محمد حامد سراج :تھا لطفِ زِیست جن سے وہ اب نہیں میسر

 ڈاکٹر غلام شبیر ر انا
جا ن کر منجملہ خاصانِ مے خانہ مجھے
مدتو ں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
لاہور سے شائع ہونے والے اخبارات( اشاعت:۱۴ نومبر ۲۰۱۹) کی الم ناک خبر سے معلوم ہوا کہ اردو کے ممتاز افسانہ نگار محمد حامد سراج اب ہمارے درمیان موجود نہیں ۔ معروف ادبی شخصیت اور ممتاز افسانہ نگار محمد حامد سراج بُدھ، ۱۳ ۔ نومبر ۲۰۱۹ ء کی شام اس عالمِ آ ب و گِل سے عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب کُوچ کر گئے ۔اِنّا ﷲ و اِنّا الیہ راجعون ۔ محمد حامد سراج گزشتہ کچھ عرصے سے کینسر میں مبتلا تھے۔ ان کے پس ماندگان میں ایک بیوہ ،دو بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ وہ شاہین صفت افسانہ نگار دائمی مفارقت دے گیا جو معاشرتی زندگی کے بدلتے ہوئے موسموں کے سب رنگوں کا شناسا تھا۔وہ شعاعِ مہر جس کی تابانیاں نگاہوں کو خیرہ کر دیتی تھیں اجل کے بے رحم ہاتھوں نے اسے گہنا دیا۔ تقدیر کا یہ ستم دیکھ کر دِل بیٹھ گیا کہ جبر کی شبِ تاریک میں اپنی روح پرور ،فکر انگیز اور حیات آفریں تحریروں سے جلوۂ سحر دکھانے والا رجائیت پسندتخلیق کار دیکھتے ہی دیکھتے بزمِ اَدب سے اُٹھ گیا اور دنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی ۔آلامِ روزگار اورآفاتِ نا گہانی کومسرت و شادمانی کے قریب تر دیکھنے کے بعدجب ہجوم یاس میں سینہ و دِل حسرتوں سے چھاگیا تو مضطرب ہونے کے بجائے دلِ حزیں کو سنبھالے ، صبرکا دامن تھام کرتسلیم و رضا کاپیکر بننے والا قانع و شاکر درویش اب ماضی کاحصہ بن گیا ہے ۔ایسامجسم ایثار و وفا جس نے خلوص و دردمندی کی وہ مشعل فروزاں کی جس کے اعجاز سے حرص و ہوس کی جان لیوا ظلمتیں کافور ہو ئیں اب کبھی پیدانہ ہو گا۔وہ رشکِ گلستان ستارہ شناس اب کہاں مِلے گاجس نے اپنے خون ِجگر سے کِشت علم و ادب کو سینچا تا کہ آنے والی نسلیں فروغ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم دیکھ سکیں ۔ حریتِ فکر و عمل کاوہ قلم بہ کف مجاہدجس نے حریتِ ضمیر سے جینے کے لیے سدااسوۂ شبیر کو زادِ راہ بنایا خاک میں پنہاں ہو گیا۔ تیشۂ حرف سے فصیل جبر کو منہدم کرنے والا جری تخلیق کار اپنے لاکھوں مداحوں کو سوگوار چھوڑ کر ملک عدم کو سدھار گیا۔ ادیان ِ عالم، تخلیق ِ ادب ،تاریخ و فلسفہ ،تنقید و تحقیق اور علوم و فنون کا وہ دائرۃ المعارف جس نے پیہم چار عشروں تک اذہان کی تطہیر وتنویر کا اہتمام کیا ردائے خاک اوڑھ کر ابدی نیندسوگیا ۔شرافت ،وضع داری اور انسانی ہمدردی کا ایسا بحرِ بے کراں جو کبھی آ پے سے باہر نہ ہواوہ ہماری بزمِ وفا سے یوں باہر نکلا کہ اس کی واپسی قیامت تک ممکن نہیں۔وہ خوشبو جو قلوب اور اذہان کو معطر کر دیتی تھی صرصرِ اجل نے اُسے پیوندِ خا ک کر دیا۔ پتھروں اور چٹانوں کو ریزہ ریزہ کرنے کی صلاحیت سے متمتع خوش رنگ پُھول تہہ ِ ظلمات چلاگیا۔وہ فقیر جو حلقۂ یاراں میں ریشم کے مانند نرم تھامگر رزمِ حق و باطل میں فولاد بن کر حریت ضمیر کے وار سے جبر کی شمشیرکوکِرچی کِرچی کرکے یدِ بیضاکامعجزہ دکھاتا تھااب جا چکاہے۔انسانیت کے وقار اور سر بلندی کا ایک عظیم الشان مینار ،فقر و استغنااور معرفت کے ہمالہ کی ایک سربہ فلک چوٹی اجل کے بے رحم ہاتھوں سے زمیں بوس ہو گئی۔ ہوائے دشتِ ہوس کے مسموم بگولوں کے سامنے سینہ سپر ہوکرشہر علم و ادب کے مکینوں کو راحت و مسرت کی نویدسنانے والے ادیب کو دیکھنے کے لیے آ نکھیں ترستی رہیں گی۔وفا،ایثار ،خلوص ،دردمندی ،بے لوث محبت اور بے باک صداقت کے چراغوں کو استحصال ،استبداد اور جورو ستم کے مسموم گرد بادسے بچانے کے لیے ہوا کا رُخ بدلنے والا مردِ قلندر مُلکوں مُلکوں ڈھونڈنے سے نہ مِلے گا۔آج سمے کے سم کاثمر جان لیوا تنہائیوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہے ۔
