کتوں کے کاٹنے کے بڑھتے واقعات، ذمہ دار کون؟

صحافت کے طالب علم کو جب خبر کی پہچان کروائی جاتی ہے اور خبر کا پہلا سبق دیا جاتا ہے توا س میں یہ مثال دی جاتی ہے کہ اگر کتا بندے کو کاٹ لے تو یہ خبر نہیں بلکہ معمول کیونکہ کتے کا کام ہی کاٹنا ہے لیکن اگر بندہ کتے کو کاٹ لے تو یہ خبر ہے،لیکن صحافتی اصولوں کے برعکس کتوں کے انسانوں کو کاٹنے کی خبریں بہت زیادہ چل رہی ہیں،بھٹو کے شہر لاڑکانہ میں آوارہ کتوں نے 6 سالہ حسنین کو بری طرح زخمی کر ڈالا جسے طبی امداد کے لیے لاڑکانہ سے کراچی منتقل کر دیا گیا ہے،لاڑکانہ کے 6 سالہ حسنین کے والدین علاج کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، لاڑکانہ سے کراچی کے نجی ہسپتال پھر سول ہسپتال اور آخر میں این آئی سی ایچ ہسپتال میں داخل کرلیا گیا۔حسنین کے والد غلام حسین کا کہنا ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں کسی حکمران نے ساتھ نہیں دیا، بچے کو اپنی مدد آپ کے تحت لیکر آئے ہیں، حکومت بچے کے علاج کے لیے مدد فراہم کرے۔وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واوڈا نے کتے کے کاٹے سے زخمی 6 سالہ محمد حسنین کی قومی اداراہ برائے امراض اطفال ہسپتال کراچی میں عیادت کی، محمد حسنین کوگزشتہ روز لاڑکانہ سے کراچی کے اسپتال منتقل کیا گیا تھا، فیصل واوڈا نے بچے کے والدین سے اسکی خیریت دریافت کی اور ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ ڈاکٹرز نے وفاقی وزیر فیصل واوڈا کو بچے کی طبیعت اور علاج سے متعلق بریفنگ بھی دی۔ وزیر آبی وسائل فیصل واوڈا نے ڈاکٹرز کو ہدایت کی کہ بچے کو تمام تر طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔ وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واوڈا نے کہا کہ 6 سالہ حسنین کی حالت افسوسناک ہے سندھ کے حکمران بے حس ہوگئے ہیں۔ حسنین سے قبل ننھے بچے کو ماں کی گود میں مرتے دیکھا۔ ڈیڑھ سال تک وفاق نے ویکسین فراہم کی، حکومت سندھ ویکسین نہیں خریدتی تو ہم سندھ کو لاوارث نہیں چھوڑینگے، حکومت سندھ اب اپنی ڈرامے بازیاں بند کرے اور اس بچے سمیت تمام بچوں کی مدد کریں، سندھ حکومت کے پاس مینڈیٹ ہے،ہم ان پر تنقیدکرنے کے بجائے انکو احساس دلاتے ہیں، وزیر اعلی سندھ سے درخواست ہے کہ وہ آئیں ان مسائل کو حل کریں،صوبے میں کتا مار مہم کی حمایت کرتا ہوں۔سندھ میں کتوں کے کاٹنے کے واقعات میں مسلسل اضافے کے بعد بھی سائیں حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔محکمہ صحت سندھ نے اگست تک ڈاگ بائٹ واقعات کیاعداد وشمارجاری کئے جس کے مطابق رواں سال سندھ کے مختلف اضلاع میں ایک لاکھ 22 ہزار 566 افراد ڈاگ بائٹ کاشکار ہوئے ہیں،قمبرمیں رواں سال 11 ہزار 935 افراد ڈاگ بائٹ کا شکارہوئے ،دادو میں 11 ہزار 330 جبکہ نوشہروفیروز میں 10 ہزار 847 افراد کو کتوں نے کاٹا،رپورٹ کے مطابق خیرپور میں 8 ہزار 958 افراد کتوں کے کاٹنے کا شکار ہوئے ،جناح اسپتال میں متاثرہ افراد کی تعداد 8 ہزار سے تجاوز کر گئی ،ستمبر تک7ہزار 741 افراد کو جناح اسپتال لایا گیا تھا ۔

