نسل نو کی تعلیم و ترقی :مواقع اور امکانات

کسی بھی قوم کی ترقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ اس قوم میں کتنے خواندہ افراد ہیں، کتنے ڈاکٹرس، انجینئرس، وکیل، سائنس داں، ماہرین تعلیم ، تکنکی ماہرین، کتنے موجد، کتنے صنعت کار اور کتنے حقیقی رہنما ہیں۔ اس سے اس قوم کے وزن اور ویژن کا پتہ چلتا ہے اوراسی سے اس قوم کا معیار طے کیا جاتا ہے ۔مسلمانوں کی مجموعی صورت حال کاجائزہ لیں تو ان تمام شعبوں میں ان کا میدان یا تو خالی ہے اور اگر ہے بھی تو قابل ذکر نہیں ہے۔ کسی بھی قوم وملت کے لیے اپنی آنے والی نئی نسل کی تعمیر و ترقی اور انہیں علم و ہنر اور فکر وفن سے آراستہ کرنے کے لئے مراکز، تعلیمی ادارے، دانش گاہوں کا ہونا لازمی ہے جو اس قوم کو ، تمام تر جدو جہد کے لئے تیار کرسکیں جو انسانی سماج اپنی خانگی اکائیوں سے لے کر سماجی کار کردگیوں تک میں اپنے اسی نصب العین کے لیے کوشاں ر ہے۔انسانی سماج کا ہرفرد اپنی پوری زندگی اپنی اولاد کے روشن مستقبل کے لیے خود شمع کی مانند جلتارہتا ہے حتی کہ اپنی زندگی ان کے تابناک مستقبل کی نذر کردیتا ہے لیکن کامیابی اسی وقت ملے گی جب قوم کے پاس اپنے تعلیمی ادارے، دانش گاہیں، فنی مراکز ،تکنکی ادارے اور تربیت دینے والے ماہر ہوں گے۔

زیر نظر مضمون میں ہم امت مسلمہ ہند کی موجودہ تعلیم وترقی کی پسماندگی کی صورتحال کے وجوہ اسباب پر ایک سر سری جائزہ کے ساتھ ساتھ مستقبل میں بہتر مواقع اور امکانات اور مطلوبہ اقدامات کو زیر بحث لانا چاہتے ہیں ساتھ ہی میسرمواقع سے امت کو بھرپور طریقے سے فائدہ پہونچانے کے لیے ملی سطح پر ضروری منصوبہ بندی کی جانب بھی توجہ مبذول کرانے کوشش کریں گے۔اگر ہم نسل نو کی موجودہ تعلیمی صورتحال کا جائزہ لیں تو ایک مایوس کن صورتحال ہمارے سامنے آتی ہے۔تعلیم سے متعلق تمام جائزے اور سروے خواہ وہ حکومت کے ذریعہ کرائے گئے ہوں یا عالمی اداروں کے زیر نگرانی ہوئے ہوں ، وہ سارے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی پر شاہد و عادل کی حیثیت رکھتے ہیں بلکہ بعض رپورٹوں کے مطابق مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی شیڈول کاسٹ شیڈول ٹرائب سے بھی ابتر ہوئی ہے۔یہ اس امت کا حال ہے جس کے درمیان نازل کتا ب اقراء یعنی ’’پڑھ ‘‘سے شروع ہوتی ہے اور جن کے پیغمبر ﷺنے انسانی تاریخ میں پہلی بار ماں کی گود سے لے کر قبر تک تک علم حاصل کرنے کا سبق دیا ہے۔ بہر حال اس موضوع پر پھر کبھی ؛سر دست ہم مسلمانوں پر تعلیمی سروے رپورٹ اور جائزوں پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں۔

