آج انسانی جان کی قیمت گاجرمولی سے کمتر معلوم ہوتی ہے
یہی وجہ ہے کہ قتل جیسے سنگین جرائم اب کھیل تماشہ بن گیا ہے۔ قاتلوں کے
خلاف کوئی سخت اقدام نہیں بلکہ اکثر قاتلوں کی پشت پناہی کی جاتی ہے ۔ پشت
پنانی کرنے والے سماجی افراد ہی نہیں عدالت وکچہری بھی ہے۔ ایک قاتل کو
کھلے عام گھومتے دیکھ کر دوسروں میں بھی قتل وغارتگری کا عنصر پیدا ہوجاتا
ہے۔ اس طرج آج کا سماج قتل وخون میں لت پت ہے ، انسانیت سسک رہی ہے اور
حکومت وعدالت کے قوانین کاغذوں کی فقط زینت بنے ہوئے ہیں ۔
مذکورہ تمہید کا عنوان سے ربط یہ ہے کہ ماں کے پیٹ میں پل رہے بچے کا اسقاط
بھی قتل جیسا سنگین جرم ہے بلکہ ایک طرح سے قتل سے بھی بھیانک جرم ہے ۔ یہ
وہ سفاکانہ قتل ہے جو زمانہ جاہلیت میں زندہ درگور ہونے والی بچیوں کے
مشابہ ہے۔کل قیامت میں ان سب سے سوال کیا جائے گا جنہوں نے کسی کا قتل
کیایاقتل کرنے پر مدد کی،معصوم کا خون بہایا، حمل ضائع کیا اور زندہ درگور
کیا۔
آج کل حمل ضائع کرنا تو معمولی سی بات بن گئی ہے ، نہ ڈاکٹر کو شرم وخوف ہے
ابارشن میں اور نہ ہی میاں یا بیوی کواوراس زمانے کاقانون تواندھا بہرا
ہےہی۔ ایسے پرفتن حالات میں اللہ ہی لوگوں کو ہدایت دینے والا ہے۔اللہ نے
اپنے بندوں کو فقروفاقہ کے ڈر سے اولاد کا قتل کرنے سے منع کیا ہے اور آج
اسی سبب اکثر حمل کا اسقاط ہورہاہے ۔ مسلمان ہونے کا مطلب اللہ کا مطیع
وفرمانبردار ہونا ہے ، اگر ہم واقعی مسلمان ہیں توماں کے پیٹ میں پل رہے
بچے کی حفاظت والدین کی ذمہ داری ہے، یہ اللہ کی امانت ہے اس کو نقصان
پہنچانا یا ضائع کرنا امانت میں خیانت اور انسانی قتل ہے۔
حمل ایک نفس اور ایک جان ہے ، حمل کی مدت جوں جوں بڑھتی ہے اس میں خلقت
پروان چڑھتی جاتی ہے ۔ حمل کے پہلے چالیس دن کے بعد دوسرا چالیسواں شروع
ہوتا ہے تو بیالیسویں دن انسانی تخلیق کی شروعات ہوجاتی ہے ، نبی ﷺ کا
فرمان ہے :
إذَا مَرَّ بالنُّطْفَةِ ثِنْتَانِ وَأَرْبَعُونَ لَيْلَةً، بَعَثَ اللَّهُ
إلَيْهَا مَلَكًا، فَصَوَّرَهَا وَخَلَقَ سَمْعَهَا وَبَصَرَهَا
وَجِلْدَهَا وَلَحْمَهَا وَعِظَامَهَا(صحيح مسلم:2645)
ترجمہ: جب نطفے پربیالیس راتیں گذر جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک
فرشتہ بھیجتا ہے، وہ اس کی صورت بناتا ہے، اس کے کان، آنکھیں، کھال، گوشت
اور اس کی ہڈیاں بناتا ہے۔
اور صحیح مسلم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ 120 دن یعنی چار ماہ کی مدت پہ
جنین میں روح پھونکی جاتی ہے ، نبی ﷺکا فرمان ہے :
إنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ في بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا،
ثُمَّ يَكونُ في ذلكَ عَلَقَةً مِثْلَ ذلكَ، ثُمَّ يَكونُ في ذلكَ مُضْغَةً
مِثْلَ ذلكَ، ثُمَّ يُرْسَلُ المَلَكُ فَيَنْفُخُ فيه الرُّوحَ(صحيح
مسلم:2643)
ترجمہ: بے شک تم میں سے ہر ایک آدمی کا نطفہ اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن
جمع رہتا ہے، پھر چالیس دن میں لہو کی پھٹکی ہو جاتا ہے، پھر چالیس دن میں
گوشت کی بوٹی بن جاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس کی طرف فرشتے کو بھیجتا ہے وہ
