ان کے بارے یہ اطلاع سن کر تو سکتہ سا طاری ہوگیا ،چند
سیکنڈ بعدحواس بحال ہوئے ،لیکن دل بہت اداس ،غمگین اوررنجیدہ ہوگیا اورپورا
دن اداسی نے دل میں ڈیرے ڈالے رکھے ۔کہ اتنے "ـحسین " آدمی ہمیں چھوڑ کر
کیسے چلے گئے ؟ایسی ہی کیفیات اورمحسوسات کے ساتھ آخر ان کی نمازجنازہ کا
وقت بھی ہوگیا ،چھٹی سے چند منٹ پیشتر ہی کالج سے نکل پڑے ، عیدگاہ پہنچے
تو ایک جم غفیر تھا جو محمد زمان عاصی صاحب کا آخری دیدار کرنے اورانہیں اس
دارِفانی سے وداع کرنے امڈآیا تھا۔ہر مسلک ومذہب ،ہر شعبہ زندگی سے تعلق
رکھنے والے لوگ موجودتھے اورسبھی لوگ ہی غمناک تھے ۔ابھی مولوی صاحب
موت،آخرت ،قیامت اورمرحوم کے متعلق خطاب کررہے تھے ۔میں بھی ان کا آخری
دیدارکرنے چلاگیا تو جاتے جاتے دل پر غم کا ایک بھاری احساس تھا لیکن یقین
جانئے کہ جیسے ہی محمد زمان عاصی صاحب مرحوم کا چہرہ دیکھا ،محسوس ہوا کہ
نورکا ایک ہالہ سا ان کے گرد موجودہے ا اورعجیب سی طمانیت اورسکینت ان کے
چہرے پرموجودتھی جس نے میرے دل میں حیرت انگیزقسم کا سکون واطمینان بھردیا
اوردل خوش ہوگیا اورخیا ل آیا کہ اجل کی پکار تو ہے ہی مگر کوئی اس دھج سے
دنیا سے رخصت ہوتو کیاہی بات ہے ۔مولوی صاحب نے بھی اپنے خطاب میں محمد
زمان عاصی صاحب کی دینداری ،تقویٰ اورصالحیت کی بھرپورگواہی دی اورہرشریک ِ
نمازجنازہ نے بھی ۔
یہ14اکتوبر کی ایک چمک دار دھوپ والی خوبصورت صبح تھی لیکن بڑی اداس اداس
سی محسوس ہورہی تھی،حسب معمول کالج جانے کے لئے تیارہوا اوراپنی سات سالہ
بیٹی ارفع ولایت کو سکول چھوڑنے گیا ،پرنسپل حافظ جاویداقبال ساجد صاحب
(سابق امیر جماعت اسلامی ضلع میانوالی )کے دفتر پہنچا ہی تھا کہ انہوں نے
بتایا کہ محمد زمان عاصی صاحب فوت ہوگئے ہیں اس خبرنے تو جیسے جان ہی نکال
دی، ایک لمحے کو تو میں شل سا ہوگیا ۔ ان سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ تہجد
کے وقت نوافل کے بعد تلاوت کلام الٰہی میں مصروف تھے کہ موت کی پکارآگئی
اورلبیک کہتے ہوئے فوراََ ہی چل دیئے ۔دل بوجھل بوجھل سا ہوگیا ،پھر کچھ
دیر وہیں بیٹھا رہا تو اس دوران انہی کی باتیں ہی چلتی رہیں ۔گھر آتے ہی
میرے ہم جماعت اوردوست طارق سعیدصاحب بھی آگئے ،اکٹھے کالج روانہ ہوگئے
راستے میں انہیں بتایا تو دلی رنج وغم کا اظہار کرنے لگے اورکہنے لگے کہ یہ
تو ولی کامل تھے اورمیں جب کبھی مشکل محسوس کرتا تو ان سے ملاقات کرتا تھا
