ہر سال 9 نومبر کو پورے پاکستان میں شاعرمشرق علامہ محمد
اقبالؒ کے یومِ پیدائش کو یومِ اقبالؒ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اقبالؒ
نوجوانوں کو شاھین صفت دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ نسلِ نو کو ترقّی اور کام یابی
کا زینہ سمجھتے تھے۔
انہوں نے قوم کی بنیاد تلوارکےبہ جائے علم و عرفان کو قرار دیا۔ نوجوان نسل
کسی بھی قوم کا حقیقی سرمایہ ہوتی ہے،جس قوم کے نوجوان بیدار و باشعور ہوں،
اس کا مستقبل محفوظ اور تابناک ہوتا ہے ،جب کہ اس کے برعکس جس قوم کے
نوجوان غیرفعال اور تن آسانی کے مرض میں مبتلا ہوں، وہ قوم کبھی آگے نہیں
بڑھ سکتی۔ نوجوانوں کا فعال کردار ہی قومی ترقّی کا ضامن ہے ۔
آج جس قدر امتِ مسلمہ بے بسی کا شکار ہے اس کی بنیادی وجہ امت کے نوجوانوں
کی تن آسانی کے ساتھ ہی تہذیب بھی ہے۔ اس تہذیب کی پیروی نے نوجوانوں کو
منزل سے دور کیا۔
دراصل نوجوانوں میں کسی پیغام کو قبول کرنے کی نہ صرف صلاحیت ہوتی ہے بلکہ
اس کے مطابق زندگی کو تعمیر کرنے کا جذبہ اور عزم بھی ہوتا ہے۔ اقبال کے
خیال میں کسی قوم کی ترقّی اور عروج کا باعث مال و دولت کی کثرت نہیں بلکہ
ایسے نوجوانوں کا وجود ہے، جو ذہنی اور جسمانی اعتبار سے صحت مند اور
پاکیزہ اخلاق و کردار کے مالک ہوں۔ اقبالؒ کے نزدیک قوم کی اصل دولت تندرست،
ذہین، محنتی، چاق و چوبند نوجوان ہیں۔
اقبالؒ ایک درد ،دل سوز، دوراندیش اور فکر قومیت رکھنے والی شخصیت تھے، جب
وہ مسلم نوجوانوں کو غفلت کی نیند سوئے ہوئے دیکھتے تو ان کے مستقبل کے لیے
پریشانی میں مبتلا ہو جاتے۔ ان کے اشعار نوجوانوں کی اصلاح اور شعور کی
بیداری کے لیے تھے۔ شاعر مشرق عقاب کی ساری خوبیاں مسلم جوانوں میں دیکھنا
چاہتے تھے۔ ان کی شاعری کا مسلم نوجوانوں پر ایسا سحر انگیز اثر ہوا کہ وہ
جوش، ولولے، ہمت، حوصلے کے ساتھ الگ ریاست کے مطالبے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے
اور ایسے سرگرم ہوئے کہ ایک الگ وطن پاکستان حاصل کر کے ہی دم لیا۔
اقبالؒ کی شاعری کسی ایک دور کے جوانوں کے لیے مختص اور محدود نہیں ہے، جب
بھی مسلم نوجوان غفلت میں پڑیں گے، اقبال کی شاعری ان کے لیے مشعل راہ بنے
گی۔ وہ چاہتے تھے کہ نوجوان مغرب کی پیروی کرنے کے بہ جائے اپنے اسلاف کی
زندگیوں کو قابل تقلید بنائیں۔ وہ مغربی تہذیب کی عارضی چکاچوند کو مسلم
نوجوانوں کے لیے انتہائی نقصان دہ سمجھتے تھے، کیوں کہ یہ ظاہری چمک دمک
رُوحانی اقدار سے ہٹ کر مادی ترقّی کی طرف لے جاتی ہے، جب کہ اسلامی تہذیب
اور ہمارے اسلاف کی تعلیمات ایک پائیدار رُوحانی ترقّی اور انسانی بھلائی
کے دروازے کھولتی ہیں۔ اقبال کی شاعری میں جن تصورات نے علامتوں کا لباس