محمد حامد سراج نے اکیس اکتوبر ۱۹۵۸ کو صاحب زادہ محمد عارف کے مذہبی گھرانے میں جنم لیا۔ان کے دا د ا حضرت مولانا احمد خان کا شمار اپنے عہد کے ممتازعلما اور اولیا میں ہوتا تھا۔ وطن عزیز کے طول و عرض میں حضرت مولانا احمد خان کے ہزاروں عقیدت مند موجود ہیں ۔ محمد حامد سراج کے آ بائی گاؤں خانقاہ سراجیہ میں حضرت مولانا احمد خان کا مزار آج بھی مرجع خلائق ہے ۔میاں والی ( پنجاب ،پاکستان ) سے بیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گاؤ ں خانقاہ سراجیہ کا یہ گوشہ نشین ادیب زندگی بھر ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورشِ لوح و قلم میں مصروف رہا ۔ دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اُن کی ، تمام مرحومین کی اور ہم سب کی مغفرت فرمائے ، آمین۔ جمعرات، ۱۴ ۔نومبر ۲۰۱۹ کو اردو افسانے کے اس آ سمان کو خانقاہ سراجیہ کی زمین نے ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چھپا لیا ۔عالمی شہرت یافتہ افسانہ نگار محمد حامد سراج کی وفات کی خبر سُن کر جھنگ میں مقیم عالمی کلاسیک کے نقاد اور محقق پروفیسر غلام قاسم خان سکتے کے عالم میں دیوار سے ٹیک لگائے ایسے کھڑے تھے جیسے دیوار کے ساتھ کوئی تصویر لگاکر چپکے سے رخصت ہو گیا ہے ۔ ْ امریکہ میں مقیم اردو کے مقبول شاعر تنویر پھول ؔ نے محمد حامد سراج کی تاریخ وفات پر یہ قطعات لکھے :
قطعہ ٔ تاریخ عیسوی
نام حامد سراج تھا جن کا ، بجھ گیا اُن کا ہے چراغ ِ حیات
زلف ِ اُردو سنوارتے تھے وہ ، ہاتھ میں نثر کا رہا شانہ
فکر ِ تاریخ پھولؔ نے جب کی ، آئی باغ ِ سخن میں یہ آواز
’’ جو تھے حامد سراج فخر ِ ادب ، اُن کو کہئے امام ِ افسانہ ‘‘ ( ۲۰۱۹ عیسوی )

قطعہ ٔ تاریخ ہجری
وہ تھا حامد سراج ، اعلیٰ ادیب ٭ آسمان ِ ادب کا روشن مہ
اُس کی تحریریں بولتی تھیں پھولؔ ! ٭ ’’ گل ہُوا ہے چراغ ِ ناطق‘‘ کہہ ( ۱۴۴۱ ہجری )


کورانہ تقلید سے سخت نفرت کرنے والے اس ادیب نے سدا اپنی ملی، تہذیبی ،ثقافتی ،تاریخی اورقومی روایات کی پاسداری کو اپنا نصب العین بنایا۔ محمد حامد سراج کی تخلیقی فعالیت سے روایات کے گلشن میں افکارِ تازہ کے گُل ہائے رنگ رنگ کِھل اُٹھے ۔روحانیت اور معرفت کی محافل میں ان کی بصیرت افروزگفتگو سُن کرسامعین پروجدانی کیفیت طاری ہو جاتی اور فکر و خیال کے نئے دریچے وا ہونے لگتے۔ کینہ پرور اعدا کو قریب سے دیکھنے اور موقع پرست احباب کے فریب کھانے والے ستم رسیدہ لوگوں کومحمد حامد سراج کی یہ نصیحت ہمیشہ یاد رہے گی کہ جو لوگ منافقت اور عادی دروغ گو درندوں کے مکر کی چالوں کوپہچان لیتے ہیں وہ کسی مارِ آ ستین کے فریب کی مار نہیں کھا سکتے ۔سائے اُس وقت حوصلہ شکن سراب کی صورت اختیار کر لیتے ہیں جب یہ کاروان ِہستی کے آبلہ پا مسافروں کوچھاؤں میں بیٹھ کر سستانے پر مائل کرتے ہیں ۔

-----------------------------------------------------------------------------
تصانیف :
۱۔ہمارے بابا جی حضرت مولانا خواجہ خان محمد ،۲۔آشوبِ نگاہ،۳۔بخیہ گری ،۴۔برائے فروخت ،۵۔چوب دار ،۶۔میّا( اس کتاب کا ہندی زبان میں بھی ترجمہ ہو چکاہے )،۷۔وقت کی فصیل،۸۔مجموعہ محمد حامدسراج ،۹۔عالمی سب رنگ افسانے ( تراجم) ،۱۰۔نقش گر ۔
ترجمہ نگاری میں محمد حامد سراج نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے ۔دو تحریر ی زبانوں میں ترجمے کا عمل سنجیدہ فعالیت ،گہری معنویت اور لسانی اہمیت کاحامل سمجھا جاتا ہے۔اپنی نوعیت کے اعتبار سے ترجمہ ایک ماخذی زبان کے تحریری متن کو دوسری ترجمہ قبول کرنے والی زبان کے تحریری متن میں تبدیل کرنے کی کاوش ہے ۔جہاں تک ماخذی زبان سے ترجمہ قبول کرنے والی زبان کواسالیب اور مفاہیم کی ترسیل کا تعلق ہے تو یہ بات واضح ہے کہ ترجمہ اپنے مآخذ کے قریب تر تو ہو سکتا ہے لیکن اس کی اپنے مآخذ کے ساتھ من و عن مطابقت بعید ازقیاس ہے ۔ تاریخ کے ہر دور میں برصغیر کی مقامی زبانوں میں ادیبوں کی تخلیقی فعالیت نے خُوب رنگ جمایا ہے ۔