،دعا کردیتے اورکبھی بچوں کو بھی لے جاتا تھا ان کے لئے بھی بے حد دعائیں
کرتے کبھی دم بھی کروالیتے اوربچے ٹھیک ہوجاتے ۔اسی دوران انہوں نے بتایاکہ
اسحق خان کامری (پی ٹی آئی کے کونسلر) کی کامیابی میں بھی ان کااچھا
خاصاکرداراور دعائیں بھی تھیں ۔انہوں نے بتایاکہ ان سے میری بہت اچھی
نشستیں ہوتی رہی ہیں ۔بہت باعمل آدمی تھے اورجماعت کے مخلص لوگوں میں شامل
تھے ۔ووٹ لازمی جماعت کے امیدوارکوہی دیا کرتے تھے ۔طارق سعید صاحب ان کو
باربارولی اﷲ کہ رہے تھے اورمیں سوچ رہاتھا کہ واقعی ایسا ہی تھا۔ کیونکہ
میں بھی جب بھی ملا ان سے ملاقات کرکے سکون ہی ملا ۔دعائیں ہی ملیں ۔
مجھے یاد ہے جب میانوالی شہر میں چاریونین کونسلز کا نظام تھا تو ایک سیشن
میں نے بھی یونین کونسل 16 کے امیر کی ذمہ داری نبھائی ۔اس دوران ایک بار
ان کے گھر پر اجتماع کارکنان رکھا تھا میں بروقت پہنچ گیا توان کو منتظر
پایا۔ ہم نے کچھ دیر دیگر ساتھیوں کا انتظارکیا مگر ہم دونوں کے علاوہ کوئی
نہ پہنچا ۔خیرہم دونوں نے ہی اجتماع کی کاروائی شروع کردی ۔بعد میں کہتے
ہیں کہ ٹھیک ہے تسلسل خراب نہیں کرنا چاہئے اجتماع کولازمی کرنا چاہئے
۔مجھے نہیں یاد کہ اس کے بعد کبھی ہم نے دوافرادکا اجتماع کیا ہو،ہمیشہ
زیادہ ہی رہے ۔باوجود پیرانہ سالی کے سائیکل چلاتے اوراپناعصا اس کے ساتھ
لگا کر رکھتے ،ہم اگرچہ اب ان کی صحت کی وجہ سے ان کو زیادہ تکلیف نہیں
دیتے تھے تاہم کئی پروگرامات (بالخصوص اجتماع عام) میں سائیکل پر ہی آ جایا
کرتے تھے ۔جب سائیکل چلانے سے قاصر ہوگئے تو کبھی کسی موٹربائیک والے ساتھی
کو کہتے کہ ساتھ لے جائیں ،اورضلعی پروگرامات یا بالائی نظم کے پروگرامات
میں تو لازمی شرکت کرتے ۔ اورمنصورہ میں بھی رابطہ میں رہا کرتے ۔مرکزی
شعبہ نشرواشاعت کے جناب محمدانورخان صاحب کے ساتھ ان کے بہت اچھے تعلقات
تھے ، ان کی وفات کے بعد معلوم ہوا کہ انورخان صاحب کو رکن بھی انہی نے
بنایاتھا اورمنصورہ بھی انہی نے بھیجا تھا ۔ انورخان صاحب ان کی نمازجنازہ
میں بھی شریک ہوئے ۔محمدزمان عاصی صاحب کی پرانی عادت تھی کہ ہرنمازسے کم
ازکم ایک گھنٹہ پہلے مسجد جاکر بیٹھ جاتے اورنوافل اورذکراذکارمیں مصروف
رہاکرتے ۔اسی جگہ لوگ آکر ان سے دم بھی کراتے اوردعاؤں کی درخواست بھی کرتے
اورانہوں نے بھی کبھی کسی کو مایوس نہیں کیا ۔
جماعت اسلامی سے نہایت دلی تعلق اورقلبی لگاؤ تھا ،جب بھی صحت اجازت دیتی