اختیار کیا ہے ان میں شاہین کا تصور ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔
انہوں نے اپنی شاعری میں شاہین کو ایک خاص علامت کی حیثیت سے پیش کیا، وہ
ان کا محبوب پرندہ تھا۔شاہین خوددار اور غیرت مند ،بلند پرواز ، خلوت نشین
اور تیز نگاہ پرندہ ہے۔ان کے نزدیک یہی صفات مردِ مومن کی بھی ہیں ،وہ
نوجوانوں میں بھی یہی صفات دیکھنا چاہتے تھے۔ شاہین کے علاوہ کوئی اور
پرندہ ایسا نہیں ،جو نوجوانوں کے لیے قابل تقلید نمونہ بن سکے۔ شاہین بلند
پرواز ہے عام پرندوں کی طرح نیچی پرواز اس کے شایان شان نہیں۔ نوجوانوں میں
بلند پروازی کی صفت پیدا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے مقاصد بلند ہوں، ان
کی سوچ میں پستی نہ ہو۔
شاعر مشرق نوجوانوں سے بھی یہی توقع رکھتے تھےکہ وہ کسی ایک جگہ بیٹھ کر
ترقّی اور عظمت کے خواب دیکھنے کے بہ جائے علوم و فنون کے حصول کے لیے پوری
دُنیا میں جہاں کہیں بھی جانا پڑے، جانے سے گریز نہ کریں۔ ترقّی اور بہتری
کے مواقع جہاں بھی نظر آئیں ان تک رسائی حاصل کرنے کی جدوجہد کریں۔ مسلم
نوجوانوں کی تربیت میں بھی یہی چیز شامل ہونی چاہیے۔شاہین کی صفات اگر کسی
نوجوان میں بیدار ہو جائیں ،تو اس کی شخصیت ایک خوددار اور خودشناس انسان
کے رُوپ میں ڈھل جاتی ہے۔
جس قوم میں ایسے نوجوان ہوں، اسے ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ مجموعی
طور پر دیکھا جائے ،تو اقبال نوجوان نسل کو جمود کے دور سے نکل کر آگے
بڑھنے کے لیے انگیخت کرتے تھے۔ نوجوان نسل کو تبدیلی اور ارتقاء میں اپنا
کردار ادا کرنے کی طرف راغب کیا ۔ اقبال کی شاعری میں ہمیں واضح پیغام ملتا
ہے، کہ انسان مادی علم کی حدوں سے نکل کر چیزوں کی معنویت اور رُوحانیت پر
بھی غور کرے۔
آج کے دور میں ان کے پیغام کو نوجوا ن نسل تک احسن طریقے سے پہنچانے کی
اشد ضرورت ہے۔ کلام اقبال ہی کے سہارے سے قوم کے مستقبل کو ملک و قوم کی
تعمیر میں مگن کر سکتا ہے۔ ہمارا ملک جن مصائب کا شکار ہے، ان سے نکلنے کے
لیے اقبال کے شاہینوں کو ایک بار پھر میدان عمل میں آنے کی ضرورت ہے۔
اقبالؒ کی شاعری منجمد نہیں بلکہ آفاقی ہے۔ وہ اپنی قوم سے اور نوجوانوں
سے مایوس نہیں ،وہ جانتے تھےکہ یہ قوم تقدیر بدلنے کےگُر جانتی ہے ،بس اسے
بیدار ہونے کی دیر ہے۔
اگر کسی قوم کے نوجوان نظریاتی انتشار و خلل کا شکار ہو جائیں، تو وہ قوم
کے لیے ذہنی غلامی کا دور ہوتا ہے۔آج کا نوجوان کاہل ،آرام پسند ، ذہنی و
فکری طور پر بھی نہایت پستی کا شکار ہے۔ ہمارا نوجوان مغرب کی اندھی تقلید
مین مصروف ہے۔نسل نوعلم تو ذوق و شوق سے حاصل کررہی ہے، مگر عمل سے دور ہے۔
نوجوان زمانے کے دُہرے معیار میں بٹ کر، اپنا اصل مقام کھو چکا ہے۔
