پاکستان حسنِ فطرت کی دولت سے خوب مالا مال ہے۔ اس کے
دریا،ندی نالے،نہریں،آبگاہیں،آبگینے اور آبشاریں،اس کے فلک بوس،برف پوش
پہاڑاوراُن کی سنگلاخ چٹانیں،اس کے سر سبز وشاداب کھیت وکھلیان،میدان اور
وسیع وعریض چرا گا ہیں،اس کے گھنے،خاردار،میدانی،پہاڑی اورنیم پہاڑی
جنگلات،اس کے طویل تھل و صحرا، اس کے دلکش،دلفریب اور خوشگوار معتدل موسم
جنگلی حیات کی بقا کیلئے انتہائی موزوں وسازگا ر ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہر
سال موسم سرما میں دُنیا کے دیگر سرد خطوں،روس،وسط ایشیائی ریاستوں اور سا
ئبریا سے لاکھوں کی تعداد میں جنگلی پرندے خصوصاًآبی پرندے جن میں مختلف
اقسام کی مرغابیا ں،مگھ، قاز،کونجیں،سارس، سوان، حواصل، لم ڈھینگ، بگلے
جبکہ دیگر جنگلی پرندوں میں تلور اور باز شامل ہیں، ہجرت کرکے یہا ں آتے
ہیں اور پانچ،چھ ماہ قیام کے بعد واپس اپنے آبائی مسکن لوٹ جاتے ہیں۔ جنگلی
حیات قدرت کا انمول تحفہ، سرزمین پاکستان کا قیمتی سرمایہ اور حسن ہے۔
سیاحت کے شعبے کی ترقی میں بھی یہ بہت معاون ہے۔ پنجاب، سندھ، بلوچستان،
خیبرپختونخوا، شمالی علاقہ جات اور کشمیر کا کوئی علاقہ ایسا نہیں جو مخصوص
جنگلی حیات کی وجہ سے اپنی پہچان نہ رکھتا ہو۔
پاکستان حیاتیاتی تنوع سے خوب مالامال ملک ہے۔ دُنیا میں پائے جانے والے
پودوں کی تین لاکھ انواع میں سے چھے ہزار پاکستان میں ہیں جب کہ پرندوں کی
8700انواع میں سے 668، ممالیہ کی 4327 میں سے 188اور خزندوں کی 5500انواع
میں سے 69 پاکستان میں پائی جاتی ہیں۔ پاکستان دُنیا کی بعض نایاب جنگلی
حیات کا مسکن ہے۔لیکن بدقسمتی سے اب جنگلی حیات کی معدوم ہوتی صورتحال نے
ان کا وجود ناپید کر دیا ہے۔ دو تین صدیوں میں بنی نوع انسان نے اپنی ہی
حرکتوں کی وجہ سے بہت سے جانوروں کی نسلیں ختم کردی ہیں۔ بہت سی جنگلی حیات
ایسی ہے جن کی نسلیں بالکل ختم ہونے کو ہے اور اگر ہم نے انہیں پکڑنے، شکار
کرنے کی روش ختم نہیں کی تو کچھ سال بعد وہ پاکستان میں ناپید ہوجائیں گی۔
اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات نے انتباہ کیا ہے کہ
1970ء سے تاحال انسانی سرگرمیوں سے 60 فیصد جنگلی حیات کا خاتمہ ہوچکا ہے
اور بیشتر جنگلی جانور اور ان کی خاص انواع و اقسام معدومی کے خطرات سے
دوچار ہیں۔ امریکہ، لاطینی امریکہ، کیریبین جزائر، افریقہ، امیزون اور
برازیل سے ملحق تمام خطوں سمیت ایشیاء میں چار ہزار سے زیادہ جانوروں،
مچھلیاں، آبی حیات اور پرندوں کی اقسام معدوم ہورہی ہیں۔ جس کا سبب
ماحولیاتی آلودگی، موسمیاتی تبدیلیاں، انسانوں کی جانب سے جنگلات پر قبضے
اور جانوروں کی بود و باش کے ٹھکانے ختم کرنا ہے۔
عالمی ادارہ ”ڈبلیو ڈبلیو ایف“نے زولوجیکل سوسائٹی سمیت متعدد ماحولیاتی
اور جنگلی حیات کے تحفظ کی تنظیموں کے تعاون سے تیار کی گئی رپورٹ میں
بتایا ہے کہ مہذب انسانوں کی جانب سے زرعی زمینیں تیار کرنے کیلئے جنگلات
کو ختم کرنے، ماحولیاتی آلودگی، موسمی تبدیلیوں اور جانوروں کے منظم شکار
سے جانوروں کی تعداد میں بے حساب کمی آئی ہے۔
جنگلات اور جنگلی جانوروں کی بودوباش کی جانب انسانوں کی مسلسل پیش قدمی کا
نتیجہ یہ نکلا ہے کہ% 50 جنگلات ختم ہوچکے ہیں اور 75 فیصد زمین پر انسانوں
کا قبضہ ہوچکا ہے۔ صرف 25 فیصد زمین پر جنگلات موجود ہیں اور اس میں جنگلی
حیات زندہ ہے۔ لیکن اگر یہی صورتحال رہی اور جانوروں و جنگلی حیات کے تحفظ
کیلئے کوئی منظم قدم نہ اٹھایا گیا تو 2050ء تک 90 فیصد جنگلی حیات کا