اس خطے کے فن کاروں نے ستاروں پہ کمندڈالنے ، خون بن کر رگِ سنگ میں اُترنے اور قلب و رو ح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر کر اپنی اثر آفرینی کالوہا منوانے والی تخلیقات پیش کر کے لوح ِجہاں پر اپنا دوام ثبت کردیا۔ابد آشنا تاثیر کی حامل اِن طبع زاد تخلیقات نے سنگلاخ چٹانوں ،جامد و ساکت پتھروں،بے حِس پہاڑوں اور چلتے پھرتے ہوئے مُردوں اور مجسموں کو بھی موم کر دیا اور اپنی مسحور کُن تخلیقی فعالیت سے جہانِ تازہ کی نوید سنائی۔اس کے باوجوداس مردم خیز دھرتی کے زیرک تخلیق کار عالمی کلاسیک سے بے نیاز نہ رہ سکے اوراخذ ،استفادے اور تراجم کا ایک لائق صد رشک و تحسین سلسلہ ہر دور میں جاری رہا ۔تراجم کو تخلیقی آہنگ سے مزین کرنے میں ان مترجمین کے کمالِ فن کا عدم اعتراف نہ صرف تاریخِ ادب کے حقائق کی تمسیخ اورصداقتوں کی تکذیب ہو گی بل کہ یہ ایک ایسی غلطی ہو گی کہ جسے نا شکری اور احسان فراموشی پر محمو ل کیا جائے گا۔ عالمی کساد بازاری اور قحط الرجال کے مسموم ماحول میں چربہ ساز ،سارق،کفن دُزد اور حیلہ جُوعناصر نے اپنے مکر کی چالوں سے گلشنِ ادب کی حسین رُتوں کو بے ثمر کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ عالمی ادب کے منتخب افسانوں کے تراجم پر مشتمل اپنی کتاب ’’ عالمی سب رنگ افسانے ‘‘ میں محمدحامدسراج نے آئر لینڈ،اٹلی ،افغانستان، ایران،امریکا،برازیل ،بنگلہ دیش،ترکی،جرمنی ،چلّی ،چیکوسلواکیا،چین،روس،رومانیہ ،سر بیا،شام،فرانس ،مراکش ،مصر ،ناروے ،ویت نام ،ہنگری اور ہندوستان کے ممتاز افسانہ نگاروں کے لکھے ہوئے افسانوں کو نہایت خوش اسلوبی سے اُردو زبان کے قالب میں ڈھالا ہے ۔
بیسویں صدی کے وسط میں عالمی ادبیات میں فکشن میں جس رجحان کو پذیرائی ملی اُسے طلسماتی حقیقت نگاری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کو لمبیا سے تعلق رکھنے والے مشہور افسانہ نگار اور ناول نگار گبریل گارسیا مارکیز ( Gabriel García Márquez : 1927-2014 )کے اسلوب میں طلسماتی حقیقت نگاری کی کیفیت محمد حامدسراج کو بہت پسند تھی ۔طلسماتی حقیقت نگاری کو اپنے اسلوب کی اساس بنا کر جب ایک تخلیق کار مائل بہ تخلیق ہوتا ہے تو وہ منطق و توجیہہ سے قطع نظر فکشن میں کردار نگاری کو ایسی منفرد بیانیہ جہت عطا کرتا ہے جو قاری کو مسحور کر دیتی ہے۔اسلوب کی غیر معمولی دل کشی،حقیقی تناظر، موہوم تصورات،مافوق الفطرت عناصر کی حیران کُن کرشمہ سازیاں اور اسلوب کی بے ساختگی قاری کو ورطہ ٔ حیرت میں ڈال دیتی ہے اور دل سے نکلنے والی بات جب سیدھی دل میں اُتر جاتی ہے تو قاری اش اش کر اُٹھتا ہے ۔گیبریل گارسیا مارکیزنے اپنے متنوع تخلیقی تجربات کے اعجاز سے عالمی ادبیات میں تخلیقِ ادب کو متعدد نئی جہات سے آشنا کیا۔اُس کے نئے ،منفرد اور فکرپرور تجربات گلشنِ ادب میں تازہ ہوا کے جھونکے کے مانند تھے۔ان تجربات کے معجز نما اثر سے جمود کا خاتمہ ہوا اور تخلیقی فعالیت کو بے کراں وسعت اور ہمہ گیری نصیب ہوئی۔اُس نے حقیقت نگاری کے مروجہ روایتی اندازِ فکر کے بجائے طلسمی حقیقت نگاری کے مظہر ایک نئے جہان کی تخلیق پرتوجہ مرکوز رکھی۔اپنے تراجم میں اگر چہ محمد حامد سراج نے عالمی ادب سے مشہور افسانوں کا انتخاب کیا ہے مگر اپنے تخلیقی کام میں انھوں نے اپنے منفرداسلوب سے کشش پیدا کی ہے ۔
