دنیا کے آخری کپڑے

وہ ایک بے حد تنگ اور تاریک کمرے میں جیسے ہمیشہ کے لیے قید ہو کر رہ گئی تھی جبکہ اُس کے پیٹ میں ایک عدد بچہ بھی اپنی پیدائش کامنتظر تھا۔۔۔

حالات بڑی تیزی سے تبدیل ہوئے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیاکے انسان اس بات پر متفق ہو گئے تھے کہ انھیں کسی بھی قسم کے لباس یا کسی خاص وضع قطع کی اب کوئی ضرورت نہیں۔

سو اب دنیا کے تمام انسان ہر ماحول،ہر صورت اور ہر حال میں الف ننگے تھے۔۔۔

مخصوص ملبوسات، پہناووں اور حلیوں کاجیسے نام ونشان تک مٹ چکا تھا۔تمام انسانوں کا یوں کسی ایک بات پر مکمل اتفاق کر لینا حیران کن ضرور تھا لیکن کہیں نہ کہیں یہ عمل اپنے آپ میں ماضی،حال اور مستقبل سے جڑے بے شمار جواز اور بنیادیں بھی رکھتا تھا جیسا کہ انسانوں کا ہر عمل رکھتا آیاہے۔لیکن وہ ابھی تک اُن تمام انسانوں میں شامل نہیں ہوئی تھی اور گھر کے ایک کمرے میں قید ہو کر، اُس نے ننگ دھڑنگ انسانوں کی دنیا کی پہنچ سے خود کواپنے تئیں، جیسے دورکر لیا تھا۔۔۔

اس مشکل اور گھمبیر عمل کوعالمگیر سطح پر بروئے کار آنے میں ایک لمبا عرصہ لگا تھا اور جلد یا بدیر ہر ایک کو ہتھیار ڈالنے ہی پڑے تھے۔لیکن وہ کسی نہ کسی طرح خود کو پرانی صورتحال پر قائم رکھے ہوئے تھی۔۔۔

بہرحال اُس کے گھر کی چار دیواری بھی جب دنیا کے اِس نئے اور بیگانے رنگ میں رنگتی چلی گئی تو اُس نے اپنے وجود کو ایک اسٹورنماکمرے میں محبوس کر لیا۔وہ اس عالمگیرننگے پن کا حصہ بننے کے لیے ہر گز تیار نہیں تھی۔کمرے کا دروازہ بجتا رہتا۔ گھر والوں اور دیگررشتہ داروں کی ہمدردانہ التجائیں کانوں میں پڑتیں تو اس کا دل چاہتا کہ وہ اپنے نازک اور حساس کانوں میں کسی طرح سیسہ انڈیل لے۔وہ یہ سب کیسے قبول کر لیتی اور کیوں؟ بھلا یہ ہو بھی کیسے سکتا تھا۔۔۔؟

اُس کے بھائی، بہن، ماں باپ حتیٰ کہ شوہر بھی بار بار دروازے پر آکر اُسے کبھی پیار سے اور کبھی لاڈ سے سمجھانے کی کوشش کرتے۔ بڑے خلوص اور سچائی کے ساتھ عمومی اور خصوصی دلیلیں دیتے،ہر نوعیت کے جواز پیش کرتے اورہونے والے بچے کے بھی واسطے دیتے اور اُس کی ہمت بندھاتے اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ تنگ آکر اسے ہٹ دھرم، ضدی اور قدامت پرست کہتے ہوئے اُسے کوسنے بھی لگتے۔ لیکن سب سے زیادہ حیرت اُسے اپنے شوہر پر تھی جس کی غیرت کو ننگے پن کی تپش نے اتنی جلدی بھاپ بنا کر اڑا دیا تھا۔بچے کا خیال نہ ہوتا تووہ ایسے گھناؤنے ہاتھوں سے کھانا پینا بھی قبول نہ کرتی۔ اورگھرکے باقی افراد کے سامنے، دن رات خود کویوں کپڑوں کے بغیرتصور کر کے اُس کے دل میں کیسے کیسے ہول اٹھنے لگتے۔۔۔

دن بھر کمرے میں اکیلے بیٹھ کر سوچتی رہتی کہ بنی نوع انسان کو آخر سوجھی بھی تو کیا؟؟ کیا ایک یہی بات رہ گئی تھی کہ جس پر عالمگیر سطح پر متفق ہوا جائے؟

ایک پل کوچلومان بھی لیا کہ انسان کا پہلا لباس ہی بے لباسی تھی۔ خود اسے بھی یہی بتایا گیا تھاکہ کبھی کہیں مثالی دنیامیں انسان نے جب اپنا سفر شروع کیا تھا تو وہ لباس سے عاری تھا۔ انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو الف ننگاہوتاہے گویا فطرت بے لباسی کو عیب نہیں سمجھتی اور نہ ہی قدرت نے آج تک انسان اور اس کی کسی تہذیب کے احترام میں کبھی کسی بچے کو کوئی لباس پہنا کراس دنیا میں بھیجا ہے۔لیکن اس سب کا مطلب یہ تونہیں کہ انسان تہذیب کے حاصلات میں سے ایک عمدہ، رنگارنگ اور لازمی حاصل کو یوں گنوا دے؟اپنی زیب و زینت اوراپنی عزت، ناموس اور غیرت کے محافظ کو اس قدر بے دردی اور بے رحمی سے قربان کر دے؟ اخلاقیات کو گویاجڑ سے اکھاڑ کر رکھ دے؟کیا یہ بھی اپنی نوعیت کی شدید بلکہ سراسر مجرمانہ طرز کی قدامت پرستی نہیں تھی؟