اس میں روح پھونکتا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جنین پر چار ادوار گزرتے ہیں تب جاکر خلقت
مکمل ہوتی ہے ، پہلے دور جوکہ چالیس دنوں پر محیط ہوتا ہے اس میں منی پر
مختلف مراحل گزرتے ہیں ،اس مرحلہ کو نطفہ کہا جاتا ہے ،پھر
دوسرےمرحلے(چالیس دن) میں نطفہ مختلف مراحل سےگزرکر منجمد خون کی شکل
اختیار کرتا ہے اس مرحلہ کو علقہ کہاجاتا ہے ، پھرتیسرے مرحلے(چالیس دن)
میں منجمد خون گوشت کے لوتھڑے کی شکل اختیار کرتا ہے ،اسے مضغہ کہا جاتا
ہے۔ ان تین مراحل سے گزرکر جنین میں اعضاء کی تشکیل اور ہڈیوں کی بناوٹ کے
آثار ظاہر ہوجاتے ہیں اور جب چار ماہ بعد اعضائے جسم کا ظہور ہوجاتا ہےتو
اس میں روح پھونک دی جاتی ہے ۔
ان باتوں سے ہم نے یہ جانا کہ جب حمل ٹھہرجاتا ہے تو پھر اس کی خلقت کا
سلسلہ جاری رہتا ہے اس وجہ سے شروع حمل میں یا درمیان یا آخر میں کبھی بھی
اسقاط جائز نہیں ہے ، جن علماء نے کہا کہ بلاسبب بھی پہلے چالیس دن میں حمل
کا اسقاط کرسکتے ہیں وہ خطا پر ہیں ، حمل کے معاملے میں اصل یہی ہے کہ
بلاعذر اس کا اسقاط نہ پہلے دور میں جائز ہے اور نہ ہی دوسرے،تیسرے اور
آخری دور میں بلکہ 42 دن کے بعد جب کان ناک آنکھ کے آثار پیدا ہوجاتے ہیں
تب اور بھی سخت جرم ہے اور اس سے بڑا جرم 120 دن کے بعد اسقاط ہے کہ اس وقت
بچے میں روح پھونک دی جاتی ہے ۔
اگر کسی عورت نے خود سے، یا شوہریا کسی دوسرے کے بہکاوے میں آکر حمل کا
اسقاط کروا دیا ہے تو اس عورت پر لازم ہے کہ فورا اللہ کے حضور گڑگڑاکر سچی
توبہ کرے اور کثرت سے استغفار کرے کہ کہیں یہ جرم اس کی ہلاکت کا موجب نہ
جائے ، سچی توبہ سے ممکن ہے کہ گنہگار کو بخش دے۔
اب یہاں یہ حکم جاننا ہے کہ کسی عورت نے بلاعذرعمدا حمل ساقط کروایا ہے
توكيا اس پر توبہ کے ساتھ کفارہ بھی ہوگا؟
تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر اسقاط پہلے دوریعنی اول چالیسویں میں ہو
تو اس میں عورت پر فقط توبہ واستغفار لازم ہے اور اگر دوسرے دورمیں 42 دن
کے بعد اور روح پھونکنے سے پہلے ہواہو تو دیت دینی ہوگی کیونکہ اس مرحلہ
میں انسانی خلقت کی ابتداء ہوچکی ہوتی ہے جیساکہ صحیح مسلم کی روایت سے
ہمیں معلوم ہوا ہے۔ اس دیت کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ قَضَى فِي امْرَأَتَيْنِ مِنْ هُذَيْلٍ اقْتَتَلَتَا، فَرَمَتْ
إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى بِحَجَرٍ، فَأَصَابَ بَطْنَهَا وَهِيَ حَامِلٌ،
فَقَتَلَتْ وَلَدَهَا الَّذِي فِي بَطْنِهَا، فَاخْتَصَمُوا إِلَى
النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَضَى: أَنَّ دِيَةَ مَا
فِي بَطْنِهَا غُرَّةٌ عَبْدٌ أَوْ أَمَةٌ، فَقَالَ وَلِيُّ المَرْأَةِ
الَّتِي غَرِمَتْ: كَيْفَ أَغْرَمُ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ لاَ شَرِبَ
وَلاَ أَكَلَ، وَلاَ نَطَقَ وَلاَ اسْتَهَلَّ، فَمِثْلُ ذَلِكَ يُطَلُّ،
فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّمَا هَذَا مِنْ
إِخْوَانِ الكُهَّانِ»(صحيح البخاري:5758)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ ہذیل کی دو عورتوں
میں فیصلہ کیا جنہوں نے آپس میں جھگڑا کیا تھا۔ ان میں سے ایک نے دوسری کو