محمد حامد سراج چشمہ نیوکلئیر پاور پلانٹ میں انجینئیر کی حیثیت سے خدمات پر ماموررہے ۔مدت ملازمت کی تکمیل کے بعد وہ ایک سال قبل ریٹائر ہوئے تھے ۔محمد حامد سراج کے آبا و اجداد صدیوں سے دریائے سندھ کے کنارے واقع ایک چھوٹے سے گاؤں’ مفلاح ‘کے مکین تھے ۔ دریا سد ااپنی موجوں کی طغیانیوں سے کا م رکھتے ہیں سال ۱۹۲۰میں دریائے سندھ کی مہیب لہروں کے کٹاؤنے اس چھوٹے سے گاؤں کودریا کے کنارے پر بِکھری ریت پر لکھی وقت کی تحریر کے مانندہمیشہ کے لیے صفحہ ٔ ہستی سے مٹا دیا۔محمد حامد سراج کا آبائی گاؤں دریا برد ہو گیا اور اس سے وابستہ یادوں کا خزینہ بھی رفتہ رفتہ وقت بر دہو گیا۔ اب اس قدیم گاؤں کے بارے میں کم کم لوگوں کو معلوم ہے ۔محمد حامد سراج کے جد امجداور ممتاز عالمِ دین سعد احمد خان نے ’’ خانقاہ سراجیہ ‘‘ میں ایک نئی بستی بسالی ۔ اقلیم معرفت سے گہرا تعلق رکھنے والے اس عظیم خاندان کے کشف و کرامات کے اعجاز سے علاقے کے لوگوں کی قسمت بدل گئی ۔ محمد حامد سراج کو روحانیت ،قناعت ،صبر و رضا ،توکل اور زہد و ریاضت کی متاعِ بے بہا ورثے میں ملی تھی ۔ ان کی مستحکم شخصیت اور سیرت و کردار کی تعمیر و تشکیل میں ان کے خاندانی ماحول کا گہرا عمل دخل رہا ۔ محمد حامد سراج کا بچپن ننھیال میں گزرا اُن کے نانا نے ان کی تعلیم و تربیت پر توجہ مرکوز کر دی ۔اپنے نانا اور نانی کے فیضانِ نظر سے انھوں نے بہت کچھ سیکھا ۔اپنے خاندان کے دوسرے بزرگوں سے بھی انھوں نے اکتساب ِ فیض کیا جن کی معجز نما تربیت نے ان کی خدادا صلاحیتوں کو صیقل کیا ۔ توحید ر وسالت سے روحانی اور قلبی وابستگی محمد حامد سراجکے ریشے ریشے میں سماگئی تھی ۔ علم و ادب سے لگاؤ ان کی گُھٹی میں پڑا تھااس لیے زمانہ طالب علمی ہی سے وہ شعر کہنے کی سعی کرتے رہے ۔ وہ اپنی تخلیقات یاداشتوں کی صورت میں ایک کاپی میں محفوظ کر لیتے تھے مگر وہ کاپی غائب کر دی گئی ۔ اعلا تعلیم کے لیے جب وہ میاں والی شہر پہنچے تو یہاں ریلوے بل سٹال پر موجود بچوں کے ادبی مجلات میں انھوں نے گہر ی دلچسپی لی ۔ اس عرصے میں انھوں نے بچوں کے جن رسائل کاباقاعدگی سے مطالعہ کیا اُن میں غنچہ ، کھلونا، تعلیم و تربیت ، ساتھی ،پھول اورکلیاں اورنونہال شامل ہیں ۔ وہ میرزا ادیب ،صوفی غلام مصطفی تبسم،پیر زادہ عاشق کیرانوی ،اسماعیل میرٹھی ،شفیع عقیل ،شان الحق حقی اور مسعود احمد برکاتی کے اسلوب کو بہت پسند کرتے تھے ۔جس وقت وہ چھٹی جماعت میں پڑھتے تھے ان کے اساتذہ ان کے ادبی ذوق کو اس لیے لائق تحسین قرار دیتے تھے کہ انھوں نے نسیم حجازی ( شریف حسین :1914-1996)کے سب ناول ( آخری چٹان ، آخری معرکہ ،انسان اور دیوتا، اور تلوار ٹُوٹ گئی ، اندھیری رات کے مسافر ،محمد بن قاسم ،قیصر وکسریٰ ،خاک اور خون، شاہین، یوسف بن تاشفین،معظم علی ،سو سال بعد ،پورس کے ہاتھی ،پردیسی درخت ،داستانِ مجاہد،قافلۂ حجاز ،کلیسااور آگ،گم شدہ قافلے ،سفید جزیرہ ،ثقافت کی تلاش )پڑھ لیے تھے ۔ محمد حامد سراج کا پہلا افسانہ ’’ فوٹو سے شادی ‘‘ رسالہ ’’ شمع ‘‘ میں شائع ہوا۔ عالمی شہرت کے حامل ترقی پسند ادیب احمدندیم قاسمی کو جب محمد حامد سراج کی افسانہ نگاری کے بارے میں علم ہوا تو انھوں نے محمد حامد سراج کے اسلوب کو سراہتے ہوئے ادبی مجلہ فنون کے لیے بھی لکھنے کا مشورہ دیا۔ ا س طرح محمد حامد سراج کاوطن عزیز کے بڑے ادیبوں سے رابطہ ہو گیا۔اسی زمانے میں اردو زبان کے مقبول ناول نگار ،افسانہ نگار اور شاعر محمد مظہر الاسلام سے ان کی ملاقات ہوئی ۔تخلیق ِ ادب میں نئے تجربے کرنے والے اس ادیب نے اردو افسانے کوتجریدیت سے آ شنا کرنے کی جو سعی کی محمد حامد سراج اس سے بہت متاثر ہوئے ۔ان کے ابتدائی دور کے افسانوں پر محمد مظہر الاسلام کے اسلوب کی چھاپ محسوس ہوتی ہے ۔جلدہی انھوں نے اپنی انفرادیت کاثبوت دیتے ہوئے اپنے لیے اظہار و ابلاغ کے نئے انداز منتخب کر لیے ۔وہ سمجھتے تھے کہ تقلید کی روش ایک زیرک اور فعال تخلیق کار کے لیے خود کشی کے مترادف ہے ۔اپنی جنم بھومی سے محبت ،ارضی و ثقافتی حوالے اور تہذیبی و معاشرتی اقدار و روایات سے انھیں بہت محبت تھی ۔یہی وجہ ہے کہ اُن کے اسلوب میں کسی مغربی تھیوری کا کہیں اثر دکھائی نہیں دیتا۔ اﷲ کریم نے انھیں باغ و بہار شخصیت سے متمتع کیا تھااُن سے مِل کر زندگی سے پیار ہو جاتا تھا ۔ ان کی شخصیت کے متعدد پہلوتھے وہ بہ یک وقت عالمِ دین ،مبلغ،مفسر،مصلح ،پیر و مرشد،ناصح ،نقاد ،محقق ،خادمِ خلق اور ادیب تھے ۔ محمد حامد سراج کی گل افشانیٔ گفتار کاایک عالم معترف تھا۔
