با ادب با مراد

پروردگار جب بھی کسی انسان پر بہت زیادہ مہربان ہو تا ہے تو اُس کو اچھی فطرت اپنا عشق اور پھر جنون کے ساتھ ساتھ ادب کا وصف بھی عطا کرتا ہے کو چہ تصوف اسراروں سے بھری وادی ہے لاکھوں لو گ ہر دور میں اِس وادی پر خار میں پاؤں رکھتے ضرور ہیں لیکن چند قدم چلنے کے بعد بھاگ جاتے ہیں یاسست پڑ جاتے ہیں اِس کی بنیادی وجہ مستقل مزاج اورجنونی نہ ہو نا اگر سالک مستقل مزاج اور جنونی ہے تو ایک خامی کی وجہ سے مار کھا جاتا ہے وہ ہے ادب مرشد کا احترام عاجزی انکساری ‘ انسان فطری طور پر خود ستائشی کا مریض ہے اُسے اپنی ذات کے علاوہ اطراف میں کچھ بھی نظر نہیں آتا لیکن وادی تصوف میں جو لوگ مشعل راہ یا راہنمائی کاکام کر تے ہیں یہ دنیا کی تمام خواہشوں کو جوتے کی نوک پر رکھ کر ہو امیں اُڑا چکے ہو تے ہیں انہیں دنیا کی کوئی کشش ترغیب لالچ متاثر نہیں کر تی ‘جو بندہ دنیا اور دنیا والوں کو ٹھوکر مار چکا ہو جس کے سامنے سونے چاندی ہیرے جواہرات دولت مندی کے انبار مٹی کے ڈھیر سے زیادہ اہمیت نہ رکھتے ہوں اُس کو آپ کس طرح متاثر کر سکتے ہیں کس طرح آپ اُس کی تو جہ اپنی جانب مبذول کر ا سکتے ہیں اِس مادی دنیا میں دوسروں کو متاثر کرنے کے جوا وزار ہیں اُن میں دوسروں کو قیمتی تحائف یا نوٹو ں کی گڈیاں جائیداد وغیرہ دے کر خوش کر لیتے ہیں پھر تحفے لینے والا آپ کا دوست بھی بن جاتا ہے آپ کے کام بھی کر تا ہے لیکن گلشن ِ تصوف میں یہ ہتھیار کام نہیں کر تے بلکہ یہ خاک نشین تو دنیا داروں کو چھوڑ کر پہلے ہی جنگلوں پہاڑوں دریاؤں کے کنارے مٹی کے جھونپڑو ں میں رہائش پذیر ہو تے ہیں انہیں تو دنیا اور دنیاوی ترغیبات سے گھن آتی ہے یہ تو گھربار دولت جائیداد لٹا کر آبادیوں سے دور صرف اور صرف حق تعالیٰ تک پہنچنے اور اسے راضی کر نے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں اِن کو راضی کر نے کا محبت ڈالنے کا اپنی طرف متوجہ کر نے کا ایک ہی طریقہ ہے ہو ہے سرنڈر سپردگی ادب احترام عقیدت و عشق اپنے با ادب طالبوں پر یہ پھر نظر بھی ڈالتے ہیں ان سے محبت بھی کر تے ہیں اور پھر تصوف کی پل صراط سے گزارنے میں مدد اور راہنمائی بھی کر تے ہیں آپ تصوف کی تاریخ اور استاد شاگر د کی ہسٹری کا ورق ورق پڑھ لیں کامیابی کے آسمان پر جوبھی مرید یا شاگرد چمکا وہ حد درجے کا با ادب مرید تھا بابا فریدؒ کے بچپن اور جوانی کے جب ہم واقعات کا مطالعہ کر تے ہیں تو وہ ادب کے وصف سے خوب مالا مال تھے بچپن میں حج پر جانے لگے تو اصرار کر کے اپنے استاد کو ساتھ لے کر گئے اِس کے بعد آپ ؒ کی زندگی میں