’پہلا خیال تھا بیوی کو بچانا ہے، خود چاہے مر جاؤں‘

بہاولپور کے وکٹوریا اسپتال میں اپنی اہلیہ روبینہ کے بیڈ کے قریب بیٹھے شاہد عمران خود بهی زخموں سے چور ہیں۔
 

image


ان کی شادی تقریباً ایک سال قبل میرپور خاص میں ہوئی اور وە کراچی سے رالپنڈی آنے والی تیزگام ایکسپریس کی اس بوگی میں بیٹهے تهے جو حادثے کا شکار ہوئی۔

بی بی سی سے اس حادثے کے متعلق بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ جب آگ لگی اس وقت وہ سو رہے تهے۔

‎’اچانک اتنا دھواں ہو گیا کہ سانس لینا مشکل ہو گیا تھا۔ ہم سوئے ہوئے تھے اچانک پتا چلا کہ آگ لگ گئی ہے۔ پہلے میں نے اپنی اہلیہ کو چلتی ٹرین سے باہر نکالا، پھر میں نے خود چھلانگ لگانے کی کوشش کی لیکن میرے اوپر ایک دوسرا مسافر آن پڑا۔ میرے پاؤں اس کے نیچے دب گئے۔ میں جب نیچے اترا تو میری ٹانگیں جل چکی تھیں۔‘

روبینہ کو ٹرین سے گرنے کی وجہ سے شدید چوٹیں آئی ہیں جبکہ ان کے جسم کے بعض حصے بھی جھلس گئے ہیں، تاہم معجزانہ طور وہ اس حادثے میں بڑی حد تک محفوظ رہے۔

‎شاہد خود بھی کافی زخمی ہیں مگر ہسپتال میں وہ بار بار اپنے وارڈ سے نکل کر اپنے اہلیہ کے بیڈ کے پاس آ بیٹھتے ہیں۔ ’خدا نے ہم دونوں کو زندگی دی ہے، میری بیوی کو ابھی ہوش تو نہیں آیا لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ بچ جائیں گی۔‘
 

image


‎یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھیں نم تھیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ روبینہ کی حالت کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے، وہ ابھی ’ٹراما کی حالت میں ہیں، سر پر گہری چوٹیں ہیں‘۔

یہی کیفیت یہاں موجود ہر اس مسافر کی ہے جس نے ٹرین حادثے کے دوران موت کو اس قدر قریب سے دیکھا۔

‎روبینہ بیہوشی میں ہی چیختی ہیں اور آکسیجن ماسک اتار دیتی ہیں۔
 

image


ان کے ساتھ موجود ایک بزرگ کو سر پر گہری چوٹیں آئی ہیں، ان کے جسم میں متعدد فریکچر ہیں اور جسم جھلس گیا ہے، وہ آنکھ کھلتے ہی آگ کی باتیں کرتے ہیں اور پھر ان پر غنودگی کا عالم طاری ہو جاتا ہیں۔

ایک اور مریض عبید کہتے ہیں کہ جو انھوں نے دیکھا ’وہ قیامت تھی‘۔

ان کے رشتہ دار رات گئے ہسپتال پہنچے ہیں جبکہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنے اپنے دوست احباب اور رشتہ داروں کو ڈھونڈ رہے ہیں۔

ملتان کے نشتر ہسپتال میں موجود ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ حادثے میں وہی لوگ بچے ہیں ’جنھوں نے ریل گاڑی سے چھلانگ لگائی، جو ان بوگیوں سے نہیں نکل سکے ان کی لاشوں کی تو اب شناخت تک ممکن نہیں۔‘

‎ٹرین میں لگی آگ بہت تیزی سے پھیلی تھی۔

وکٹوریا ہسپتال میں موجود ایک اور مریض نے بتایا کہ پل بھر میں اس قدر دھواں بوگیوں میں بھر گیا کہ سانس لینا دشوار ہو گیا۔

عبید نامی مسافر کہتے ہیں کہ وہ فجر کی نماز کے بعد سو رہے تھے جب شور سنائی دیا کہ آگ لگی ہے۔

’ایک کھڑکی سے منھ باہر نکالتے کبھی دوسری سے۔ وہاں مسافر ہی مسافر تھے، ایسی حالت تھی جیسے قیامت ہو۔ پھر بڑی مشکل سے چھلانگ لگائی، نیچے گرا اور بعد میں گاڑی رکی۔ میں اسے دور سے دیکھتا رہا کیونکہ بوگیوں سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے۔‘
 

image


‎عبید الرحمان کا تعلق میرپور خاص سے ہے اور وہ حادثے کے بیشتر متاثرین کی طرح وہ بھی لاہور تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شرکت کے لیے جا رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ ان کے خاندان کے دیگر دس افراد بھی سوار تھے، مگر کسی کا کچھ پتا نہیں چل رہا۔

