بے لوث کاروان۔حق حقدار تک۔

فرمایا گیا " اورسائل کو مت جھڑ کو ۔یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ " یہ انسانی معاشرے کے وہ اوصاف ھیں جن پر سماج کی بنیادیں کھڑی ہیں ، مولانا عبد الستار ایدھی کہا کرتے ھوتے تھے کہ میں اللہ کے راستے کا فقیر ھوں دکھی انسانیت کے لیے میں فخر سے جھولی پھیلاتا ھوں اسی جھولی کے ساتھ محبت بھری ایسی گود بنائی کہ لاکھوں محروم بچوں کو اپنی گود میں ماں کا پیار ملا،باپ کی شفقت ملی آور دنیا آج تک ان کی خدمات پر عش عش کر اٹھتی ھے۔ھمارے سماج میں ضرورت مند دو قسم کے ھوتے ہیں ایک وہ جو کھلے عام ھاتھ پھیلا تے ھیں اور دوسرے وہ لوگ جنہیں سفید پوش کہا گیا ہے جو اپنی خوداری کی وجہ سے کبھی ھاتھ نہیں پھیلاتے۔وہ امیر اور متمول افراد کی دولت پر حق رکھتے ہیں ان کی ضرورت کا خیال رکھنا اور انہیں تلاش کرنا حق اور سچ کی تلاش سے منسوب کیا گیا ہے۔اول الذکر افراد کو بھی جھڑ کنے سے منع کیا گیا ہے اس لیے کہ آپ کے پاس جو کچھ ھے وہ دراصل آپ کا نہیں ہے وہ اللہ کی امانت ھے جو بقول اشفاق احمد دینے کے لیے دیا جاتا ہے آپ کے ظرف کی بھی آزمائش ھے۔محسن انسانیت نے فرمایا تھا کہ احد پہاڑ بھی سونا بن جائے اور مجھے دیا جائے تو اس وقت تک نہیں سوؤں گا جب تک اس کو تقسیم نہ کر دوں! اس کے باوجود سرعام سوال کرنے کو پسند یدگی کی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔

بدقسمتی سے ھمارے ملک میں یہ ایک بیماری آپ کو ھر چوک چوراہے میں عام محسوس ھوگی دراصل یہ لوگ حکومت اور ریاست کی ذمےداری میں آتے ہیں کہ ان کی کھوج لگائی جائے کہ حقیقت کیا ہے اور ان کو کیسے اس عمل سے باز رکھا جاسکتا ہے مگر بدقسمتی سے ریاست نے یہ رول کبھی ادا نہیں کیا۔قرون اولی کے لوگ یا صحابہ کرام ضرورت مند کو تلاش کرکے دیتے اور اس کی عزت نفس کو مجروح نہیں ہونے دیتے تھے۔اج اللہ کے راستے میں دینا اور اس کا فخریہ اظہار کرنا عام ھو چکا ھے۔تاھم آج بھی کچھ لوگ اور ادارے ایسے ہیں جو بے لوث خدمت کو زندگی کا مقصد بنا لیتے ہیں ایسا ہی ایک ادارہ کاروان فاؤنڈیشن پاکستان ھے جو چند نوجوان دوستوں نے مل کر شروع کیا اور آج سے 14 سال قبل اس کا آغاز کیا گیا تھا آج یہ ایک تناور درخت بن چکا ہے۔2005 ء کے زلزلے کے ایک بڑے سانحے میں سید عابد گیلانی،تقویم انور جیسے نوجوانوں نے اس کاروان کو منظم کیا یہی وہ جذبہ ہے کہ جس کو دیکھ کر ھمیشہ پاکستان میں ایک امید قائم رہتی ہے کہ پاکستان کا مستقبل محفوظ اور روشن ھے۔ ان نوجوانوں نے 2005 ء میں مظفر آباد میں ایک بستی قائم کی زلزلہ متاثرین کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے لائیو سٹاک چھوٹے کاروبار کو شروع کر کے ان کے حوالے کیا۔علم کی روشنی کو سکولز کی صورت میں پھیلایا گیا۔بنیادی صحت کے مراکز اور آ رفن ھاؤسز قائم کیے گئے۔جبکہ مستقبل بنیادوں پر نوشہرہ،چارسدہ اور راولپنڈی میں تعلیمی پروگرامز شروع کیے گئے یہی نہیں بلکہ شجر کاری مہم کے ذریعے ھزاروں درخت لگائے گئے۔ ایک بڑا انسانی المیہ تھر میں جنم لیتا ہے تو کاروان وہاں پہنچ جاتا ہے بھوک ،پیاس اور افلاس میں مبتلا انسانیت کا ڈھارس بندھاتا ھے اور آج تک تقریباً 113 شفاف پانی کے کنوئیں کھود کر اہل تھر کے حوالے کیے جس سے لاکھوں انسان فائدہ اٹھا رہے ہیں جبکہ خوراک اور صحت کی سہولیات بھی مہیا کی گئیں۔یہ سب کام کاروان اپنے نوجوانوں کی انسانی تحریک کی صورت میں کرتے رہے ہیں۔میں گزشتہ کئی سال سے دیکھ رہا ہوں کہ بغیر کسی تشہیر کے اتنا بڑا کام بے لوث کیا جا رہا ہے۔ ھر سال یتیموں بیواؤں اور ضرورت مندوں میں رمضان فوڈ پیکج بھی تقسیم کیا جاتا ہے،ادارے کو اپنے مستقل آ رفن ھاؤسز اور تعلیمی پروگرامز چلانے کے لیے صاحب ثروت خدمت گزاروں کی ضرورت ہے جو ماہانہ،سہ ماہی یا سالانہ بنیادوں پر اس پروگرام کے ممبر بنیں۔خود ملاحظہ کریں اور آگے بڑھ کر کاروان میں شامل ھو جائیں۔قارئین اس عظیم انسانی خدمت کا حصہ بنیں گے تو کاروان چلتا رہے گا۔یقینا تم میں سے بہترین وہ ہے جو دوسرے انسانوں کو فایدہ پہنچائے۔انسانی خدمت ھی کاروان کے ماتھے کا جھومر ہے۔اس بے لوث طریقے سے ھی حق حقدار تک پہنچے گا۔
 

Prof Muhammad Khursheed Akhter
About the Author: Prof Muhammad Khursheed Akhter Read More Articles by Prof Muhammad Khursheed Akhter: 89 Articles with 68574 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.