پتھر مارا جو اس کے پیٹ پر کر لگا۔ یہ عورت حاملہ تھی، اس لیے اس کے پیٹ کا
بچہ مرگیا۔ یہ معاملہ دونوں فریق نبی ﷺ کے پاس لے کر آئے تو آپ نے فیصلہ
فرمایا کہ عورت کے پیٹ کی دیت ایک غلام یا لونڈی ادا کرنا ہے۔ جس عورت پر
تاوان واجب ہوا تھا اس کے سرپرست نےکہا: میں اس کا تاوان ادا کروں جس نے نہ
کھایا نہ پیا نہ بولا اور نہ چلایا؟ ایسی صورت میں تو کچھ بھی دیت واجب
نہیں ہوسکتی۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: یہ تو کاہنوں کا بھائی معلوم ہوتا ہے۔
42 دن سے لیکر 120 دن سے پہلے تک اسقاط حمل کروانے کی صورت میں دیت دینا
ہوگا ، دیت کو " غرۃ عبد او امۃ "سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی ایک غلام یا
لونڈی کی شکل میں بچے کی دیت ہوگی ، اس سے مراد ماں کی دیت کا دسواں حصہ
جوکہ پانچ اونٹ بنتا ہے ۔اس بابت شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ
"مرد کی دیت سواونٹ ہے ، اس کا آدھا پچاس اونٹ کی دیت عورت کی ہوگی ، اس
طرح عورت کی دیت کا دسواں حصہ پانچ اونٹ بنتا ہے اور آج کل دیت کی قیمت ایک
لاکھ ریال ہے اس طرح عورت کی دیت کا دسواں حصہ پانچ ہزار ریال ہوگا"۔
یہ دیت جنین کے وارثوں میں تقسیم ہوگی تاہم جنین کے قاتل خواہ ماں ہو یا
باپ یا دونوں ان کو حصہ نہیں ملے گا کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
ليس للقاتلِ شيءٌ، وإن لمْ يكن لهُ وارثٌ، فوارثهُ أقربُ الناسِ إليه، ولا
يرثُ القاتلُ شيئًا(صحيح أبي داود:4564)
ترجمہ:قاتل کے لیے کچھ بھی نہیں، اور اگر اس کا کوئی وارث نہ ہو تو اس کا
وارث سب سے قریبی رشتے دار ہو گا لیکن قاتل کسی چیز کا وارث نہ ہو گا۔
اگر اسقاط روح پھونکنے کے بعد کرایاگیاہوجس کے نتیجے میں جنین کی موت
ہوجائے تو دیت کے ساتھ کفارہ بھی دینا پڑے گا اور کفارہ یہ ہے کہ یاتو ایک
مسلمان غلام کی گردن آزاد کرے یا پھر مسلسل دوماہ کے روزے رکھے ۔
مقتول کے ورثاء چاہیں تو دیت معاف ہوسکتی ہے لیکن کفارہ معاف نہیں ہوسکتا
ہے کیونکہ دیت حقوق العباد ہے جو بندوں کے معاف کرنے سے معاف ہوجائے گا
لیکن کفارہ اللہ کا حق ہے جسے فرض کردیا گیا ہے ،اسے ہرحال میں ادا کرنا
ہوگا،اللہ کا فرمان ہے :
ومن قتل مؤمنا خطأ فتحرير رقبة مؤمنة ودية مسلمة إلى أهله إلا أن يصدقوا
(النساء:92)
ترجمہ:جو شخص کسی مسلمان کو بلاقصد مار ڈالے ،اس پر ایک مسلمان غلام کی
گردن آزاد کرنا اور مقتول کے عزیزوں کو خون بہا پہنچانا ہے ، ہاں یہ اور
بات ہے کہ وہ لوگ بطور صدقہ (دیت)معاف کردیں(توکوئی بات نہیں)۔
آخر میں مسلمان عورتوں سے گزارش کرتا ہوں کہ مغربی تہذیب کی نقالی اور
غیروں کی دیکھادیکھی میں اپنی اولاد کا قتل نہ کریں، نہ ہی فقروفاقہ اور
تعلیم کا بہانہ بناکر معصوم کی جان لیں ۔ یاد رکھیں ، روزی کا مالک اللہ ہے
، جس طرح وہ آپ کو روزی دیتا ہے اسی طرح آنے والے بچے کو بھی اپنے نصیب کی
روزی دے گا۔ اگر آپ نے یہ بات ذہن میں نہ بٹھائی اور من مانی کرتے ہوئے حمل
ساقط کرواتے رہیں تو عین ممکن ہے بچے کی روزی کا حصہ آپ کی روزی سے کم کردی
جائے ، زندگی میں آزمائش بڑھادی جائے اور معصوم بچےکےقتل کے جرم میں آخرت
میں دردناک سزا سے دوچار کیا جائے ۔ الحفظ والامان
|