سوالوں کی بازگشت سے بوکھلا کر وہ اپنے کپڑوں میں اور بھی سمٹ جاتی اور کپڑوں کی موجودگی کے احساس کو اور بھی تازہ اور شدید کرنے لگتی جبکہ باہر سے آتی ہوئی اکثریت کی مسلسل آوازیں اُسے اکساتی رہتیں،اُس کی سوچوں کو بڑھاوابھی دیتیں۔ سوچنے لگتی کہ جب وہ پیدا ہوئی تھی تو بڑے ہونے تک اس کی ماں نے، دایہ نے، بہن بھائیوں، باپ نے اور نہ جانے کس کس نے اسے دیکھا ہو گا لیکن تب،جبکہ اسے پتہ نہیں تھا کہ بے لباس ہونا کیاہوتاہے، خاص کر ایک عورت کے لیے۔پھر اسکی بے لباسی صرف اور صرف اس کی اپنی نگاہوں کے لیے مخصوص ہو گئی تھی یاپھر کسی ایک مرد کے لیے جو اس کے آس پاس پھیلے کروڑوں مردوں میں سے کوئی بھی ایک ہو سکتا تھا جو چند لفظوں،شرطوں اور رسموں کے بدلے اسے بے لباس کر سکتا تھا یا ایک کے بعدایک اور بھی۔اور زبردستی،مجبوری یا موقع پرستی میں توبے لباس ہونے اور کرنے کے لیے ہر کوئی ہر وقت ہی تیار رہتا تھا۔ یہاں تک کہ موت بھی اپنی گود میں بے لباسی کی شرط لیے ہوئے تھی۔۔۔

روزمرہ زندگی میں بے لباسی کی اس قدرنا گزیریت اور بعض مرحلوں پرکھلی چھوٹ کو سوچ کر اور محسوس کر کے وہ کانپ اٹھی۔پر یہ بھی ایک ٹھوس حقیقت تھی کہ یہ تمام ترجوازمل کر بھی اسے اپنی پرانی راہ سے نہیں ہٹاسکتے تھے جس پر وہ خود اپنی مرضی سے قائم رہنا چاہتی تھی۔۔۔

جبکہ دیگر بے شمار پہلووں اور زاویوں پرلمبی اور گہری سوچ بچارکے بعد وہ کچھ عجیب قسم کے مخمصوں کا شکار بھی ہو چلی تھی، جیسا کہ انسان کپڑے پہنتا تو ہے لیکن اتارنے ہی کے لیے یا شاید انسانوں نے لباس کا چناؤ کر کے جو غلطی کی تھی اس کے ازالے کے لیے انھوں نے بے لباسی کے ایسے ایسے گُر پیدا کیے کہ۔۔۔سمجھ سے باہر لگنے لگتا کہ انسانوں کے لیے دراصل لباس اہم ہے یا بے لباسی؟ تو کیا صدیوں سے تہذیبوں، پہناووں اور حلیوں کی رکھوالی کرتا انسان ہر مسئلے کی جڑ تک پہنچ گیا تھا؟

دنیا میں اب اکیلی وہی تھی جس کا بدن ایک مخصوص وضع کے لباس سے ڈھکا ہواتھا۔گویا اس کے کپڑے شاید دنیا کے آخری کپڑے تھے۔ اوپر سے بچے کی پیدائش آج کل میں متوقع تھی اور پھر ایسے میں اس نے ایک خواب دیکھا:
اس کا بچہ بڑا ہو کر اسے کوس رہا ہے اورچیخ چیخ کر سمجھا بھی رہا ہے کہ اس کی ماں نے اسے دنیا بھر کے لیے اجنبی بنا کر رکھ دیا ہے۔اس کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔وہ سب کے ساتھ چلنا چاہتا ہے لیکن وہ ان کپڑوں میں خود کو ننگا محسوس کرتا ہے۔دنیا والے اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور اس سب کی ذمہ دار اس کی ماں ہے جو لباس سے ایسے چمٹی ہوئی ہے جیسے کبھی لباس انسانوں سے چمٹا ہوا تھا اور پھر وہ اپنے کپڑے اتار دیتا ہے اور آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیتا ہے اور۔۔۔

وہ چیختے ہوئے جا گ اٹھی۔دردِ زہ شروع ہو چکا تھا۔ دروازہ دھڑا دھڑ بجنے لگا۔گھروالوں کو بھی شاید خبر ہوگئی تھی۔گھر والوں کی التجاؤں اور درخواستوں کے باوجود،کافی دیر چیخنے چلانے کے بعد اس نے بنا کسی کی مدد کے بچے کو کسی طور خود ہی نئی دنیا میں دھکیلا اور پھر اپنے وجود کو اچھی طرح ڈھانپ کر،اپنی آنکھوں پر ایک پٹی باندھی، ساری ہمتیں مجتمع کیں اور دروازے کی جانب گھسٹنے لگی۔ اور نہ جانے کیسے اور کس حال میں اس نے دروازہ کھول دیا اورپھر ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔

نومولود کے رونے کی آوازپورے گھر میں گونجنے لگی تھی۔دروازہ کھلنے پر گھر والوں نے کیا دیکھا کہ قدرت کا بھیجا ہوا، ننھے ننھے ہاتھ پاؤں چلاتا،وہ بے لباس بچہ، اپنی ماں سے کچھ دور، سینے اور پیٹ کے چھوٹے سے پھیلاؤ پر،نہایت سلیقے سے تہہ کیے ہوئے ایک کاغذ کا بار اٹھائے ہوئے تھا ۔جس پر لکھا تھا،
”اس کی ماں کو نہلائے بغیرکپڑوں سمیت اسی کمرے میں دفن کر دیا جائے۔“
 

جواد حسنین بشر
About the Author: جواد حسنین بشر Read More Articles by جواد حسنین بشر: 5 Articles with 13226 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.