‎وہ بتاتے ہیں کہ لوگ زمین پر پڑے تڑپ رہے تھے اور کوئی مدد کو نہیں پہنچا تھا۔ ’جب میں باہر گرا تو میری پیٹھ پر آگ لگی ہوئی تھی، میں وہیں زمین پر لوٹ پوٹ ہوتا رہا کہ آگ بجھ جائے، ہر طرف لوگ ہی لوگ تھے جو چیخ رہے تھے۔ بہت دیر تک کوئی نہ آیا، میں جسم سے آگ بجھانے کے بعد بھاگ رہا تھا اور ریل گاڑی کو دیکھ رہا تھا، بس آگ ہی آگ تھی، وہ قیامت تھی‘۔

انھوں نے بتایا کہ کچھ دیر بعد قریبی گاؤں سے لوگ ریڑھیاں اور گدھا گاڑی وغیرہ لائے اور مریضوں کو ان پر ڈالنا شروع کر دیا۔

‎شاہد عمران نے بی بی سی کو بتایا کہ ٹرین کے باہر ہر طرف چیخ و پکار تھی۔ ’جب میں نے باہر چھلانگ لگائی تو میں ہوش میں تھا۔ باہر افراتفری تھی۔ ہر شخص اپنے ساتھیوں کو ڈھونڈنے میں مصروف تھا۔ ہر طرف آگ کے شعلے تھے۔‘

عبید کے مطابق انھیں ایسا نہیں لگتا کہ حادثے کی وجہ سلنڈر کا پھٹنا تھا۔
 

image


’کوئی دھماکہ نہیں ہوا تھا بس اچانک ہر طرف آگ اور دھواں پھیل گیا۔ دھماکوں کی آوازیں اس وقت آئیں جب میں باہر گرا تھا.‘

‎لیکن یہیں موجود ایک اور زخمی نے بتایا کہ وہ خود بھی اس وقت ناشتہ کر رہے تھے جبکہ ان کے ساتھ آنے والے کچھ تبلیغی جماعت کے لوگوں نے چائے بنانے کی غرض سے چولہا جلایا۔

‎’ہماری بوگی میں کچھ لوگ چائے بنا رہے تھے۔ ہم بھی فجر کی نماز پڑھ کر ناشتہ کر رہے تھے۔ ایک دم کسی کے بستر میں آگ لگ گئی، پھر سرکٹ میں لگی۔ پھر ساری گاڑی میں پھیل گئی اور دھواں ہو گیا۔ اور ایسا دھواں کہ ایک بار سانس لے لو تو یہ بندے کو بے ہوش ہی کر دے۔ وہیں خواتین اور بچے بھی بیٹھے تھے۔‘

آگ لگنے کے مناظر کا بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’لوگ 'آگ، آگ، آگ' پکار رہے تھے۔ آگ بہت زیادہ زور پکڑ گئی۔ پہلے چھلانگ نہیں لگائی، باہر نکلنے کی کوشش کی، دھوئیں سے بچنے کی کوشش کی، مگر لوگ بہت زیادہ تھے، دھواں بھر گیا، تو پھر کھڑکی میں سے چھلانگ لگائی۔‘

‎رحیم یار خان میں اس حادثے نے اس واقعے کی یاد تازہ کر دی ہے جب دو سال قبل اسی مقام سے محض چند کلومیٹر کے فاصلے پر ایک آئل ٹینکر میں آگ لگنے سے ایک ہی گاؤں کے سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اب ایک بار پھر یہاں ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ ہے جبکہ لواحقین کی بڑی تعداد اپنے پیاروں کی میتیں ملنے کی منتظر ہے جن میں سے اکثریت اب شناخت کے قابل نہیں اور ڈی این اے رپورٹ آنے میں نجانے انھیں کتنے دن انتظار کرنا پڑے۔

عبید الرحمان کے مطابق ‎’ہم نے ٹرین روکنے کی کوشش کی۔ کسی نے زنجیر کھینچی تھی۔ لیکن رکتے رکتے بہت دیر ہو چکی تھی۔ اگر ٹرین پہلے رک جاتی تو پتا نہیں کتنے لوگ بچ جاتے۔‘
 


Partner Content: BBC
YOU MAY ALSO LIKE: