کچا ذہن ہو، ناسمجھی کا ساتھ ہو طبیعت میں خود غرضی کوٹ
کوٹ کر بھری ہو تو لڑکا ہو یا لڑکی دونوں ہی کسی اور راستے پر نکل جاتے
ہیں- ایسے راستے پر جو ظاہر ہے اچھا نہیں ہوتا کیوں کہ اس راستے کا اختتام
بدنامی اور پچھتاوے پر ہوتا ہے-
موبائل پر صنف مخالف سے خواہ مخواہ باتیں کرنا سمجھداروں کے نزدیک تو ایک
نہایت معیوب بات اور بے کار مشغلہ ہے مگر کم عقل لوگ اس نشے میں بری طرح
مبتلا ہوجاتے ہیں اور اس نشے سے چھٹکارا پانا ان کے بس میں نہیں ہوتا- ان
کی تعمیری صلاحیتیں اس بے کار اور بے سروپا مشغلے کی وجہ سے ختم ہوجاتی
ہیں- یہ ایک ایسا فضول شوق ہے جس سے آج تک کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا-
اس شوق میں مبتلا انسان بہ ظاہر تو صحت مند نظر آتا ہے مگر حقیقت میں ہوتا
وہ ذہنی مریض ہی ہے-
فریدہ جب نویں جماعت میں تھی تو اس کی عمر تیرہ چودہ سال کی تھی- حنا نامی
ایک لڑکی اس کی کلاس میں پڑھتی تھی- ان کے ماں باپ بہت غریب تھے مگر اس کے
باوجود وہ تعلیم کے لیے انھیں اسکول بھیجتے تھے- فریدہ کا باپ شربت کا
ٹھیلا لگاتا تھا- اس کے دو بھائی تھے جو لیتھ مشین پر کام سیکھ رہے تھے-
کیونکہ ابھی وہ کام سیکھ رہے تھے اس لیے انھیں لیتھ مشین کا مالک پچاس روپے
روز اور دو وقت کا کھانا دیتا تھا- اس کی ایک بڑی بہن بھی تھی- اس نے گھر
سے بھاگ کر شادی کرلی تھی- اس شادی کی وجہ سے اس کے گھر والے اس سے ناراض
ہوگئے تھے مگر پھر پہلے بچے کی پیدائش پر یہ ناراضگی دور ہوگئی-
فریدہ جس اسکول میں پڑھتی تھی وہ ایک سرکاری اسکول تھا- فریدہ نے یہ بات
نوٹ کی تھی کہ جب انٹرویل ہوتا تو دوسری لڑکیوں کی طرح حنا نہ تو کھیلتی
کودتی تھی اور نہ ہی کچھ کھاتی پیتی تھی- وہ کھیل کے میدان میں اپنی ایک
کاپی لے کر چلی جاتی تھی-
فریدہ کو کھوج ہوئی کہ اتنی پڑھاکو ہونے کے باوجود ٹیسٹوں میں اس کے مارکس
سب سے کم آتے ہیں تو اس کی کیا وجہ ہے- ایک روز اس نے حنا سے اس بارے میں
پوچھ ہی لیا- پہلے تو وہ ٹالتی رہی، پھر اس کے بہت اصرار کے بعد بتایا کہ
اس کی دوستی سراج نامی ایک لڑکے سے ہے- وہ کالج میں پڑھتا ہے اور ان کی اس
دوستی کو سال بھر سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے- سبق یاد کرنے کے بہانے وہ میدان
میں جاکر اس سے موبائل پر بات کرتی ہے- یہ ایک سنسنی خیز خبر تھی- فریدہ کو
اسے سننے میں مزہ تو بہت آیا مگر ڈر بھی لگا-
اب وہ روز انٹرویل میں میدان کی ایک بنچ پر بیٹھ کر حنا کو اس لڑکے سے
باتیں کرتا دیکھتی- حنا ایک چالاک لڑکی تھی- وہ موبائل تو کپڑوں میں چھپا
لیتی تھی اور ہینڈ فری کان میں لگا کر اوپر سے دوپٹہ اوڑھ لیتی- اس کے
ہاتھوں میں اس کی ایک کھلی ہوئی کاپی ہوتی تھی- دیکھنے والے سمجھتے تھے کہ
وہ ٹہل ٹہل کر اپنا سبق یاد کر رہی ہے-
زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ ٹہل ٹہل کر سبق یاد کرنے والی دو لڑکیاں ہوگئیں-
ایک حنا اور دوسری فریدہ- حنا ایک ہیڈ فون فریدہ کے کان میں لگا دیتی، وہ
خود تو اس لڑکے سے باتیں کرتی اور فریدہ ان دونوں کی باتیں سنتی- پہلے پہلے
تو اسے ان کی باتیں سن کر بہت شرم آئی مگر چند روز بعد اس کی یہ حالت ہوگئی
کہ وہ ان باتوں کو سننے کے لیے بے چین رہنے لگی- انٹرویل کا یہ آدھا گھنٹہ
اسے بہت مختصر سا لگنے لگا تھا کیوں کہ وقت پلک جھپکتے گزر جاتا تھا-
ایک روز حنا انٹرویل میں میدان کی طرف نہیں گئی- پوچھنے پر اس نے بتایا کہ
اس کے موبائل میں بیلنس ختم ہوگیا ہے- یہ اس نے جھوٹ کہا تھا، کیوں کہ سراج
کو مس بیل دینے کے بعد وہ فون بند کردیتی تھی اور پھر کچھ دیر بعد وہ خود
ہی اسے کال کر لیا کرتا تھا-
فریدہ کا وہ دن بہت بور گزرا- اس کے کان جن باتوں کو سننے کے عادی ہوگئے
تھے وہ سن نہ پائی تھی- شام کو اس نے اپنی ماں سے سو روپے یہ کہہ کر لیے کہ
اسکول میں پارٹی ہے وہاں دینا ہیں- پہلے تو ماں نے کہا کہ وہ کل چھٹی کرلے،
اس کے پاس سو روپے کہاں ہیں- مگر فریدہ کے اصرار سے مجبور ہو کر اسے پیسے
دینا ہی پڑے-
پھر تو یہ آئے دن کا معمول بن گیا- دو تین دن بعد حنا کا بیلنس ختم ہوجاتا
تھا- اسے فریدہ کی بے چینی کا احساس ہوگیا تھا- فریدہ اپنا جیب خرچ بچا کر،
گھر میں موجود ردی کاغذ ، پرانے کپڑے ، جوتے اور بچی ہوئی سوکھی روٹیاں
وغیرہ کباڑی کو دے کر پیسے جمع کرتی اور ان کا کارڈ خرید کر حنا کو دے
دیتی-
ایک روز ان کا کوئی قریبی رشتے دار باہر سے آیا تو کپڑوں وغیرہ کے ساتھ ایک
موبائل بھی فریدہ کی ماں کو دے گیا- اس کی ماں سیدھی سادھی تھی، موبائل اسے
استعمال کرنا نہیں آتا تھا- بھائیوں کے پاس پہلے ہی سے یہ موجود تھے- یوں
یہ موبائل فریدہ کو اس ہدایت کے ساتھ مل گیا کہ وہ اسے لے کر باہر نہیں
جائے گی- اس کے چھوٹے بھائی نے اس میں سم بھی ڈلوا دی تھی-
دوست دوست کے ہی کام آتا ہے- حنا کو جب پتہ چلا کہ فریدہ کے پاس ایک موبائل
آگیا ہے تو اس نے اس سے پوچھے بغیر کسی لڑکے کو اس کا نمبر دے دیا اور اس
سے بولی- "ارباب سراج کا دوست ہے- بہت اچھا لڑکا ہے- گھر کے حالات کی وجہ
سے وہ پڑھائی چھوڑ کر کہیں نوکری کرنے لگا ہے- میں نے تمہارا نمبر اسے دے
دیا ہے، وہ رات کو تمہیں فون کرے گا- تم بات کرلینا- میری بھی جان چھوٹے
گی- تم میری اور سراج کی باتیں سنتی رہتی ہو، میں کھل کر بات بھی نہیں
کرسکتی- تمھارے سامنے اس سے اپنے دل کی باتیں کرتے ہوۓ مجھے شرم آتی ہے-
تمہاری وجہ سے میرا سارا مزہ کرکرا ہوجاتا ہے-"
اس نے گھر آکر اسے موبائل کو سائلنٹ کرنے کا طریقہ اور دوسرے فنکشن بھی بتا
دیے- فریدہ کی بات ٹھیک نکلی- رات کو ارباب کا فون آگیا- ایک آدھ روز تک تو
دونوں ایک دوسرے سے اپنا تعارف ہی کراتے رہے- پھر سراج نے دوسری باتیں شروع
کردیں جنہیں سننے کی فریدہ کو عادت ہوگئی تھی اور وہ ان باتوں کو سننے کے
لیے مری جاتی تھی- اسے اپنے ماں باپ اور بھائیوں کی عزت کا بھی کوئی خیال
نہیں رہا تھا- اوباش لوگ تو ایسی لڑکیوں کو وقت گزاری کے لیے ڈھونڈتے پھرتے
ہیں- اپنی اس عیاشی کے لیے انھیں کچھ خرچ بھی نہیں کرنا پڑتا-
وہ لڑکا بدکردار تھا مگر اس نے اپنی اس بدکرداری کو چھپانے کے لیے فریدہ سے
ایک سچ بول دیا- چند روز بعد اس نے فریدہ کو صاف صاف بتا دیا تھا کہ وہ اس
سے دوستی تو کر سکتا ہے پر شادی نہیں کر سکتا- اس کے گھر کے حالات ذرا
پیچیدہ قسم کے ہیں- وہ چاہے تو اس دوستی کو ختم کر سکتی ہے- اس بات کا بھی
اس نے قسمیں کھا کر یقین دلایا کہ وہ اس دوستی کو زندگی بھر نبھائے گا- یہ
ہی تو وہ ہتھکنڈے ہوتے ہیں جن سے یہ بھیڑیے نما انسان انسانیت کو ایک طرف
رکھ کر ناسمجھ اور بے وقوف لڑکیوں کو شیشے میں اتار لیتے ہیں-
اس بات سے وقتی طور پر تو فریدہ کو ہلکا سا جھٹکا لگا مگر پھر اس نے
سمجھوتہ کرلیا- اسے ارباب کی سچائی نے بہت متاثر کیا تھا- اسے سہیلیوں ہی
سے پتہ چلا تھا کہ لڑکے تو دغا بازی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں لگے
رہتے ہیں، کوڑی کوڑی کو محتاج ہوتے ہیں مگر خود کو پیسے والا ظاہر کرتے
ہیں- معصوم لڑکیوں کو شادی کا جھانسہ دے کر اور ذلت کے گڑھے میں دھکیل کر
بعد میں دھوکہ دے جاتے ہیں- ان کے مقابلے میں ارباب تو سچا تھا اور اس نے
دوستی ہوتے ہی اپنی مجبوری پوری سچائی سے اس کے سامنے بیان کردی تھی- وہ
اسے اور بھی اچھا لگنے لگا- اس نے سوچا کہ شائد کچھ عرصے بعد اس کے گھر کے
حالات ٹھیک ہوجائیں اور اس سے شادی بیاہ کی نوبت آجائے- ویسے بھی وہ کون سی
ایسی لڑکی ہوں کہ جو شادی کے لیے مری جارہی ہو-
وقت تیزی سے گزرتا رہا- پلک جھپکتے ہی تین سال کا عرصہ گزر گیا- ان تین
سالوں میں فریدہ میٹرک بھی نہ کر سکی- ذہن جب شیطانی خیالات کا آماجگاہ بنا
ہو تو عقل کی باتیں کہاں سے آئیں اور پڑھائی لکھائی کیسے ہو- پڑھائی لکھائی
تو وہ لڑکیاں کرتی ہیں جنہیں اپنے ماں باپ کی عزت کا خیال ہوتا ہے اور وہ
سوچتی ہیں کہ پڑھ لکھ کر جب وہ کامیاب ہوجائیں گی تو ان کے ماں باپ کا سر
فخر سے بلند ہوجائے گا- ماں باپ کے اس فخر کے لیے وہ ہر طرح کی خرافات سے
خود کو بچا کر رکھتی ہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کی آئندہ کی
زندگی بغیر کسی پچھتاوے کے ہنسی خوشی گزرتی ہے-
فریدہ نے سلائی کا کام سیکھ لیا تھا اور محلے کی عورتوں اور بچوں کے کپڑے
سینے لگی تھی- اس کام سے اسے کچھ پیسے بھی ملنے لگے- اس نے جب بے غیرتی کا
لبادہ اچھی طرح اوڑھ لیا تو ارباب کے کہنے پر وہ اس سے گھر کے باہر ملنے
بھی لگی- وہ گھر سے یہ بہانہ کرکے نکلتی تھی کہ سلائی کے لیے دھاگے، بکرم
اور بٹن وغیرہ خریدنے ہیں- اس کے روز کے معمولات میں ارباب سے بلا ناغہ رات
کو موبائل پر بات کرنا بھی شامل تھا-
زندگی اسی ڈگر پر چل رہی تھی- پھر اچانک اس کا ایک رشتہ آگیا- لڑکے کا نام
اسلم تھا اور وہ شارجہ میں کسی تعمیراتی کمپنی میں مزدوری کرتا تھا- وہ
سارا سال تو باہر رہتا تھا اور سال میں ایک ماہ کی چھٹی پر پاکستان آتا
تھا- وہ ایک سیدھا سادھا شخص تھا- اس کا گھرانہ بھی بڑا نہیں تھا- ایک ماں
تھی اور ایک بہن- شارجہ میں اس کی رہائش اور کھانے پینے کا انتظام کمپنی کی
طرف سے تھا اس لیے اس کی تنخواہ کے بہت سارے پیسے بچ جاتے تھے- ان پیسوں سے
اس نے اپنے گھر کی بالائی منزل بھی بنوا لی تھی- فریدہ کے گھر والوں کے پاس
کوئی وجہ ہی نہیں تھی کہ اس رشتے سے انکار کرتے- لڑکا چھٹیوں پر آیا ہوا
تھا- تھوڑے عرصے بعد ہی یہ شادی ہوگئی- فریدہ اپنے گھر کی ہوگئی-
کچھ عورتوں کو اپنے شوہر کو اپنی مرضی کا بنانا پڑتا ہے مگر یہ فریدہ کی
خوش قسمتی تھی کہ اسے اس قسم کا شوہر بنا بنایا ہی مل گیا- وہ اس پر بری
طرح فریفتہ ہوگیا تھا- وہ کیسی بھی تھی مگر تھی تو ایک انسان- وہ جس طرح اس
کے آگے پیچھے پھرتا تھا اور اسے دیکھ کر ریشہ خطمی ہوا جاتا تھا تو فریدہ
یہ دیکھ کر فکرمند ہوجاتی تھی اور وہ سوچتی تھی کہ اگر وہ مر گئی تو اس بے
چارے کا کیا ہوگا-
اس کی ساس اور نند البتہ تیز تھیں- کیوں کہ رخصتی کے بعد جب وہ سسرال میں
آئی تھی تو اس کی ساس نے بڑی تفصیل سے اسے بتا دیا تھا کہ اس گھر کے کیا
ریت رواج ہیں اور اسے یہاں کس طرح رہنا ہے- ان نصیحتوں کے دوران اس کی نند
اسے تیز نظروں سے دیکھتی رہی تھی- اس موقع پر اس نے کچھ کہنا مناسب نہ
سمجھا، خاموشی سے سنتی رہی-
کچھ دنوں بعد اس کا شوہر واپس چلا گیا- شوہر کے جانے کا اسے ذرا سا بھی دکھ
نہ ہوا- اس کو دلاسہ دینے کے لیے اور دلجوئی کے لیے ارباب موجود تھا- اس کی
شادی سے وہ بھی بہت خوش تھا- اس خوشی کے پیچھے یہ بات بھی تھی کہ فریدہ کے
شوہر کے باہر کمانے کی وجہ سے اسے یہ امید ہوگئی تھی کہ فریدہ آسانی سے
اسکی مالی مدد بھی کرسکتی تھی-
اسلم کے جانے کے بعد کچھ دن تو گھر میں خاموشی رہی- پھر برتنوں نے کھڑکنا
شروع کردیا- اس کی ساس کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ وہ دن چڑھے تک سوتی رہے
اور کھانا اور گھر کے دوسرے کام اسے اور اس کی بیٹی کو کرنا پڑیں- اسے اس
بات پر بھی اعتراض تھا کہ بہو آدھی آدھی رات تک موبائل پر کسی سے باتیں
کرتی رہتی ہے- ارباب نے ان کی گلی کے چکر بھی لگانے شروع کردیے تھے- فریدہ
کسی بہانے دروازے پر کھڑی ہوجاتی اور اسے دیکھتی رہتی- اس بات کو اسلم کی
بہن نے بھی تاڑ لیا تھا اور ثبوت کے طور پر گھر کی بالائی منزل سے ارباب کی
کئی تصویریں بھی موبائل میں اتار لیں- فریدہ کی مشکوک حرکتوں کی وجہ سے ماں
بیٹی کو اس پر شبہ ہوگیا تھا- ایک روز اسلم کا فون آیا تو اس کی ماں نے ان
تمام باتوں کا تذکرہ اس سے کردیا اور اسے ہدایت کی کہ وہ اپنی بیوی کو
سمجھائے- اپنی بات میں زور پیدا کرنے کے لیے اس کی بہن نے ارباب کی تصویریں
بھی اس کے موبائل پر بھیج دی تھیں-