نوآبادیاتی دور میں بر صغیر کے ممتاز مذہبی دانش ور محمد اشرف علی تھانوی (۱۸۶۳۔۱۹۴۳) کی علمی اور فقہی خدمات کومحمد حامد سراج قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ محمد اشرف علی تھانوی کی تصانیف جامع القرآن ،بیان القرآن ،احکام القرآن ، احادیث خیر الانام ،قصص الاولیا ، اصلاحِ انقلا ب ِ اُمت ،اصلاحی نصاب اورشریعت وتصوف کو وہ بہت مفید سمجھتے تھے۔
زمانہ طالب علمی میں محمد حامد سراج مجلہ ’’ نقوش‘‘ کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتے تھے ۔ محمد حامدسراج کے ایک قریبی دوست حاجی محمد ریاض نے ایامِ گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے محمد حامدسراج سے ہو نے والی ایک ملاقات کے حوالے سے بتایا کہ رجحان ساز ادبی مجلے نقوش کا پہلا شمارہ مارچ ۱۹۴۸میں احمد ندیم قاسمی اور ہاجرہ مسرور کی ادارت میں لاہور سے منظر عام پر آ یا ۔ ادبی مجلہ نقوش کاپہلا شمارہ چوراسی( ۸۴) صفحات پر مشتمل تھا۔ محمد طفیل (۱۹۲۳۔۱۹۸۶) کی رہنمائی میں اشاعت کا آغاز کرنے والا مجلہ ’’ نقوش‘‘ اپنے عہد کا مقبول اور معیاری ادبی مجلہ تھا۔مجلہ نقوش میں تخلیقات کی اشاعت سے کسی بھی تخلیق کار کو درجۂ استناد حاصل ہوجاتاتھا۔محمد طفیل نے مجلہ نقوش کے ذریعے علم و ادب کے فروغ کے لیے اپنی زندگی وقف کر ر کھی تھی۔محمد طفیل اور مجلہ نقوش کی علمی و ادبی خدمات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بابائے اردو مولوی عبدالحق نے سب سے پہلے اپنے ایک مکتوب میں محمد طفیل کو ’’ محمد نقوش ‘‘ کہہ کر مخاطب کیا۔ادبی مجلہ نقوش میں شائع ہونے والے افسانوں کے مطالعہ سے محمد حامد سراج افسانہ نگاری کی طرف مائل ہوئے ۔ ادبی مجلے نقوش کے تیسرے شمارے میں سعادت حسن منٹو کاافسانہ ’’ کھو ل دو ‘‘ شائع ہوا جس کے نتیجے میں اس مجلے کو حکومت کی طرف سے عائد کی گئی جبری بندش کا سامنا کرنا پڑا۔مئی ۱۹۵۰میں ادبی مجلہ نقوش سید وقار عظیم کی ادارت میں شائع ہونے لگا۔اپریل ۱۹۵۱سے محمد طفیل نے نقوش کی ادارت کی ذمہ داریاں خو د سنبھال لیں ۔ احمدتنویر ،معین تابش ،احمدبخش ناصر، دانیال طریر ،رفعت سلطان،امیر اختر بھٹی ،گدا حسین افضل ،شفیع ہمدم ،شفیع بلوچ ،سجاد حسین اور خیرالدین انصاری ادبی مجلہ نقوش کے مداح تھے ۔یہ سب ادیب محمد حامد سراج کے حلقۂ احباب میں شامل تھے ۔
اپنی والدہ مرحومہ کی یاد میں لکھی جانے والی محمد حامد سراج کی کتاب ’’ میا‘‘ روح اور قلب کی گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آ فرینی سے لبریز ہے ۔ماں کی دائمی مفارقت پر علامہ اقبال کی نظم ’’ والدہ مرحومہ کی یاد میں ‘‘ زندگی اور موت کے موضوع پرگہری معنویت کی حامل ہے ۔اسی موضوع پر قدرت اﷲ شہاب (۱۹۱۷۔۱۹۸۶) اور منشایاد( ۱۹۳۷۔۲۰۱۱)نے بھی اپنے جذبات حزیں کا اظہار کیاہے ۔محمد حامد سراج کی کتاب ’’ میا ‘‘ کوقارئین ِ ادب کی طرف سے جو پزیرائی ملی ہے وہ اپنی مثال آ پ ہے ۔ ’’ میا ‘‘کی مقبولیت کا اس کااندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ اب تک اس کے چھے ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں ۔ سال ۱۹۹۱ میں والد کے انتقال اس کے بعد کینسر کے باعث دادی اور والدہ کی رحلت کے صدموں نے مصنف کی داخلی زندگی پر جواثرات مرتب کیے وہ ا س کتاب میں سمٹ آ ئے ہیں ۔ ماں کی وفات کے صدمے سے محمد حامد سراج کی یادداشت متاثر ہوئی ۔کئی حقائق خیال و خواب ہو گئے،آرزوئیں ما ت کھا کر رہ گئیں اور منزلیں سرابوں میں بدل گئیں ۔عزیزوں کی دائمی مفارقت کیا ہے یہ تو ایک ماندگی کا وقفہ ہے اس کے بارے میں یہی کہا جا سکتاہے ۔
جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصر ؔ
وہ لوگ آ نکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں
جن عنبر فشاں پھولوں کی مہک نہاں خانۂ دِل کو معطر کرنے کا وسیلہ ہوتی ہے جب گُل چینِ اَزل انھیں توڑ لیتا ہے تو دِلوں کی بستی سُونی سُونی دکھائی دیتی ہے اور گرد ونواح کا پُورا ماحول سائیں سائیں کرتا محسوس ہوتا ہے ۔ حیا ت ِ مستعار کی کم مائیگی ، مر گِ نا گہانی کے جان لیوا صدموں ، فرصت ِ زیست کے اندیشوں،سلسلہ ٔ روزو شب کے وسوسوں ،کارِ جہاں کی بے ثباتی اور سیلِ زماں کے تھپیڑوں کے لرزہ خیز اور اعصاب شکن خوف کے سوتے کارِ جہاں میں زندگی کی کم مائیگی ہی سے پُھوٹتے ہیں۔ کسی انتہائی قریبی عزیز ہستی کا زینۂ ہستی سے اُتر کر شہرِخموشاں میں تہہِ ظلمات پہنچ جانا تقدیر کی شمشیر ِ سِتم سہنے والے جگر فگارپس ماندگان کے لیے بلا شبہ ایک بہت بڑ ا سانحہ ہے مگراس سے بھی بڑھ کر روح فرسا صدمہ یہ ہے کہ ہمارے دِل کی انجمن کو تابانی ، ذہن کو سکون و راحت ،روح کو شادمانی ،فکر و خیال کو ندرت ،تنوع ،تازگی اور نیرنگی عطا کرنے والے یہ گل ہائے صد رنگ جب ہماری بزم ِ وفا سے اُٹھ کر ہمیں دائمی مفارقت دے جاتے ہیں تو یہ جانکاہ صدمہ دیکھنے کے بعد ہم زندہ کیسے رہ جاتے ہیں؟عدم کے کُوچ کے لیے رخت ِ سفر باندھنے والوں کی دائمی مفارقت کے بعد درماندہ لواحقین پر زندگی کی جو تہمت لگتی ہے وہ خفتگانِ خاک پر دِل نذر کر نے اور جان وارنے والوں کو بے بسی اور حسرت ویاس کا پیکر بنا دیتی ہے ۔ لو گ کہتے ہیں کہ جب دریاؤ ں میں آنے والے سیلاب کی طغیانیوں سے قیمتی املاک اورمکانات دریا بُرد ہو جاتے ہیں تو اس آفتِ ناگہانی کی زد میں آنے والے مجبور و بے بس انسان تنہائی اور بے چارگی کے پاٹوں میں پِس جاتے ہیں مگر اس بات کا کوئی ذکر نہیں کرتا کہ خلوص ،دردمندی ،وفا ،ایثار، رگِ جاں اور خونِ دِل سے نمو پانے والے رشتے جب وقت بُرد ہوتے ہیں تو حسرت و یاس کے پیکرپس ماندگان زندہ در گور ہو جاتے ہیں ۔ جا ن سے پیاری ہستیوں کے جہاں سے اُٹھ جانے کے بعد سراسیمہ پس ماندگان کا دِل بیٹھ جاتاہے اور ان کاجی چاہتاہے کہ اب جینے سے ہاتھ اُٹھایا جائے۔
کتاب ’’ میا‘‘ کے مطالعہ کے بعدیہ خیال ذہن میں پیداہوتاہے کہ موت یاس و ہراس کے سو اکچھ نہیں جو محض ایک آغاز کے انجام کا اعلان ہے کہ اب حشر تک کا دائمی سکوت ہی ہمارے خالق کا فرمان ہے ۔ عزیزہستیوں کی رحلت سے ان کے اجسام آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اور نہاں خانہ ٔدِل کواپنی عنبر فشانی سے معطر کرنے والے یہ گُل شہر ِخموشاں میں تہہ خاک نہاں ہو جاتے ہیں ۔ ان کی روح عالم بالا میں پہنچ جا تی ہے اس کے بعد فضاؤ ں میں ہر سُو ان کی یادیں بکھر جاتی ہیں اور قلوب میں اُن کی محبت مستقل طور پر قیام پذیر ہو جاتی ہے۔ ذہن و ذکاوت میں ان کی سوچیں ڈیرہ ڈال دیتی ہیں۔ درد و غم سے نڈھال پس ماندگان کے لیے موت کے جان لیوا صدمات برداشت کرنا بہت کٹھن اور صبر آزما مرحلہ ہے ۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ فرشتہ ٔ اجل نے ہمارے جسم کا ایک حصہ کاٹ کر الگ کر دیا ہے اور ہم اس کے بغیرسانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پُورے کرنے پر مجبور ہیں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تقدیر کے لگائے ہوئے زخم کے اندمال کی صورت تو پید اہوجاتی ہے مگر قلبی رشتوں کا مظہرجو عضو کٹ جاتاہے اس کی کمی کا احساس تو زندگی بھر کے لیے سوہانِ روح بن جاتاہے ۔ اپنے رفتگان کا الوداعی دیدار کرتے وقت ہماری چیخ پکار اور آہ و فغاں اُن کے لیے نہیں بل کہ اپنی حسرت ناک بے بسی ، اذیت ناک محرومی اور عبر ت ناک احساس ِزیاں کے باعث ہوتی ہے ۔غم بھی ایک متلاطم بحرِ زخار کے مانند ہے جس کے مدو جزر میں الم نصیب انسانوں کی کشتی ٔجاں سدا ہچکولے کھاتی رہتی ہے ۔ غم و آلا م کے اس مہیب طوفان کی منھ زور لہریں سوگوار پس ماندگان کی راحت ومسرت کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتی ہیں۔ روح ،ذہن اورقلب کی اتھاہ گہرائیوں میں سما جانے والے غم کا یہ جوار بھاٹا حد درجہ لرزہ خیز اور اعصاب شکن ثابت ہوتا ہے ۔