراصل چیمبرز کی کل تعداد 289ہے جس کی الاٹمنٹ تقریباً ایک ہزار سے
زائد وکلاء میں کی گئی ہے دوبارہ الاٹمنٹ کر بھی لی جائے تو یہ تعداد
بڑھائی نہیں جاسکتی۔ ویسے بھی یہ الاٹمنٹ ’’نوجوان وکلاء ‘‘میں ہی کی گئی
تھی اِن میں کوئی ’’دوسرا‘‘شامل نہیں ہے لہٰذا اِن ’’ سینئر و نامی گرامی
وکلاء صاحبان‘‘کوچاہئے کہ وکلاء چیمبرزکی عمارت میں سہولیات کی فراہمی
کیلئے اپنے نوجوان ساتھیوں کا ساتھ دیں تاکہ اِس خوبصورت عمارت کو آباد کیا
جا سکے۔
آخر میں ، میں اُمید کرتا ہوں کہ آئندہ سے’’ سینئر و نامی گرامی وکلاء
صاحبان‘‘ اپنا دل بڑا کرتے ہوئے اپنے نوجوان اور ضرورت مند ساتھیوں کی ترقی
پر مسرت کا اظہار کریں گے کیونکہ اگر اُن کے یہی ساتھی الیکشنز میں بھرپور
مہم چلاکر انہیں کامیاب کرواسکتے ہیں تو یہی وکلاء اُن کی سیاست ہمیشہ
کیلئے ختم بھی کرسکتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|