بیوی پر لگے اس الزام کو شوہر نے اپنی ہتک جانا- اس نے اس بات کا تذکرہ
بیوی سے کیا- اس تذکرے کا فریدہ پر یہ اثر ہوا کہ اس نے اپنی صفائی میں
زبان سے تو ایک لفظ نہیں کہا مگر رو رو کر ہچکیاں باندھ لیں- بیوی کے آنسو
ہوں اور اسلم جیسا شوہر ہو تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی اثر نہ ہو- اسلم
نے اسی وقت فریدہ سے کہا کہ یا تو وہ سامان لے کر اپنی ماں کے گھر چلی جائے
یا پھر اپنے بھائیوں سے کہہ کر کرائے کے گھر میں شفٹ ہوجائے- فریدہ کو
کرائے کا گھر غنیمت لگا- ماں کے گھر میں جگہ ہی کہاں تھی- بھائیوں کی شادی
ہوجاتی تو اسے پھر نکلنا پڑتا-
اسی رات ارباب کو بھی یہ بات پتہ چل گئی- وہ بہت خوش ہوا- اس نے بتایا کہ
وہ جس محلے میں رہتا ہے، اس میں ایک گھر خالی ہے- وہ اسے مل سکتا ہے- چند
روز بعد وہ اپنے بھائیوں کی مدد سے اس کرائے کے گھر میں منتقل ہوگئی- وہ
چونکہ اکیلی تھی اس لیے اس نے اپنے سب سے چھوٹے بھائی کو اپنے پاس بلا لیا-
وہ صبح کا نکلا رات کو گیارہ بارہ بجے گھر میں قدم رکھتا تھا-
ساس اور نند سے اس کا رابطہ بالکل ختم ہو گیا تھا- جب بچے کی پیدائش کا وقت
آیا تو اس کی ماں نے اس کی اطلاع اس کی ساس کو دی مگر وہ بہو کو دیکھنے بھی
نہیں آئی- اس کی دیکھ بھال کے لیے اس کی ماں اور بڑی بہن اس کے پاس آگئی
تھیں- پیدا ہونے والا بچہ بہت خوب صورت تھا- اس کی پیدائش پر وہ بہت خوش
تھی- اسی دوران ایک سال گزر گیا تھا اور اس کا شوہر پھر ایک ماہ کی چھٹی پر
یہاں چلا آیا-
اسلم کو اس بات کا بہت قلق تھا کہ ایک تو اس کی ماں اور بہن نے اس کی بیوی
پر بہتان لگایا تھا - اس کے علاوہ بچے کی ڈلیوری کے موقع پر دونوں نے اس کی
بیوی کو اکیلا چھوڑ دیا تھا- وہ اپنی ساس اور سالی کا بہت احسان مند تھا-
ایسے موقعوں پر کسی کا کام آجانا تھی بھی احسان ماننے والی بات- اس وجہ سے
وہ اپنی ماں اور بہن سے ملنے بھی نہیں گیا- اسے ماں اور بہن کی طرف سے کوئی
فکر بھی نہیں تھی کہ ان کا گزارہ کیسے ہوگا- فریدہ کے آجانے سے اوپر کی
منزل خالی ہوگئی تھی جسے انہوں نے کرائے پر چڑھا دیا تھا- اسلم سوچتا تھا
کہ کرائے کی رقم سے دونوں ماں بیٹی کا گزارہ ہوجاتا ہوگا-
اسلم کی موجودگی میں فریدہ بہت محتاط رہتی تھی- دن میں بھی اور رات میں
بھی- وہ ارباب سے بہت کم بات کرتی تھی- ایک ہی محلے میں رہنے کی وجہ سے
البتہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ ضرور لیتے تھے- یہ قربانی وہ صرف اپنے شوہر
کی خاطر دیتی تھی تاکہ اسے کسی قسم کا شبہ نہ ہو اور وہ یہ نہ کہہ سکے کہ
اس کی ماں اور بہن نے اس پر جو الزام لگایا تھا وہ ٹھیک تھا- وہ اس کا یوں
بھی خیال کرتی تھی کہ اس کی زندگی میں یہ تمام اطمینان اور خوشیاں اس کے
شوہر کے ہی دم سے تو تھیں- اسے گھر کے اخراجات کی طرف سے ذرا سی بھی
پریشانی نہیں ہوتی تھی- اسلم ہر ماہ اس کے اکاؤنٹ میں ایک معقول رقم بھیج