خاتمہ ہوجائے گا۔
رپورٹ کے مطابق تازہ پانی کی 300 اقسام کی مچھلیاں اور 34 اقسام کے مینڈکوں
اور خشکی کے ٹوڈز کی انواع اب دکھائی نہیں دیتیں، جن کا 1970ء میں وجود ایک
حقیقت تھا، لیکن اب یہ جانور افسانہ بن چکے ہیں۔
انسان اپنے ماحول اور جنگلی حیات کو خود تباہ کررہا ہے۔ ہرنوں، گینڈوں،
ہاتھیوں، زرافوں، زیبروں، وائلڈ بیسٹ، چمپانزی، پفین، پہاڑی چیتوں، سیاہ
تیندوؤں، شیروں، وہیل شارکس، ڈولفنز، قطبی بھالوؤں، اورنگ اوٹان، امیزون
گوریلوں، مگرمچھوں اور پہاڑی طوطوں سمیت متعدد انواع کے جانوروں اور پرندوں
کی تعداد میں زبردست کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کا اپنی ”لیونگ
پلانیٹ رپورٹ2018“ میں کہنا تھا کہ 1970ء سے 2014ء تک 34 برسوں میں بچوں کو
جنم دینے اور دودھ پلانے والے ممالیہ، رینگنے والے جانوروں ٗپرواز کرنے
والے پرندوں (ایویز) اور مچھلیوں سمیت جل تھلیوں (ایم فی بی اینز)کی 4 ہزار
سے زیادہ اقسام اور انواع کی افزائش میں 60 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دُنیا میں 50 فیصد ندیاں،آبشاریں اور پہاڑی
جھرنے جو 1970ء میں موجود تھے، اب عنقا ہوچکے ہیں۔ بالخصوص امیزون کے
جنگلات سمیت افریقی اور عالمی جنگلات کا نصف حصہ انسانوں کی رہائش اور
تجارتی پروجیکٹس کا حصہ بن چکا ہے، جس کی وجہ سے حضرت انسان کیلئے معطر
ہوائیں، مقطر پانی، توانائی اور ادویات سمیت خوراک فراہم کرنے والے وسائل
ختم ہورہے ہیں۔
جنگلات کے خاتمے سے 300 سے زیادہ اقسام کے بندر، خنزیر، ہرن، ہاتھی، طوطے،
چڑیاں، سانپ، سیاہ تیندوے، جنگلی کتے اور دیگر جانور اب ڈھونڈنے سے بھی
دکھائی نہیں دیتے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2014ء میں سمندری و آبی پرندوں کے سروے میں یہ
خوفناک حقیقت بھی سامنے آئی تھی کہ 90 فیصد پرندوں کے معدے پلاسٹک کے
میٹریل سے بھرے ہوئے تھے اور یہ جانور مر رہے تھے۔ جبکہ ہر 100آبی حیات میں
85 فیصد آبی حیات (مچھلیوں، جھینگوں،کیکڑوں، مگرمچھوں اوردیگر) کے پیٹ میں
پلاسٹک کا مواد موجود تھا، جو ان کی موت کا سبب تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وہیل شارک گزشتہ 75 برسوں میں نصف سے زیادہ کم
ہوچکی ہیں۔ تنزانیہ میں پایا جانے والا قوی الجثہ ہاتھی اب تیزی سے ختم
ہورہا ہے۔ بہت زیادہ شکار اور چراگاہوں میں کمی کے سبب اس ہاتھی کی 60 فیصد
تعداد کم ہوچکی ہے۔ افریقہ اور بھارت کا خاص سیاہ و سفید گینڈا، جو سینگوں
کی خاطر شکار کیا جاتا ہے، 1980ء سے 2006ء کے درمیان 63 فیصد تک کم ہوچکا
تھا۔ برطانیہ اور ملحق خطے میں پایا جانے والا ہیج ہاگ بھی 75 تک کم ہو چکا
ہے۔
قیمتی افریقی گرے طوطا بھی معدومی کے خطرے کے قریب جا پہنچا ہے، جس کی
تعداد میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ یہ خوبصورت طوطا اپنی بودوباش کیلئے معروف
علاقوں میں کمی، درختوں کی کٹائی، پھل دار جنگلات میں کمی اور آلودگی سمیت
دیگر عوامل کی بنیاد پر تیزی سے ختم ہورہا ہے اور اس کی آبادی میں 98 فیصد
تک کمی آچکی ہے۔ہم اس قومی اثاثے کے تحفظ کیلئے اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا
کریں ٗ جنگلی حیات اور اس کی حفاظت کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے تشہیری مہم
بھی باقاعدگی سے چلائی جانی چاہئے۔ تا کہ جنگلی حیات کی شکل میں یہ قیمتی
سرمایہ ہماری آئندہ نسلوں کیلئے محفوظ رہے۔اور حسن فطرت برقرار رہے۔
|