بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
نیچرل سائنسز کے ساتھ سوشل سائنسز کو بھی فروغ دینے کی ضرورت ہے، آج اس دور
میں جب دنیا نے صرف سائنس و ٹیکنالوجی کے منفی استعمال کے باعث اور صرف
معاشی سرگرمیوں کے ارتقاء کے نتیجے میں جن سماجی آفات کا سامنا کیا ہے تو
اس سے سبق لیتے ہوئے ہمیں معاشرتی علوم کو بھی اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں
اولین ترجیح دینی چاہیے۔ مشرق کی زمین مذاہب کی زمین کہی جاتی ہے جب کہ
مغرب کی زمین کو سیکیولر کہاجاتا ہے یہ شاید ان کی ظاہری توجہ کے باعث کہا
جاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ انسان نہ تو عقل و دانش کے بغیر رہ سکتا ہے
اور نہ ہی جذبات و احساسات کے بغیر۔ لہذا اس بات کا تقاضا زور پکڑتا ہے کہ
معیشت کو بہتربنانے والے علم و دانش کے ساتھ انسانی اخلاق و رویوں کو بہتر
بنانے والے علم و دانش کو بھی فروغ حاصل ہو۔ جب جب دنیا میں زور، زبردستی ،
دھونس، بدمعاشی کا چلن ہوا کرہ ارض کے مکینوں کی زندگی اجیرن ہوگئی۔ یہ زور
وزبردستی کے پس پشت ہمیشہ معاش و طاقت و مادّی طاقتیں رہیں۔ اگر کہیں مذاہب
کے ماننے والوں میں بھی ان صفات نے جنم لیا تووہ بھی مادّی مفادات کے تحت۔۔۔۔
مغربی نشاۃ ثانیہ کے بعداور دنیا میں عقل و دانش کے فروغ کے ذریعے دنیا کو
جس سعادت و خوشبختی اور مسرت کیلئے دعوے کیے گئے تھے وہ سب پہلی اور دوسری
جنگ عظیم کے بعد ڈھیر ہوگئے۔ آج کے دور میں ہمیں نیچرل سائنسز کے ساتھ سوشل
سائنسز کے فروغ کی بات اسی لئے کرنی پڑی تاکہ دنیا انسانی مزاج کو جو جسم و
روح اور عقل و جذبات پر مشتمل ہوتا ہے اس کی تسکین کیلئے جامع منصوبہ تشکیل
دیں اور اس کیلئے بغیر کسی مکتب سے تعصب کے تحقیقات کریں ہمارے سامنے ماضی
کے تجربات بھی ہیں جو ہماری ہدایت کیلئے کافی و وافی ہیں۔ آج دنیا نے اپنے
تمام فنون اور ہنر جتنے انسانی دماغ میں موجود ہوسکتے تھے آزما لئے آج 21
ویں صدی میں دنیا کی سربراہی تبدیل ہورہی ہے اور مغرب سے مشرق کی طرف چین
کی ترقی کی صورت میں وقوع پذیر ہورہی ہے اور یہ بھی تقریباً وہی پالیسیز کو
اپنے سربراہی میں جگہ دے رہے ہیں جو مغربی استعمار استعمال کرچکا ہے اور
دنیا کے سامنے یہ تمام حقائق موجود ہیں۔ لہذا دانشمند ایک سوراخ سے دو بار
نہیں ڈسا جاتا ۔ لیکن کیا ہمیشہ ترقی اور فضیلت کا معیار اقتصادی ترقی کو
گرداننا درست ہے؟؟ کی انسانی اقدار اور انسانی رویئے کسی قوم کے اس قابل
نہیں ہوتے کہ اس کو دنیا میں سپر پاور کہا جائے۔۔۔ بے شک معاش انسان کی
ریڑھ کی ہڈی ہے لیکن یہ دماغ نہیں قلب نہیں ہے۔ انسانی رویئے ، مزاج اور
نفسانی صفات درست نہیں ہونگی تو معاش کو بڑھانے والی قوتیں بھی زوال پذیر
ہوجاتی ہیں، حکومت و سربراہی اگر قوانین قدرت سے ہٹ کر خود کو خدا سمجھ کر
کی جائیں گی تو بہت جلد یہ زوال پذیر ہوجاتی ہیں۔قوانین قدرت انسانی مزاجوں
اور نفسیات و روحانیات (SPRITUALITY/PSYCHOLOGY) سے بھی مربوط ہیں، صرف
طبیعات (PHYSICS) اور دیگر مادّی چیزوں سے ہی مربوط نہیں ہیں۔
مغرب کی اندھی تقلید اور صرف مغرب کے زرق برق تمدن سے فریب کھا نے والے جب
دوسری اور تیسری دنیا سے کوئی فساد اٹھتا ہے تو بہت شور مچاتے ہیں مگر اسی
مغرب میں جوروحانیت اور سماجی و معاشرتی تعمیری اور مثبت اقدار ہیں ان پر
ان کی کبھی توجہ نہیں جاتی اور مغرب کی مادّی سائنس و ٹیکنالوجی کے اصنام
کی پرستش میں مشغول رہتے ہیں۔ اسی مغرب میں سوشل سائنسز پر جتنا کام ہورہا
ہے ہمارے ہاں عشر عشیر بھی نہیں۔۔۔۔مغرب میں عمومی طور پر انسانی اقدار،
انسانی رویوں، اخلاق و کردار جو کہ ان کی حکومتوں سے مختلف ہے اس بات کا
ثبوت ہے کہ نیچرل سائنسز کے ساتھ یہاں معاشرتی علوم پر بھی تحقیقات کی گئی
ہیں اور عوام کا مزاج تحقیقی ہے۔ لہذا ان سائنسدانوں سے قطع نظر جو خاص
استعماری اور استکباری مقاصد کے تحت سائنسز کو استعمال کرتے ہیں یا وہ
افراد جو خفیہ خاندانوں کی سرپرستی میں چلنے والے استحصالی اداروں کے ایجنٹ
ہیں ، عوام اپنے عوامی پن اور سادہ زندگی کے باعث اپنی ان حکومتوں پر تنقید
اور احتجاج بھی کرتے ہیں۔ہمیں دور رس نتائج کے حصول کیلئے اور ایک جامع
منصوبہ کے تحت انسانی مادّی ضروریات کے ساتھ ان کی روحانی اور نفسیاتی اور
معاشرتی ضروریات جن میں سب سے سر فہرست انسانی رویئے اور انسانی اقدار ہیں
، پورا کرنے کی سعی کرنی چاہیے۔دنیا کو ہمیشہ سے مادّی ترقی کے ساتھ ساتھ
روحانی و اخلاقی ترقی کی بھی ضرورت رہی ہے مگر دنیا نے ہمیشہ مادّیات کو
روحانیت پر فوقیت دی ۔ آج جب کے انفارمیشن انقلاب کا دور ہے اور معلومات
اور دانش کا طوفان ہے تو یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اگر ہم تاریخ سے سیکھیں
گے اور خداوند تعالیٰ جو کہ انسان کو کمال کی طرف لے جارہا ہے اور جو
قوانین اس نے طبیعات اور روحانیات میں جاری و ساری کیے ہیں ، انفارمیشن
ٹیکنالوجی کی معلومات و دانش ان تاریخی حکیمانہ نکات کی طرف انسان کی توجہ
مبذول کرائے گی اور انسان اپنے تابناک مستقبل کیلئے یقینا ً جدو جہد کرے گا،
ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی اور بالآخر دنیا پر روحانیت کا راج
ہوگا۔انسان اس دنیا میں ایک گھر کی طرح بھائیوں اور بہنوں کا خیال کریں گے
اور دنیا کے روحانی حکام کو اپنے بزرگ اور والدین کی طرح سرپرست مانیں گے
اور ان کی اطاعت کریں گے، نئے انسانوں کیلئے اس دنیا کو اس طرح تیار کریں
گے کہ ان اعمال کے ذریعے اپنی آئندہ کی دنیا کیلئے زادِ راہ فراہم کرنے کا
باعث بنیں گے۔ انشاءاللہ |