پروگرامات میں شرکت دلچسپی سے کرتے ، محلے بھر میں چھوٹے بڑوں سے نہایت
شفقت سے پیش آتے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کا احترام وادب اورلحاظ بھی بہت تھا
،اسی بناء پر وہ بیت المال کے لئے اعانت بھی جمع کرلیا کرتے تھے ۔اوراجتماع
عام کے کچھ دعوت نامے بھی تقسیم کرتے ۔لٹریچر بھی بے پناہ رکھا ہواتھا
۔10,15 سال پہلے اپنی ذاتی لائبریر ی کی تحریکی کتب کی ایک بڑی تعدادجماعتی
لائبریری کے لئے اس لئے جمع کرادی تھی کہ نہ معلوم کب زندگی کی ڈورکٹ جائے
تو کتب ضائع نہ ہوجائیں ۔ا ن میں کئی قیمتی کتب شامل تھیں۔خود بھی مطالعہ
کثرت سے کرتے تھے اوردوسروں کو بھی لٹریچر پڑھنے کے لئے دیا کرتے تھے
۔ترجمان القرآن بھی پڑھا کرتے تھے ۔اورکبھی کبھارصوبائی یا مرکزی قیادت کو
خط بھی لکھ دیا کرتے تھے ۔
1953 ء میں عالم شباب میں جماعت اسلامی میں شامل ہوئے اورپھر پیچھے مڑکر
نہ دیکھا بلکہ پوری تندہی اورجانفشانی سے اسلامی انقلاب کے داعی اورپرجوش
وپرعزم مجاہد کاکرداراداکرتے رہے ۔ جب 1963 ء میں موچی گیٹ کے اجتماع کا
اعلان ہوا،تیاریاں عروج پرتھیں تو وقت کے ظالم حکمرانوں نے رکاوٹیں ڈالنا
اورروڑے اٹکانا شروع کردیئے تو حالات انتہائی خطرناک صورت اختیارکرگئے
،مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی ؒکی باریک بیں اورعمیق نظرنے بھانپ لیاکہ کیا
کچھ ہونا ممکن ہے ،انہوں نے سیکورٹی بہت سخت کرنے کاحکم دے دیا،محمدزمان
عاصی صاحب بھرپورجوان تھے ،پورے جوش وجذبے سے اجتماع میں گئے اورسیکورٹی کی
کٹھن ذمہ داری بڑی خوش اسلوبی سے نبھائی۔
محمد زمان عاصی صاحب مئی 1933 ء میں پیدا ہوئے ۔ان کے والدبھی نہایت متقی
،علم وعمل والے اورصاحب کشف آدمی تھے اوراﷲ کے ولی تھے ،ان کی بھی پوری
زندگی اﷲ کی بندگی میں گزری اورتہجد تک قضا نہ ہوتی تھی ۔محمدزمان عاصی
صاحب بھی نہایت متقی اورپارسا آدمی تھے ،کم ازکم میں نے تواپنی زندگی میں
ایساذاکراورمتقی آدمی ابھی تک نہیں دیکھا ،جن کی تہجد بھی قضانہ ہوتی تھی
،وہ گزشتہ 65 سال سے تہجدبلاناغہ اداکررہے تھے موسم خواہ کیسا ہی کیوں نہ
ہو۔مسجد سے خصوصی رغبت اوربے پناہ محبت تھی ۔نمازباجماعت سے بہت پہلے جاکر
ذکراذکارمیں مصروف ہوجاتے ۔۔ ان کے بیٹے نذیر یاد صاحب بتا رہے تھے کہ آخری
دنوں میں ایک بار بتایاکہ آنکھوں میں کوئی مسئلہ ہے تو میں نے کہا کہ ڈاکٹر
کو دکھا دیتے ہیں ۔ہم ایک ڈاکٹر(نام قصداََ نہیں لکھا جارہا) کے پاس گئے
(آنکھوں کے بہت اچھے ڈاکٹر ہیں )انہو ں نے تسلی سے دیکھا مگر ان کی تشفی نہ
ہوئی ۔کہاکہ مجھے ڈاکٹر پسند نہیں آیا ،ڈاکٹر آصف کے پاس کیوں نہ چلیں ،تو
ہم ڈاکٹر آصف کے ہاں کالاباغ چلے گئے اباجی سے ان کا بہت پیارا تعلق تھا
،ڈاکٹر صاحب کو ان سے بہت زیادہ عقیدت ومحبت تھی ۔ویسے بھی ڈاکٹر صاحب بہت
اچھے انسان ہیں ۔وہاں کلینک کا ایک اہلکار جو ادھیڑ عمر آدمی تھا اباجی کو
بڑے غورسے بارباردیکھ رہاتھا ۔آخر پوچھ لیا کہ کیا بزرگ فلاں مہینے عمرہ پر
تشریف لے گئے تھے ۔تو ہم نے کہا کہ نہیں ،تو وہ آدمی کہتا ہے کہ میں نے خود
اپنی آنکھوں سے ان کو وہاں دیکھا ہے اوریہ وہاں زائرین ِعمرہ کو آب زم زم
پلارہے تھے ۔ہم نے باربارکہا کہ نہیں گئے ۔انہوں نے بتایاکہ ہم تقریباََ
ایک بجے دن وہاں سے روانہ ہوئے تو اباجی کہتے ہیں کہ نمازتو مسجد مدنی (ان
کے محلے کی مسجد کانام ہے جہاں انہوں نے سالہا سال تک باجماعت نمازیں
اورنمازتہجد اداکی )میں نے سوچا کہ صرف ایک گھنٹا ہے اورفاصلہ بھی کافی ہے
تاہم پھربھی رب کا نام لے کر روانہ ہوئے اورزندگی بھر اتنی تیزموٹربائیک نہ
چلائی تھی جتنی اس دن چلائی تاکہ اباجی بروقت مسجد پہنچ سکیں۔نذیر یاد صاحب
بتارہے تھے کہ آخری مہینوں میں جب کبھی طبیعت خراب بھی ہوتی تو مجھ سے
لازمی چھپاتے تھے ،میں نے ایک بارپوچھاتو بتایا کہ ڈاکٹر پر جائیں تو وقت
بہت زیادہ لگ جاتا ہے اورنمازجماعت سے رہ جانے کا خوف دامنگیررہتا ہے ۔
محمد زمان عاصی صاحب کے دو بیٹے ہیں جو جماعت کے حامی ہیں اورپوتا
حامدمحمود اسلامی جمعیت طلبہ کا سابق رفیق ہے اورجماعت اسلامی کا کارکن ہے
۔
میں نے دیکھا اورمحسوس کیا کہ محمدزمان عاصی صاحب نہایت وسیع القلب اوررقیق
القلب آدمی تھے کسی کا غم یا پریشانی نہ دیکھ پاتے خاص کر امت مسلمہ میں جب
جب کہیں کوئی ظلم ہوتا ،بے چین ہوجاتے اوران مظلوم مسلمانوں کے لئے دعائیں
بھی خوب کرتے۔کبھی کسی کو برابھلا نہ کہتے ۔ہرایک سے خندہ پیشانی اورخوش
خلقی سے پیش آتے تھے ۔محمدزمان عاصی صاحب کا جواجلا کرداراس دنیا میں رہاہے
اس کی بناء پر ان کو ایک زمانہ تادیر یادرکھے گا۔ محمد زمان عاصی صاحب کے
لئے دست بستہ دعا گو ہوں کہ اﷲ ان کی سئیات سے درگزرکرے ،ان کی صالحات کو
قبول کرے ۔ان کی قبرکو تاحد نظر وسیع کردے اورنورسے بھر دے ،ان پررحمتوں کا
نزول کرے ،ان کی مغفرت کرے ۔ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام اوررفاقت
رسول عطاکرے ۔آمین
# # #
|