سوشل میڈیا سے بلیک میلنگ تک کا سفر۔۔۔

کئی زمانوں سے ہمارے معاشرے میں حوا کی بیٹی سانس تو لیتی ہے لیکن اس سانس پر کئی سماجی اور معاشرتی بوجھ ہوتے ہیں۔۔۔اور اس بوجھ کی آڑ سے کبھی وہ گھبرا کر اور کبھی اپنی خوشی سے ۔۔۔وہ فیصلے اور وہ اقدامات لیتی ہے جو اسے زندگی بھر کی رسوائی اور بے عزتی کے گہرے سمندر میں دھکیل دیتے ہیں۔۔۔

لڑکا اور لڑکی کی دوستی ہوجانا ہمارے معاشرے میں عام ہوچکا ہے اور اس بے راہ روی کے سنگین اور خطرناک نتائج بھگتنے کے لئے لڑکیاں کبھی بھی ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتیں۔۔۔اور یوں شروع ہوتا ہے بلیک میلنگ، زبردستی رشتہ رکھنے کا اصرار اور ذہنی دباؤ۔۔۔جس کا انجام کبھی کبھی خود کشی جیسے بھیانک فعل تک بھی جا پہنچتا ہے

گزشتہ پانچ سالوں میں صرف سوشل میڈیا سے بلیک میلنگ میں اضافہ ہونے والی بچیوں کی تعداد 45 فیصد سے بڑھ کر 65 فیصد تک جا پہنچی ہے۔۔۔ایک اندازے کے مطابق پنجاب اور سندھ میں زیادہ تر خودکشی کے کیسز کی ذمہ دار یہی جھوٹی اور نام نہاد محبت اور اس کے نتیجے میں ہونے والی بلیک میلنگ ہے۔۔۔سوال یہ ہے کہ آخر لڑکیوں نے خود کو اتنا آسان ٹارگٹ کیوں بنادیا ہے۔۔۔

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں زیادہ تر گھرانوں میں بیٹیوں کی پرورش دو طرح سے ہوتی ہے ۔۔۔پہلا طریقہ انہیں مسلسل یہ احساس دلانا کہ کہ کسی طرح وہ اس گھر سے جائیں اور معاشرتی اور سماجی بوجھ والدین کے کندھوں پر سے کم ہو۔۔۔بیٹیوں کو بار بار یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ چاہے وہ گھر سنبھال رہی ہوں یا اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ کر ماں باپ کی ہر رضا میں سر جھکا رہی ہوں۔۔۔لیکن پھر بھی ان کا وجود ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب والدین کو ہر پل دینا پڑتا ہے۔۔۔یہ شرمندگی سے بھرا رہنے کا اور جینے کا انداز انہیں راہ فرار ڈھونڈنے پر مجبور کردیتا ہے اور وہ اپنی مرضی سے ایک ایسے کنویں میں چھلانگ لگاتی ہیں جو ان کی زندگی کو مزید بدصورت بنا دیتا ہے۔۔۔

معاشرے کا دوسرا رخ حد سے زیادہ بڑھتی آزادی، کم عمری میں ہی تمام تر سہولیات کی فراہمی اور ہر طرح کی آگاہی۔۔۔والدین کا بے جا لاڈ پیار اور یہ احساس کہ ہم یہ سب اس لئے کر رہے ہیں کیونکہ ہم ماڈرن ہیں اور ایسا کرنے سے ہم اپنے جیسے لوگوں میں کلاس بنا سکیں گے۔۔۔بچوں کو ان کی زندگی میں جینے کے لئے کھلا چھوڑ دینا اور کسی قسم کی روک ٹوک کے بغیر انہیں معاشرے میں اپنا مقام پانے کے لئے چھور دینا در اصل انہیں ایک ایسے مقام پر لے آتا ہے جہاں وہ اپنی اصلی قدرو منزلت بھی کھو دیتے ہیں۔۔۔

یاد رکھئے! بچوں کو پالنا مشکل نہیں، بالکہ ان کی تربیت کرنا ایک پیچیدہ مرحلہ ہے۔۔۔ہمیں اپنی بیٹیوں کو خود اعتماد بھی بنایا ہے اور ان کو یہ بھی سکھانا ہے کہ اپنی عزت اور آبرو کو سنبھال کر کیسے رکھنا ہے۔۔۔سوشل میڈیا ہو یا چاہے دوسرے روابط اس کا استعمال کس حد تک کر نا ہے اور کیسے کرنا ہے۔۔۔خود کو دنیا کے رحم و کرم پر نہیں ڈالنا اور بلیک میلنگ کا اگر شکار ہوں بھی تو پریشان نہیں ہونا۔۔۔

بچیوں کو یہ سکھائیں کہ اگر انہیں کوئی پریشان کرے تو وہ اس سے ڈریں نہیں بلکہ اپنے بڑوں کو اعتماد میں لیں اور وہ اعتماد کی فضا صرف والدین ہی پیدا کر سکتے ہیں۔۔۔
 

Muneeza Waseem
About the Author: Muneeza Waseem Read More Articles by Muneeza Waseem: 11 Articles with 119823 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.