جو بھی بزرگ آیا آپ ؒ سراپا ادب بن گئے یہی وجہ تھی کہ آپ ؒ تاریخ تصوف کے عظیم ترین صوفیاء میں سے ایک ہیں آپ جیسا کوئی اور نہ تھا نہ آیا نوجوانی کے دنوں میں جب بابا فریدؒ حصول تعلیم کے سلسلے میں ملتان میں مقیم تھے تو شہر میں اُس زمانے کے مشہور صوفی درویش حضرت جلال الدین تبریزی ؒ تشریف لائے ملتان کی مشہور تاریخی مسجد میں داخل ہو ئے تو لوگوں سے پوچھا یہاں پر کون کون اﷲ کے دوست ہیں تو لوگوں نے شہر کے نیک برگزیدہ بزرگوں کے نام بتاددئیے ساتھ یہ بھی کہا کہ بزرگوں کے علاوہ یہاں پر ایک قاضی بچہ بھی ہے کیونکہ بابا فرید ؒ قاضی شعیب ؒ کی اولاد میں سے تھے اِس لیے قاضی بچہ کہلاتے تھے آپ ؒ کو بچپن سے ہی مطالعہ کا جنون کی حد تک شوق تھا آپ ؒ دن رات دنیا مافیا سے بے خبر کتابوں میں غرق رہتے آپ ؒ کی کتابوں سے جنونی لگاؤ کی وجہ سے لوگ آپ ؒ کو دیوانہ بچہ بھی کہتے کہ اِس بچے کو کھیل کود کی بجائے کتابوں میں سکون ملتا ہے جب لوگوں نے قاضی بچے کے بارے میں بتا یا تو حضرت جلال الدین تبریزی ؒ بہت خوش ہوئے اور بولے اس دیوانے بچے سے ضرور ملنا چائیں گے تولوگوں نے بتایا فلاں گوشے میں وہ بچہ دن رات کتابوں میں غرق رہتا ہے اب جلال الدین تبریزی ؒ اُس طرف گئے جہاں پر بابا فرید ؒ کی کتاب کے مطالعے میں ڈوبے ہو ئے تھے جب حضرت جلال الدین تبریزیؒ بابا فرید ؒ کے پاس پہنچے تو بابا فریدؒ ادب و احترام میں سر جھکا کر کھڑے ہو گئے بچے کا مودبانہ انداز بزرگ کو بہت اچھا لگا شفیق نرم لہجے میں بو لے بیٹا آرام سے بیٹھ جاؤ اپنا مطالعہ جاری رکھو تو قاضی بچہ حضرت جلال الدین تبریزیؒ کے حکم پر ادباً بیٹھ گئے لیکن کتاب کو نہیں پکڑا کچھ دیر تو بابا فریدؒ بیٹھے لیکن باطنی اضطراب کی وجہ سے جلد ہی اٹھ کر باادب کھڑے ہو گئے اور سر جھکا لیا تو بزرگ بے پوچھا اے فرزند تم بیٹھے کیوں نہیں اور اٹھ کر کیوں کھڑے ہو گئے ہو تو پیدائشی درویش ادب سے بولا جناب یہ کیسے ہو سکتا ہے آپ ؒ کھڑے ہوں اور میں بیٹھا آؤں مجھے شرم آرہی تھی اِس لیے آپ کے احترام میں کھڑا ہو گیا قاضی بچے کا ادب احترام اور رویہ دیکھ کر حضرت جلال الدین تبریزی ؒ بہت زیادہ خوش ہوئے تبسم دلنواز کے ساتھ بو لے اے فرزند تو یقینا نیک والدین کی اولاد ہو پھر ایک انار نکال کر بچے کو دیا اور بولے اُس وقت ہمارے پاس تمہیں دینے کو اور کچھ بھی نہیں ہے اِس کو رکھ لو بزرگ کی توجہ بھری نظروں سے دیوانے قاضی بچے کو دیکھ رہے تھے بابا فریدؒ نے انار پکڑ لیا خود تو روزے سے تھے اِس لیے انار کو توڑ کر اُس کے سارے دانے حاضرین میں تقسیم کر دئیے بزرگ خوشگوار حیرت سے بچے کو دیکھ رہے تھے جو خودانار کے دانے نہیں کھا رہا تھا بلکہ سارے دانے لوگوں میں خوشی خوشی بانٹ رہا تھا جب سارے انار کے دانے تقسیم ہو گئے تو بزرگ والہانہ انداز سے بو لے اے فرزند تم نے انار کے دانے خود کیوں نہیں کھائے یا اپنے پاس رکھے تو بچہ بولا جناب میرے لیے یہ ایک دانہ ہی کافی ہے جو فرش پر تقسیم کے دوران گر پڑا تھا اُس دانے کو بابا فرید ؒ نے اٹھا لیا بچے کے جواب سے حضرت جلال الدین تبریزی ؒ بہت خوش ہو ئے پھر دعا ئیں دے کر چلے گئے قافلہ شب و روز چلنے کے بعد جب بابا فرید ؒ دہلی میں خواجہ قطب الدین بختیا ر کاکی کے حضور پیش ہو ئے تو ایک دن دوران گفتگو اپنے مرشد کریم ؒ سے اپنے بچپن کا سارا واقعہ سنا دیا اور پو چھا شیخ پتہ نہیں وہ بزرگ کو ن تھے کدھر سے آئے اور کیا کر نے آئے کیونکہ میں نے اُس شام اُسی انار کے دانے سے افطار کیا تھا تو حضرت خواجہ قطب الدین ؒبو لے فریدؒوہ بزرگ حضرت جلال الدین تبریزی ؒ تھے جو تمہیں روحانی لنگر دینے اُس مسجد میں آئے تھے تم نے اچھا کیا جو سارا انار لوگوں میں تقسیم کر دیا جو تمہارے مقدر کا دانہ تو فرش پر پڑا تھا جو تم نے اٹھا کر کھا لیا اُسی دانے میں سب کچھ تھا جو تم نے کھایا ‘بابا فرید ؒ کے ادب اور ایک دانے پر قناعت نے بزرگ کو متاثر کیا تو انہوں نے روحانی لنگر اور توجہ کی ‘ اِسطرح کا واقعہ جس میں بابا فریدؒ کی انکساری اور ادب واضح ملتا ہے ۔ حضرت نظام الدین اولیاؒ بیان کر تے ہیں کہ میرے مرشد بابا فرید الدین گنج شکر ؒ کو ساری عمر ایک بات کا ملا ل اور شرمندگی رہی جب مرشد کے سامنے ادب کا اعلیٰ مظاہرہ نہ کر سکے ایک دن بابا فریدؒ اپنے مرشد حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ کے حضور پیش تھے حاضرین مجلس اپنی خواہشات کا اظہار کر رہے تھے تو میں نے بھی درخواست کی کہ مجھے ایک خاص چلے کی اجازت دی جائے تو خواجہ قطبؒ بو لے اے فرزند اب تمہیں مزید چلوں کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ سلسلہ چشت کے بزرگ ذاتی شہرت کے لیے کوئی بھی کام نہیں کر تے میری بدبختی کہ میں خاموش رہنے کی بجائے بول پڑا کہ میں ذاتی شہرت کے لیے چلہ نہیں کر نا چاہتا میری اِس جسارت پر مرشد خاموش ہو گئے کچھ نہیں بولے مرشد کی خاموشی میرے لیے جان لیوا بن گئی میں ساری عمر اپنی غلطی کی معافی مانگتا رہا مرشد نے معاف بھی کر دیا لیکن میں آج بھی شرمسار ہوں کہ شیخ کے سامنے کیوں جواب دیا ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 735583 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.