سعدیہ کے گھر آج کافی چہل پہل تھی۔۔۔صبح سے گھر میں
صفائیاں چل رہی تھیں۔۔۔کوئی گھر کا صحن دھو رہا ہے تو کوئی باتھ روم کے
ٹائلز کو چمکانے کی کوششوں میں مگن ہے۔۔۔امی کچن میں چائے کے ساتھ کیئے
جانے والے لوازمات کا نا صرف انتظام کر رہی ہیں بلکہ ساتھ ساتھ حساب بھی کر
رہی ہیں۔۔۔کوئی بارہ سو روپے کا ناشتہ بازار سے منگوایا گیا ہے اور گھر میں
بنے کباب اور دہی بڑے تو ساتھ میں موجود ہی ہوں گے۔۔۔
مسز خان اپنے ساتھ اس بار جو رشتہ لا رہی تھیں وہ کوئی عام رشتہ نہیں
تھا۔۔۔لڑکا بینک میں ملازم تھا اور گھر میں سب سے چھوٹا۔۔۔بہنوں کی تو شادی
ہو چکی تھی اور گھر میں رہ گئیں تھیں صرف ایک امی۔۔۔وہ ایک امی آج اپنے
بیٹے کے لئے چاند کا ٹکڑا ڈھونڈنے نکلی تھیں اور سعدیہ کی امی نے سوچ لیا
تھا کہ چھبیس سال سے ایک دن زیادہ عمر نہیں بتائیں گی اپنی بیٹی کی۔۔۔اگر
کسی کو پتہ چل گیا کہ اگلے سال سعدیہ تیس کی ہوجائے گی تو سمجھو یہ رشتہ
بھی ہاتھ سے گیا۔۔۔
لڑکے کی امی اور مسز خان نے بخوبی سعدیہ کا بھرپور انداز میں جائزہ
لیا۔۔۔یونیورسٹی میں ٹاپ کرنے والی لڑکی کے لئے سب سے مشکل امتحان شاید یہی
ہوتا ہے جب اسے اس کی ظاہری خدوخال پر پرکھا جاتا ہے۔۔۔پر اعتمادی کی
دھجیاں بکھیری جاتی ہیں اور اسے کہا جاتا ہے کہ اپنی زبان بند رکھنا تاکہ
لگے کہ تم سے زیادہ خاموش کوئی نہیں۔۔۔چٹکیوں میں سب کے مسائل حل کرنے والی
کو صرف ایک گول روٹی کی بنیاد پر پرفیکٹ ثابت کیا جاتا ہے۔۔۔۔اور مسز خان
مسلسل یہی بتاتی ہیں کہ لڑکی اتنا پڑھ لکھ لینے کے باوجود صرف گھر سنبھالے
گی۔۔۔
سعدیہ نے آج سوچ لیا تھا کہ آج وہ جھوٹ اور دکھاوے کے اس معیار کو توڑ دے
گی۔۔اس نے آج اپنی دبتی ہوئی رنگت کو کسی فاؤنڈیشن کی گرد سے نہیں
چھپایا۔۔۔ٹرے لینے آئی تو اس نے سوچ لیا تھا کہ اگر آج اسے مسترد کیا گیا
تو وہ ہر بات کا نا صرف جواب دے گی بلکہ انہیں احساس دلائے گی کہ وہ کسی سے
کم نہیں۔۔۔
کمرے سے مسز خان کی آوازیں اسے واضح سنائی دے رہی تھیں۔۔۔جو مسلسل اپنی
جوانی کی قربانیوں کے گن گا رہی تھیں۔۔۔کس طرح انہوں نے جوائنٹ فیملی میں
رہتے ہوئے اپنے شوہر کی بھی مانی، ساس کی بھی خدمت کی، ان کے ظلم بھی سہے
لیکن چوں تک نا کی ۔۔۔آج میرا راج ہے گھر پر۔۔۔مجھے میری خدمات کا صلہ مل
گیا ہے۔۔۔
سعدیہ اپنے جذبات کو سنبھالتی ہوئی کمرے میں داخل ہونے والی تھی جب وہ
ٹھٹھک گئی۔۔۔اس نے اپنی ماں کو کہتے سنا! مسز خان ضروری تو نہیں کہ جو
زندگی آپ نے گزاری ہو وہ صحیح ہو۔۔۔بچیوں کو مثالی بنائیں لیکن برداشت کی
مثال نہیں۔۔۔کیونکہ اب رشتہ اگر برابری کی بنیاد پر ہوتا ہے تو نبھایا بھی
برابری کی بنیاد پر جائے۔۔۔ پھر کیا تھا رشتے والے بھی گئے اور مسز خان
بھی۔۔۔لیکن اس گھر میں باقی رہ گئی اعتماد اور بھروسے کی وہ فضا جس کی آج
کل بیٹیوں کو ضرورت ہے! |