عام طور پر دنیا بھر کے بچے تعلیم کے حصول کے لیے اسکول
یا مدارس میں جاتے ہیں جہاں پر وہ اپنے دن کے چھ سے سات گھنٹے گزارتے ہیں
اور اس دوران اگرچہ انہیں بیچ میں آدھے گھنٹے کا لنچ بریک ملتا بھی ہے تو
وہ زیادہ تر بچے یا تو کچھ کھانے میں گزار دیتے ہیں یا پھر کھیلنے میں گزار
دیتے ہیں جس کے سبب وہ پانی نہیں پیتے-
|
|
اس کے علاوہ کچھ بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہ اس خیال سے پانی نہیں پیتے کہ
اب پانی پینے کے بعد واش روم جانا پڑے گا اس وجہ سے بچے پانی نہیں پیتے ہیں
۔ روزانہ کی بنیاد پر کم پانی پینے کی وجہ سے بچوں کے جسم میں پانی کی شدید
کمی واقع ہو جاتی ہے جس کا براہ راست اثر ان کے گردوں اور جسم کی نمو اور
دماغ کی نشو نما پر پڑتا ہے-
جسم کے اندر پانی کی ضرورت ہر وقت رہتی ہے اور ہمارا جسم سوتی جاگتی اٹھتی
بیٹھتی ہر حالت میں پانی استعمال کر رہا ہوتا ہے جس کے سبب پانی کی کمی
واقع ہو سکتی ہے اور اس پانی کی کمی کے سبب نہ صرف گردوں میں انفیکشن ہو
سکتا ہے اس کے ساتھ ساتھ ذہنی صلاحیتیں بھی متاثر ہوتی ہیں-
|
|
اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کے اندر بڑھتے ہوئے گردوں کے امراض اور پانی کی
کمی کو دیکھتے ہوئے ہندوستان کی اسٹیٹ کیرالہ کے ایجوکیشن منسٹرسریش کمار
نے ایک پریس کانفرنس میں کیرالہ کے تمام اسکولوں کو اس بات کا پابند کیا کہ
ہر اسکول دن میں تین بار واٹر بیل بجائے گا-
اس طرح دن میں تین بار واٹر بیل بجا کر بچوں کو پندرہ منٹ کا پانی پینے کا
بریک دیا جائے گا جس میں اساتذہ کی موجودگی میں اس بات کو یقینی بنایا جائے
گا کہ سب بچے اس دوران پانی پئيں تاکہ ان میں سے پانی کی کمی کا خاتمہ ہو
سکے-
کیرالہ کے وزیر تعلیم کی جانب سے اٹھایا جانے والا قدم ایشیا کے گرم علاقوں
کے رہائشیوں کے لیے ایک قابل تقلید مثال ہے اور ہمارے پاکستان میں بھی اس
کا نفاذ ہونا چاہیے-
|
|
اس طرح کی سرگرمی کے سبب ایک جانب تو بچوں کے جسم سے پانی کی کمی کا خاتمہ
ہو سکے گا اور دوسری جانب پانی کی کمی کے سبب ہونے والے گردوں کے بچوں میں
بڑھتے امراض پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے-
|