ایک ماہ قبل بھی سندھ کے ضلع شکارپور میں مرض کی تشخیص میں مبینہ غفلت اور ریبیز ویکسین کی عدم دستیابی کے باعث دس سالہ بچے میر حسن کی موت واقع ہوئی ہے۔ ضلع شکار پور کے نواحی گاؤں داؤد ابڑو کے رہائشی میر حسن کو عید سے دو دن پہلے کتے نے کاٹا تھا، تاہم مرض کی تشخیص میں غفلت اور ضلع بھر میں آوارہ کتے کے کاٹے کی ویکسین کی مبینہ عدم دستیابی کے باعث بچے کی حالت بگڑنے پر لاڑکانہ لایا گیا، جہاں کمشنر آفس کے سامنے اس کی موت واقع ہوگئی۔میر حسن کے والد صفدر ابڑو جب منگل کی دوپہر بیٹے کو لے کر لاڑکانہ کمشنر آفس میں قائم اینٹی ریبیز ویکسینیشن سینٹر پہنچے تو مرکز کے انچارج ڈاکٹر نور دین قاضی نے کہا کے بچے کو ریبیز مرض لاحق ہے جو جسم میں اس قدر سرایت کر چکا ہے کہ اب اس کا بچنا تقریباً ناممکن ہے۔یہ سن کر بچے کی والدہ کمشنر آفس کی پارکنگ میں ہی بیٹھ گئیں اور بچے کی جان بچانے کی التجا کرنے لگیں۔ ایسے میں مقامی افراد نے پرائیویٹ ایمبولینس کا بندوست کیا تاکہ میر حسن کو قریب واقع شیخ زید میڈیکل سینٹر لے جا کر اس کی جان بچانے کی کوشش کی جائے۔ تاہم میر حسن کی حالت مزید بگڑ گئی اور وہ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی جان کی بازی ہار گیا۔لاڑکانہ میں اینٹی ریبیز ویکسینیشن سینٹر کے انچارج کے مطابق جیکب آباد، شکار پور اور دیگر اضلاع میں کتے کے کاٹے کی ویکسین کی شدید قلت ہے، ایسے میں تمام اضلاع سے مریض لاڑکانہ آتے ہیں جس کی وجہ سے اب لاڑکانہ میں بھی ویکسین کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔دس سالہ میر حسن کی ہلاکت اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ رواں سال جون میں ٹھٹہ کے رہائشی 12 سالہ کاشف کی موت بھی ویکسین کی عدم دستیابی کے باعث ہوئی تھی۔ ٹھٹہ میں ویکسین نہ ہونے کی وجہ سے کاشف کے گھر والے دیسی نسخوں اور تعویذوں سے کئی ماہ تک اس کا علاج کرنے کی کوشش کرتے رہے، تاہم جب طبیعت زیادہ بگڑی تو اسے کراچی کے جناح ہسپتال لایا گیا مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔رواں ماہ ایک کیس کی سماعت کے دوران سندھ ہائی کورٹ نے صوبے بھر میں اینٹی ریبیز ویکسین کی قلت کا نوٹس لیتے ہوئے سندھ حکومت کو اس حوالے سے جواب جمع کروانے کے احکامات جاری کیے تھے۔صوبے کے دیگر تمام اضلاع میں ویکسین ناپید اور معیاری طبی سہولیات نہ ہونے کے باعث ایسے تمام کیسز کراچی بھیج دیے جاتے ہیں جہاں سول، جناح اور انڈس ہسپتال میں کتے کے کاٹے کے علاج کے لیے علیحدہ سیکشن قائم ہے تاہم اب وہاں بھی ویکسین کی قلت کا سامنا ہے۔

پاکستان اور خصوصاَ سندھ میں حالیہ دنوں میں کتے کاٹنے سے لاتعداد افراد زخمی اور چند ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔طبی ماہرین کے مطابق ایسی صورت میں جان اسی وقت بچ سکتی ہے جب جتنی جلد ممکن ہو اینٹی ریبیز ویکسین لگوالی جائے۔ماہرین کے مطابق کتے کے لعاب میں ریبیز نامی خطرناک وائرس پایا جاتا ہے، کتے کے کاٹنے کی صورت میں یہ وائرس زخم کے ذریعے خون اور پھر دماغ میں پہنچ کر اسے شدید نقصان پہنچاتا ہے جس کے باعث مریض کو سردرد اور بخار کے علاوہ پانی پینے تک میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور بالآخر تکلیف دہ موت یقینی ہوجاتی ہے۔تاہم جدید سائنس کے بدولت اینٹی ریبیز ویکسین یا اے آر وی اس خطرناک صورتحال کے علاج کیلئے موجود ہے جس کے نتائج تقریباَ سو فیصد ہیں۔