اللہ پیر نصیر الدین نصیر گیلانی ؒکے درجات بلند فرمائے
وہ اپنے مسلک زیارات پیری مریدی سمیت ہر طرح کے معاملات میں اچھی باتوں کی
دلیل جواز سے ثابت کرنے اور غلط چیزوں کی دوٹوک شفاف الفاظ میں مذمت و
اصلاح کے حوالے سے بے باک فریضہ حق سرانجام دیتے رہے ہیں اور کسی
مصلحت‘ناراضی‘ مجبوری کو کبھی آڑے نہیں آنے دیا‘ یہی ایک کامل مومن مسلمان
پیر علامہ مولانا لیڈر یا کسی بھی شعبے کے بڑ ے ہونے کا معیار ہوتا ہے کہ
درست کو درست کہا جائے تو غلط کو غلط قرار دے کر لوگوں کی سیدھے راستے پر
رہنمائی کرے اپنے ایک خطاب میں پیر نصیر الدین نصیر فرما رہے تھے کہ وفات
کے بعد مرحوم کے گھر میں تعزیت کیلئے آ کر بیٹھ جانا اور پھر خاطر تواضع
کھانوں کا سلسلہ کسی صورت درست نہیں ہے‘ زیادہ سے زیادہ تعزیت کیلئے آنے
والا تین منٹ بیٹھے فاتحہ کرے اور اُٹھ کر چلا جائے اور پانی پینا ہو تو
پانی پلایا جائے خاطر تواضع بشمول کھانوں کا سلسلہ نہیں ہونا چاہیے‘ اب یہ
قرض لے کر بھی کیا جاتا ہے صرف دو دراز سے سفر کر کے آنے والے کو کھانا
کھلایا جائے یہ فیشن بن گیا ہے جو غلط ہے اور جس کے گھر میں وفات ہوتی ہے
اس کے لیے اپنے مرحوم کے بجائے آنے والوں کی مہمان داری مسئلہ بن جاتا ہے‘
تاہم صاحب استطاعت یتیم‘ مساکین کو کھانا کھلائیں جو حق دار ہیں جن کا اجر
اللہ دیتا ہے ہمارے معاشرے میں بے شمار خوبیاں ہیں مگر کھانا خاطر تواضع
سمیت تعزیت کے لیے بیٹھے ہیں تو بیٹھ ہی جانا پھر نماز جنازہ کے بعد جس طرح
کئی دن کے بھوکے کھانے پر لپکتے ہیں اس طرح مرحوم کے وارثوں سے دوڑ کر
لپٹنا اور چپکنا اس کی آنکھوں کے کیمروں میں اپنی شکل کی تصویر پختہ کرنے
کے انداز بڑے ہی المناک صورت اختیار کر چکے ہیں جنازہ اُٹھ جاتا ہے مگر اس
کا پیچھا نہیں چھوڑا جاتا بعد میں تعزیت کیلئے جا کر بھی اطمینان سے دلاسہ
دیا جا سکتا ہے کم از کم موت کے آخری لمحات پر شرکت نماز جنازہ تو خالصتاً
رضا الٰہی کے لیے ہونی چاہیے‘ علماء‘ سیاسی قائدین‘ تمام مکاتب فکر کے بڑے
کہلانے والوں کو ان رویوں کی حوصلہ شکنی کیلئے زبان و رویوں کو اصلاح کا
موجب بنانا چاہیے یہ بہت قابل فخر اور اچھی بات ہے کہ ہمارے شہر مظفر آباد
میں بڑی مساجد کے وضو خانے‘استنجہ خانے‘ صفائی کے لحاظ سے قابل تعریف ہیں
یعنی اس کا انتظام خیال رکھنے والے داد تحسین کے حقدار ہیں اپر اڈہ سے
بازار تک بنک روڈ ارد گرد تمام بڑی آبادی والی مساجدمیں داخل ہوتے ہی
استنجا وضو کے لیے رخ کر تے ہیں تو اب خود جوتیاں اُتار کر آگے بڑھتے چلے
جاتے ہیں اس راستے میں سٹیل جالی دار کارپٹ سنگ مر مر کے فرش سے باتھ روم
میں موجود جوتیوں کے ساتھ صاف ستھرے ماحول میں بعد از استنجا وضو خانے کے
شفاف سیٹوں پر بیٹھ کر وضو کرتے ہوئے اچھا احساس لے کر جائے نماز تک پہنچ
جاتے ہیں یہ کمال سیرت کمیٹی سمیت علاقائی تاجر‘ عوام علاقہ کے نظم نے اپنی
اپنی سطح پر کیا ہوا ہے اگر بغیر سرکار کے اس طرح کے بہترین انتظام نہ ہونے
کے برابر بجٹ میں ہو سکتا ہے تو پھر زندگی کے باقی سماجی امور میں کیوں
نہیں ہو سکتا ہے‘ قبرستانوں کی طرف بھی توجہ دی جا سکتی ہے‘ صفائی ستھرائی
کا گھر کی چوکٹھ سے لے کر بازار سڑک تک شعوری توجہ دے کر انتظام مثالی
بنایا جا سکتا ہے‘ صفائی دِن کو نہیں رات کو دکانات وغیرہ بند کرنے سے پہلے
کریں دِن کو دکانات کے باہر کوڑے دانوں میں کوڑا ڈالیں اور خود کو سب سے
بہتر انسان کہلوانے کی بنیادیں رکھیں جس طرح مساجد میں مثال قائم ہے اس طرح
اجتماعی سماجی اُمور میں قائم کریں سارے کام سرکار پر چھوڑنے کام چوری ہے
کچھ کام خود بھی رضا الٰہی کے لیے کرنے چاہیے ہیں
|