کبھی غم کے اس طوفان کی لہروں میں سکوت ہوتا ہے تو کبھی مصائب و آلام کی یہ بلاخیز موجیں جب حد سے گزر جاتی ہیں تو صبر و تحمل اور ہوش و خرد کو غرقاب کر دیتی ہیں۔ یاس و ہراس ،ابتلا وآزمائش اور روحانی کرب و ذہنی اذیت کے اِن تباہ کن شب و روزمیں دِ ل گرفتہ پس ماندگان کے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ ٔ کار نہیں کہ وہ باقی عمرمصائب و آلام کی آگ سے دہکتے اس متلاطم سمندر کو تیر کر عبور کرنے اور موہوم کنارہ ٔ عافیت پر پہنچنے کے لیے ہاتھ پاؤ ں مارتے رہیں ۔ ہمارے عزیز رفتگاں ہماری بے قراری ، بے چینی اور اضطراب کو دیکھ کر عالم خواب میں ہماری ڈھارس بندھا تے ہیں کہ اب دوبارہ ملاقات یقیناًہو گی مگر حشر تلک انتظار کرنا ہوگا۔سینۂ وقت سے پُھوٹنے والی موجِ حوادث نرم و نازک ،کومل اورعطر بیز غنچوں کو اس طرح سفاکی سے پیوندِ خاک کر دیتی ہے جس طرح پھول پر بیٹھی سہمی ہوئی نحیف و ناتواں تتلی کو گرد آلود آندھی کے تند و تیز بگولے زمین پر پٹخ دیتے ہیں ۔پیہم حادثات کے بعد فضا میں شب و روز ایسے نوحے سنائی دیتے ہیں جو سننے والوں کے قلبِ حزیں کو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیتے ہیں ۔کہکشاں پر چاند ستاروں کے ایاغ دیکھ کردائمی مفارقت دینے والوں کی یاد سُلگ اُٹھتی ہے ۔تقدیر کے ہاتھوں آرزووں کے شگفتہ سمن زار جب وقفِ خزاں ہو جاتے ہیں تو رنگ، خوشبو،رُوپ ، چھب اور حُسن و خُوبی سے وابستہ تمام حقائق پلک جھپکتے میں خیال و خواب بن جاتے ہیں۔ روح کے قرطاس پر دائمی مفارقت دینے والوں کی یادوں کے انمٹ نقوش اور گہرے ہونے لگتے ہیں ۔ان حالات میں قصرِ دِل کے شکستہ دروازے پر لگا مشیت ِ ایزدی اورصبر و رضا کا قفل بھی کُھل جاتاہے ۔سیلابِ گریہ کی تباہ کاریوں،من کے روگ،جذبات ِ حزیں کے سوگ اور خانہ بربادیوں کی کیفیات روزنِ اِدراک سے اس طرح سامنے آتی ہیں کہ دِ ل دہل جاتا ہے ۔ سیل ِ زماں کے مہیب تھپیڑے اُمیدوں کے سب تاج محل خس و خاشاک کے مانند بہالے جاتے ہیں۔ جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ان سے وابستہ یادیں اور فریادیں ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہو جاتی ہیں ۔ دائمی مفارقت دینے و الوں کی زندگی کے واقعات تاریخ کے طوماروں میں دب جاتے ہیں ۔ جب ہم راہِ عدم پر چل نکلنے والے اپنے عزیزوں کا نام لیتے ہیں تو ہماری چشم بھر آ تی ہے ۔ ہجومِ غم میں گھرے ہم اپنا دل تھام لیتے ہیں اور سوچتے ہیں اس طرح جینے کے لیے جگر کہاں سے لائیں ؟ محمدحامد سراج نے اپنے جذبات ِحزیں اس طرح پیش کیے ہیں :
گھر سُونا کر جاتی ہیں مائیں کیوں مر جاتی ہیں
سبز دعاؤں کی کونجیں کیوں ہجرت کر جاتی ہیں
’’ شجر بوڑھا بھی ہو جائے تو اُس کی چھاؤں ٹھنڈی رہتی ہے ۔بر گد جتنا قدیم ہو اس کی چھاؤں اُتنی گھنی ہوتی ہے ۔ماں چلی جائے تو سناتے بولتے ہیں ‘‘ ( میا : صفحہ ۱۳۰)
عالم اسلام کے ممتاز فلسفی اور مذہبی دانش ور ابوحامد الغزالی (۱۰۵۸۔۱۱۱۱) کی بصیرت افروز تصانیف سے محمد حامد سراج نے گہرے اثرات قبول کیے ۔ ملت اسلامیہ کی بیداری کے سلسلے میں امام غزالی کی وقیع تصانیف بالخصوص ’’اِ حیا العلوم ‘‘کو محمد حامد سراج بہت اہم سمجھتے تھے ۔اس فکر پرور اور بصیرت افروز کتاب سے متاثر ہو کر انھوں نے امام غزالی کی بیعت کر لی ۔ محمد حامد سراج کواس کاثمر یہ ملا کہ قناعت اور صبر و رضا ان کی زندگی کا امتیازی پہلو بن گیا۔ وہ باقاعدگی سے آہِ سحر گاہی میں مشغول رہتے جس سے انھیں اﷲ ہو ُ کے ذکر میں اماں مِل گئی۔جب جمعۃ المبار ک کا دن ہوتا تو محمد حامدسراج دو وقت کا کھاناخشک چپاتی اور آبِ سادہ سے تناول کرتے تھے ۔ عالمی کلاسیک بالخصوص مشرقی ادبیات کا پیہم چالیس سال تک عمیق مطالعہ کرنے کے بعد محمد حامد سراج نے تخلیق ادب اور تدوین ِ ادب پر توجہ دی۔
