زندگی کو قلندری، درویشی میں لپیٹے وہ اِس بارے سرگردواں
رہتا ہے کہ کسی مفلس کا بھلا ہو، کسی بے کس کی ڈھارس بندھے، کسی مستحق کو
حق مل سکے، دھرتی کا کچھ قرض کم ہوجائے۔ یہ سبق اُس نے کہیں پڑھا نہیں بلکہ
یہ اُسے اپنے والد محترم سے اَز بر ہوا۔ زندگی نے تو گزرجانا ہے، یہ کارِ
خیرمیں گزر جائے تو آخرت کی فکر چنداں نہیں رہتی۔ خدا کا فضل و کرم تو
مانگتے زبان تھکتی نہیں۔ عام لوگوں ، متوسط انسانوں سے جڑے رہنے میں عافیت
پانے والے خالد بن مجید کورَاقم کئی برسوں سے جانتا ہے۔ کسی کی زندگی میں
اُس کے اُوصاف بارے گفتگوہوجائے، کچھ لکھا جائے تو قدرے زیادہ بہتر ہوتا ہے۔
بندآنکھیں تو کُھلنے سے رہیں، دماغ سننے ، سوچنے سے رہا۔ میں اِس بات کا
روزِ اوّل سے قائل ہوں کہ بات منہ پر کی جائے۔ تنقید سامنے ہونی چاہیے اور
تعریف سرِ عام ہو۔ زندگی تو ہر انسان جیتا ہے مگر کچھ لوگ اپنی زندگی سے
عظیم اور عمدہ ہوتے ہیں۔ بڑے لوگ ہوتے ہیں۔ یہ تاریخ پڑھتے ہیں اور تاریخ
رقم کرتے ہیں۔ عام آدمی اپنی ذات تک محدود ہوتا ہے۔ یہ لوگ اگلی نسلوں تک،
اگلے زمانوں تک کا سوچتے ہیں۔ انہوں نے متعدد ایسے کنویں کھودے جن کا پانی
خود نہیں پیا، ایسے رفاعی کام کیے جن سے دوسروں کی ذات مستفید ہوئی۔ ایسے
لوگ گنتی کے ہوتے ہیں۔ یہ زمانے کی سوچ سے آگے کا سوچتے ہیں۔ اِس نے کشمیر
کی محبت میں عدالتی حکمنامے بھی وصول کیے، لیکن یہ کہاں پیچھے ہٹنے والا اس
نے تو کروڑ وں کا عوامی فلاح و بہبود کا منصوبہ 4 اضلاع میں لانچ کر دکھایا۔
عام لوگوں کو روزگار ملا، عام آدمی کی استعداد کار بڑھی، عام آدمی کی اراضی
کٹاؤ سے بچی، عام آدمی کے ذہن کے دریچے وا ہوئے۔ عام آدمی نے دست ِ دُعا
بلند کیے اور خالد بن مجید صف ِ اوّل کے انسانی خدمت کے عظیم قومی ادارے کے
سیکرٹری جنرل بنے۔ سلسلہ کارِ خیر رُکنے کو نہیں آتا۔ تینوں خالد حافظہ کے
نہایت تیز ثابت ہوئے۔ وقت کا بہتر استعمال کیا اور خود احتسابی کی عادت
ہمیشہ اپنائے رکھی۔ماں باپ کی دعائیں اُس کا ہالہ کیے رہتی ہیں، وہ دُعا و
مناجات کے حصار میں رہتا ہے۔ اُس کا مرشد اُس کے گھر میں ہے، اُسے کسی
درگاہ پر حاضری کی حاجت نہیں ۔ بابا اور ماں جی اُس کیلئے اور وہ اِن دونوں
کیلئے باقی سب بعد میں۔ بھلا اب کون اور کیسے راہ کا روڑہ بن سکتا ہے،
مشکلات آتی ہیں مگر جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہیں۔ یہ سب ذاتی مشاہدہ میں بھی
ہے۔ وہ پاؤں چُھو کر ماتھے پر بوسہ لیکر نکلتا ہے اور سینہ تانے یہ ہر
میدان میں آگے ہی آگے دِکھتا ہے۔بات یہاں ختم نہیں ہوجاتی یہ شخصیت کبھی
ناکام نہیں ہوتی۔ کامیابی نے اِن کے قدم اِس لیے چومے کہ انہوں نے ہمت نہیں
ہاری۔ خوب سے خوب تر کی جستجو میں رہنے والے خالد بن مجید نے خدمت ِ
انسانیت کو ہمیشہ اوّلیت دی ۔ درجنوں ایسے واقعات قلمبند ہوسکتے ہیں جس میں
موصوف کا کردار نمایاں ہے۔ کئی گھرانوں کے چولہے انہوں نے بجھنے نہیں دیئے،
کئی طلباء کی تعلیمی ترقی رُکنے نہیں دی۔کئی طالبات کو علم کے زیور سے
آراستہ کرنے کیلئے اِن کی کاوشیں زبان زدِ عام ہیں۔ حرف ِ عام میں اپنے
دشمنوں ، مخالفوں سے بھی نفرت نہ کر سکتے۔ اِس شخصیت کو قریبی دوست ’’درویش‘‘
کے لقب سے پکارتے بھی ہیں اور اِن کا تعارف کسی اور سے کروانا ہو تو یہی
لفظ استعمال میں لایا جاتا ہے۔ اِن کو اپنی برائی پرکھنے کا ہنر بھی عطا
ہوا اور دوسروں کی برائی کو نہ دیکھنے والی نظر بھی ملی ہے۔ برسوں کے تعلق
میں کبھی بھی اسے اَنا کی دستار باندھے دوسروں کے جھکنے کا منتظر نہیں
پایا۔دعا ہے کہ اﷲ خالد بن مجید کواستقامت دے اور عمر خضر عطا کرے۔باقی دو
خالد کا ذکر آنے والے دِنوں میں۔۔۔۔
|