ملک و ملت کو درپیش مسائل کا حل پیغام اقبال کو عام کرنے میں ہے اور اس
سلسلے میں تعلیمی اداروں، حکومت اور معاشرے کے باشعور طبقات پر یکساں ذمّہ
داری عائد ہوتی ہے۔ اقبال کے خواب کی تعمیر اور تعبیرنسل نو کو اپنے عزم و
حوصلہ سے کرنی ہے۔ یقیناً ہمارے نوجوان عزم وحوصلے سے بھرپور ہیں، لیکن
انہیں تربیت اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ تعمیر پاکستان کے لیے نوجوانوں
کو قلم اور کتاب سے رشتہ استوار کرنا ہوگا، علمی صلاحیتوں کو فروغ دیتے
ہوئے غفلت اوربےپروائی کے رویے کو ترک کرنا ہوگا۔آج کا نوجوان فکر اقبال
اور اقبال کے پیغام سے ناواقف ہے۔نوجوانوں کی اکثریت کو توعلامہ اقبال کی
پیدائش اور وفات کی تاریخیں بھی نہیں یاد رہتیں۔جانتے ہیں اقبال نے نسل نو
کو شاہین سے تشبیہہ کیوں دی، کیوں کہ شاہین کی نگاہیں اس وقت تک اس کے شکار
پر رہتی ہیں جب تک وہ اُس کو پا نہیں لیتا،اس کے عزائم بہت بلند ہوتے ہیں۔
یہی عزائم وہ نوجوانوں میں دیکھنا چاہتے تھے،مگر افسوس کہ نسل نو نے کبھی
علامہ کی شاعری کو ،اس میں پوشیدہ پیغام کو اور ان کی تعلیمات کو سمجھنے کی
کوشش کی اور نہ کبھی یہ جاننے کی سعی کی کہ وہ ان سے کتنی امیدیں رکھتے
تھے۔ہم بہ حیثیت قوم اتنے خوش نصیب ہیں کہ ہمارے پاس نوجوانوں کی صورت میں
قیمتی اثاثہ و طاقت ہے، مگر افسوس کہ نسل نواس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
اقبال کا مثالی نوجوان خوددار، تعلیم یافتہ، یقین محکم اور عمل پیہم کی
خوبیوں کا حامل ہے۔آج ملک و قوم کو جو مسائل اور چیلنجز درپیش ہیں ،ان سے
عہدہ برآ ہونے کے لیے نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں سے کام لینا ہوگا۔
علامہ اقبال کا کلام ہمیشہ نوجوانوں کے لیے مشعل راہ بنا رہے گا۔ کلام
اقبال دُنیا کے ہر حصے میں پڑھا جاتا ہے، ان کے افکار کی کرنیں آج بھی
نوجوان نسل کے لیے مشعل راہ ہیں۔ نوجوانوں کے لیے یہ سیکھنا ضروری ہے کہ
اُصولوں پر استقلال سے چلتے رہنا کام یابی کا لازمی جزوہے۔
ہمیں مشکلات کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہونا ہے، خیالوں میں بلندی
پیدا کرنی ہے اور اڑان بھی اونچی رکھنی ہے، خود اعتمادی کو اپنا ہتھیار
بنانا ہے اور ستاروں پر کمندیں ڈال کر ستاروں سے بھی آگے جہانوں کی جستجو
کرنی ہے کیونکہ:تن آسانی کو ترک کرکے محنت اور جفاکشی کی ایسی روش اپنانی
ہے جس کی بار بار اقبال نے تلقین کی۔ یہی اقبال کا پیغام ہے اور اقبال کی
آرزو بھی۔ شاعرمشرق کا پیغام کسی ناصح کا پیغام نہیں جس کی صدا محض زباں
سے نکل کر ہوا کی سطح میں تموج تو پیدا کرے مگر د لوں میں طوفان برپا نہ
کرسکے۔ کان اسے سنیں مگر دل اس کے آگے سر بہ سجدہ نہ ہوں۔
|