طبی ماہرین کے مطابق یہ ویکسین جسم میں موجود ریبیز وائرس کے خلاف زبردست مدافعت پیدا کر کے اسے انفکشن سے بچانے کا کام کرتی ہے۔ڈاکٹرز کے مطابق اینٹی ریبیز ویکسین کا مکمل کورس عموماِ پانچ ٹیکوں کا ہوتا ہے جو مخصوص وقفوں کے ساتھ عموماِ بازو میں لگائے جاتے ہیں۔عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کتے کاٹنے سے ہلاکتوں کا کے واقعات کا کوئی مستند ریکارڈ موجود نہیں تاہم اندازہ ہے کہ سالانہ پانچ ہزار سے زائد افراد اس وائرس سے موت کے منہ میں جاتے ہیں۔ڈاکٹرز کے مطابق جتنی جلد ممکن ہو قریبی اسپتال سے ریبیز ویکسین لگوالی جائے تو متاثرہ مریض نارمل زندگی گزارسکتا ہے۔ملک بھر میں کتے کے کاٹنے کے واقعات اور اس کے نتیجے میں ہلاکتیں سامنے آنے کے بعد سے عوام میں خوف پایا جاتا ہے جب کہ ماہرین نے ایسی ناگہانی صورتحال پیش آنے کی صورت میں فوری طور پر بچاؤ کی چند مفید تجاویز دی ہیں۔کتے کے کاٹنے کے بعد اس کے لعاب میں موجود ریبیز وائرس انسان کے لئے جان لیوا ہوسکتا ہے، اس لئے سگ گزیدگی یعنی کتے کے کاٹنے کا واقعہ پیش آنے کے بعد اینٹی ریبیز ویکسین لگانا ضروری ہوتا ہے۔ریبیز نامی وائرس پاگل کتے میں موجود ہوتا ہے لیکن اگر ایسی صورتحال کا سامنا ہو تو اس سوچ بچار میں وقت ضائع کرنے کے بجائے کے وہ پاگل تھا یا نہیں پہلی فرصت میں قریبی سرکاری ہسپتال پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔تمام ترخامیوں کے باوجود سرکاری اسپتالوں کا عملہ نجی اسپتالوں کے عملے سے زیادہ ایسی صورتحال سے بہتر طریقے سے نمٹ سکتا ہے، کیونکہ سرکاری اسپتالوں میں روزانہ ایسے لاتعداد کیسز لائے جاتے ہیں۔ہسپتال دور ہے تو صابن اور بہتے پانی سے دس پندرہ منٹ تک اچھی طرح زخم کو دھوئیں لیکن پٹی مت باندھیں،اس کے لیے کوئی بھی صابن استعمال کیا جاسکتا ہے تاہم اگر جراثیم کش صابن موجود ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ماہرین کے مطابق ایسے افراد جنہیں کتا کاٹ لے انہیں چاہیے کہ وہ ٹوٹکے نہ استعمال کریں، زخم پر نمک اور لال مرچ چھڑک کر دھاگے باندھنے سے انفیکشن ہو سکتا ہے۔ایسی صورتحال میں خاطر خواہ تسلی رکھیں کیونکہ اب 14 ٹیکے لگوانے کا دور گزر گیا بلکہ اب جدید علاج کے تحت ایک ماہ میں 5 ٹیکوں کا کورس کروایا جاتا ہے۔ پالتو کتوں کی ویکسینیشن بھی ریبیز کے وائرس سے بچاؤ کا ایک اہم ذریعہ ہوسکتی ہے۔ کتوں کے کاٹنے کے واقعات میں تیزی آنے کا سبب محکمہ صحت اور بلدیہ کی جانب سے باقاعدہ اور وقتاً فوقتاً کتا مار مہم کا آغاز نہ کرنا ہے اگر انتظامیہ کی سستی برقرار رہی تو ان واقعات کے وقوع پذیر ہونے میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ جس میں خدانخواستہ کسی کی جان چلی گئی تو اسکی تمام تر ذمہ داری ان اداروں پر عائد ہو گی جو شہر اور گردونواح میں کتوں کی تلفی کے ذمہ دار ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مسئلہ پر سیاست کرنے کی بجائے آوارہ کتوں کی تلفی کا عمل جلد از جلد شروع کرتے ہوئے شہریوں کی زندگیوں کو محفوظ بنایا جائے۔

Mehr Iqbal Anjum
About the Author: Mehr Iqbal Anjum Read More Articles by Mehr Iqbal Anjum: 101 Articles with 62804 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.