دیتا تھا- ارباب کا ہاتھ اکثر تنگ ہوجاتا تھا تو اسی رقم سے وہ اس کی بھی
مدد کردیتی تھی-
یہ ایک مہینہ بھی پلک جھپکتے گزر گیا- پہلے بیوی کی وجہ سے اور اب بچے کی
وجہ سے اسلم کا واپس جانے کو دل نہیں کر رہا تھا- مگر مجبوری تھی- اسے واپس
جانا پڑا-
اسلم اگلی دفعہ جب پاکستان آیا تو اس کا بیٹا سال بھر سے زیادہ کا ہوگیا
تھا اور بہت خوب صورت تھا- اس کے سنہری بال تھے اور رنگ بہت گورا تھا-
فریدہ اپنے بیٹے کا بہت خیال رکھتی تھی-
اسلم کو ایک پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا- پہلی دفعہ جب اس نے اپنے
بیٹے کو دیکھا تھا تو وہ صرف ایک دو ماہ کا تھا اور اس میں سمجھ نہیں تھی-
اب وہ دوبارہ جب گھر آیا تو وہ سال بھر سے زیادہ کا ہوگیا تھا- اس نے سہارا
لے کر چلنا بھی شروع کردیا تھا- اسلم کی پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ وہ جب
بھی اسے گود میں لینے کی کوشش کرتا تو وہ رونے لگتا اور اتنا روتا کہ فریدہ
کو اسے لے کر چپ کروانا پڑتا تھا- وہ چپ تو ہوجاتا مگر جیسے ہی اس کی نظر
اسلم پر پڑتی وہ پھر رونا شروع کردیتا-
اس صورت حال نے اسلم کو افسردہ کردیا- اس کا بھی دل چاہتا تھا کہ اس کا
بیٹا اس کی گود میں آئے، اس کے ساتھ کھیلے- وہ اس کے لیے بہت سے کھلونے بھی
لایا تھا- کھلونے دیکھ کر وہ خوش تو بہت ہوتا تھا مگر جیسے ہی اسلم قریب
آتا وہ پھر رونے لگتا اور روتے ہوۓ ماں کی جانب بھاگتا-
دو ایک روز بعد اسلم کے ذہن میں ایک ترکیب آئی- اس نے سوچا کہ وہ زبردستی
بیٹے کو لے کر باہر جائے- باہر کی چہل پہل اور رونق دیکھ کر شائد وہ اپنا
رویہ بدل دے- اس نے فریدہ سے کہا کہ اسے تیار کردے- جب وہ تیار ہوگیا تو
اسلم نے اسے گود میں اٹھایا- اچھا خاصہ ہنستا کھیلتا بچہ اس کی گود میں آتے
ہی چیخ چیخ کر رونے لگا- اسلم نے اس کے رونے کی کوئی پرواہ نہ کی اور
دروازہ کھول کر گھر سے باہر آگیا-
وہ اسے لے کر سیدھا محلے کی دوکان پر آیا- اس کا خیال تھا کہ دکان پر لٹکے
رنگ برنگے پیکٹ جن میں بچوں کے کھانے پینے کی چیزیں ہوتی ہیں، انھیں دیکھ
کر وہ بہل جائے گا مگر اس نے تو ان چیزوں کی طرف دھیان ہی نہیں دیا اور
بدستور چیخ چیخ کر روتا رہا-
اچانک دوکان کے برابر والے گھر کا دروازہ کھلا- اس میں سے ایک نوجوان باہر
نکلا- اسلم کی نظر اس پر پڑی تو اس کی شکل اسے کچھ جانی پہچانی سی لگی مگر
اسے یاد نہیں آیا کہ اسے کہاں دیکھا ہے- وہ نوجوان گھر سے نکل کر دوکان پر
آیا- اسلم کے روتے ہوۓ بیٹے کی نظر اس نوجوان پر پڑی تو اس کا رونا فوراً
ہی تھم گیا- اس نے اپنے دونوں ہاتھ اس کی طرف بڑھائے اور اس کی قمیض کا
کالر پکڑ کر اس کی گود میں آنے کی کوشش کرنے لگا-
اسلم کو اچانک یاد آگیا کہ اس نوجوان کی شکل شناسا کیوں لگی تھی- اس کی
نظروں کے سامنے وہ تصویریں گھومنے لگی تھیں جو اس کی بہن نے موبائل پر
بھیجی تھیں-
(ختم شد)
|