قحط الرجال کے موجودہ دور میں خودستائی کی روش عام ہو گئی ہے ۔ اپنے منھ میاں مٹھو بننے والے جعل ساز،چربہ ساز ،سارق اور کفن دُزد بونے تعلقات کی بیساکھیوں سے اب باون گزے بن بیٹھے ہیں ۔ وقت کے اس سانحہ کو کس نام سے تعبیر کیا جائے کہ جاہل کواس کی جہالت کا انعام دیاجاتاہے ۔ نمود و نمائش کو وتیرہ بنانے والے کاتااور لے دوڑ ا کی بھیڑ چال پر عمل کرتے ہیں ۔محمد حامد سراج کو اس بات کا قلق تھا کہ بعض نام نہاد ادیب اپنی گرہ سے زرِ کثیر خرچ کر کے دو یا تین کتابیں چھپوا لیتے ہیں اور یہ کتابیں اپنے احباب کو تحفے میں ارسال کرنے کے بعدوہ اس زعم میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ادب کا نوبل انعام اب انھیں ہی ملے گا۔ تخلیق ادب کے موضوع پر محمدحامدسراج نے لکھا ہے :
’’ دریدہ زخموں کی بخیہ گری میں عمریں بیت جاتی ہیں اور اندمال کی خواہش تخلیق گری کاجواز ہے ۔‘‘ ( بخیہ گر ی: صفحہ ۶)
قاری چشمِ تصورسے اُن تمام الم ناک واقعات اور دریدہ زخموں کی بخیہ گری کاپسِ منظر دیکھ لیتاہے جن مناظر کو محمدحامد سراج نے نیم باز آ نکھوں سے دیکھ کر ان کی لفظی مرقع نگاری کی ہے ۔ ان کے افسانوں کے موضوعات معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز کے آ ئینہ دار ہیں ۔اسی لیے انھوں نے لکھاہے :
’’ کہانی میری اور میں کہانی کا ہوں ۔‘‘ ( وقت کی فصیل : صفحہ ۴)
محمدحامد سراج کے اسلوب میں پائی جانے والی فطری بے ساختگی قاری کو جہانِ تازہ میں پہنچا دیتی ہے۔ تخلیق اور اس کے پس پردہ کار فرما لا شعوری محرکات کے بارے میں محمد حامدسراج نے لکھاہے :
’’ جس روز میں لکھنا چھوڑ دوں گا،اُس روز میں مر جاؤں گا۔‘‘ (برائے فروخت : صفحہ ۵)
’’ میں ادب میں دائیں اور بائیں بازوکی بجائے صرف اور صرف راست سمت کاقائل ہوں۔‘‘ ( چوب دار :صفحہ ۳)
ملک کے طول و عرض سے آ نے والے ملاقاتی محمد حامد سراج کی مسحور کن شخصیت اور حسنِ سلوک کے مداح تھے ۔وہ اپنے اخلا ق اور اخلاص سے ملاقاتیوں کے دلوں کو مسخر کر لیتے تھے۔احباب کی مسرت و شادمانی کی کوئی محفل ہو یادُکھ درد کا کوئی سانحہ محمد حامد سراج مقدور بھر کوشش کرتے کہ وہ اس میں شامل ہوں ۔ دُکھی انسانیت کے زخموں کے اندمال کے لیے وہ ہمیشہ مرہم بہ دست پہنچتے تھے ۔۱۹۹۵میں میرے والدکی وفات کی اطلاع ملنے پر وہ پروفیسر محمد فیروزشاہ کے ہمراہ طویل مسافت کے بعد میاں والی سے جھنگ پہنچے ۔ مجھ سے تعزیت کی اور دیرتک فرشِ زمین پر بیٹھے رہے اور انسانی زندگی و موت کے بارے میں چشم کشاصداقتوں پر اظہار خیا ل کیا ۔اس موقع پر انھوں نے مجھے مشیت ایزدی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کا مشورہ دیا۔ میری ڈھار س بندھانے کے بعد وہ سہ پہر کے وقت واپس چلے گئے ۔چندلمحات کی یہ ملاقات بھی عجیب رفاقت تھی جس نے ہمیشہ مجھے حوصلہ اورتقویت دی ۔آج سوچا تو آ نکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگیں کہ ایسی ملاقات پھر کبھی نہ ہو سکے گی ۔ایسے مخلص احباب کے رخصت ہونے کے بعداب تو زندگی بھر کی تنہائی میر امقدربن چکی ہے ۔
اپنی کتاب ’’وقت کی فصیل ‘‘ کے انتساب میں محمد حامد سراج نے اپنی زندگی کے کرب کو شامل کیاہے ۔ان کی دائمی مفارقت کے بعد ان کی یہ تحریرقارئین کو زندگی اور موت کے سر بستہ رازوں کے بارے میں حقیقی شعور و آ گہی عطا کرتی ہے ۔
’’ماں باپ کی گمشدہ چھاؤں کے نام جومیرے گھر اور شہر خموشاں کے درمیان کہیں کھوگئی ۔جانے میرا مسکن کون سا ہے ؟یہ گھر ؟جس میں صر ف سانس لینے کاعمل باقی رہ گیاہے یا شہرِ خموشاں ؟جسے والدین نے اپنی چھاؤ ں سے جاآباد کیا۔ ‘‘ ( وقت کی فصیل : صفحہ ۳)
حیف صدحیف وہ گھر جس میں صرف سانس لینے کا عمل باقی رہ گیا تھااس کے آنگن سے قزاقِ اجل کالشکر گزر گیا۔محمدحامدسراج تمھارے بعد وفاکے سب ہنگامے عنقا ہو گئے ۔ ہم سب حواس باختہ ،غرقابِ غم ،مضمحل اورنڈھال بیٹھے یہی کہہ رہے ہیں:
تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دِن اور

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 610451 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.