پلاننگ کمیشن کی تشکیل کردہ ایک جائزہ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق دیہی علاقوں میں تقریباًپچاس فیصد اور شہری علاقوں میں تقریباًپچیس فیصد بچے ناخواندہ رہ جاتے ہیں یعنی ان کو سرے سے اسکول جانے کی توفیق ہی نہیں ہو تی یا کسی سبب سے نہیں جاپاتے۔سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری کی سطح پر یہ صوتحال بالترتیب پندرہ فیصد اور پانچ فیصد جبکہ گریجویشن کی سطح تک تین یا چار فیصد ہی پہونچ پاتے ہیں۔ 2001 میں مذہبی بنیادوں پر کرائے گئے ایک سرکاری سروے کے مطابق مسلمانوں میں شرح خواندگی پچپن فیصد ہے جبکہ مسلم خواتین میں یہ شرح گھٹ کر چودہ فیصد رہ جاتی ہے حالانکہ دوسرے مذاہب میں خواتین کی تعلیم کی شرح چھیالیس فیصد ہے ملک بھر میں لیٹریسی کی بڑھتی ہوئی رفتار چوہتر فیصد ہے جبکہ مسلمانوں میں یہ رفتار محض پندرہ فیصد ہے۔ان جائزوں سے جو حقیقت سامنے آتی ہے وہ یہ کہ سو میں سے پچاس بچوں کو مکتب یا پرائمری اسکول کی بھی توفیق نہیں ہوپاتی اور سیکنڈری میں سو میں سے صرف پندرہ بچے پہنچتے ہیں اور ہائر سیکنڈری میں صرف پانچ بچے جبکہ گریجویشن کی سطح پرسو میں صرف تین بچے پہنچ پاتے ہیں۔ماسٹر ڈگری اور پی ایچ ڈی کی سطح پر مسلمانوں کا کیا حال ہو گا یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔تعلیمی پسماندگی کے بعد معاشی پسماندگی بھی ملاحظہ ہو۔2011کی مردم شماری کی بنیاد پر تیار کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں بھکاریوں کی تعداد تین لاکھ ستر ہزار کے قریب ہے جن میں پچیس فیصد مسلمان ہیں یعنی ہر چوتھا بھکاری مسلمان ہے ،اسی رپورٹ کے مطابق ان مسلمان بھکاریوں میں مردوں کی بہ نسبت خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔

مذکورہ بالا اعداد و شمار پر ایک عرصہ گذرچکا ہے اس لیے بجا طور پر یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اب صور تحال پہلے کی بہ نسبت بہتر ہوئی ہوگی لیکن اس بہتری کے باوجودصورتحال نا گفتہ بہ کے دائرے کے اندر ہی ہے جس کا مشاہدہ ہم کھلی آنکھوں کر سکتے ہیں اور کر رہے ہیں۔میں ذاتی طور پر سروے اور جائزوں سے بالکلیہ اتفاق نہیں کرتا کیونکہ ان کا معیار’اندازہ پنج ڈیڑھ سو‘ والا ہو تا ہے۔ شہروں میں انتہائی پسماندہ جھگیوں اور جھوپڑ پٹیوں کی لق ودق آبادی اور دور دراز اندرونی علاقوں کی دیہی آبادی میں مسلمانوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو تعلیم سے مکمل محروم ہو تی ہے۔مسلم خواتین جو یقیناً مسلم آبادی کا نصف حصہ ہیں مسلمانوں کی اکثریت ان کی تعلیم کو فساد کا موجب سمجھتی ہے۔ ایسے میں اعدادو شمار سے جو صورتحال ظاہر ہو رہی ہے وہ زیادہ ہو سکتی ہے۔

مسلمانوں میں کسی چیز کو عروج حاصل ہو نہ ہو لیکن پسماندگی کوزندگی کے ہر شعبے میں انہیں عروج حاصل ہے۔تعلیم ،معیشت ،سرکاری وغیر سرکاری ملازمت ،سیاست ہر جگہ پسماندگی اور مسلمان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس پسماندگی کی وجوہات اور اسباب پر اگر مادی نقطہ نظر سے غور کیا جائے تو یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کو جمہوریت تلے دبا کر رکھا گیا لیکن میں اس وجہ کو وجہ نہیں مانتا کیوں کہ مخالف لہریں کامیاب اس وقت ہوتی ہیں جب اپنے اندر بھی کمزوری ہو۔اگر اپنے اندر کمزوری نہ ہو تو یہی مخالف لہریں اونچا اڑانے کے کام آتی ہیں اور بقول شاعر یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے۔

مسلمان اپنے موجودہ حالات سے سخت نالاں ہیں،وہ اس صورت حال سے بہر صورت نکلنا چاہتے ہیں لیکن وہ اس حقیقت کو نصف صدی کے بعد بھی نہ سمجھ سکے کہ جمہوریت ’ دست خودو دہن خویش ‘ یعنی اپنا منہ اپنا ہاتھ یا بالفاظ دیگر’ شیخ اپنی اپنی دیکھ ‘کے اصولوں پر چلتی ہے۔معذرت کے ساتھ یہ کہنا چاہوں گا کہ مسلم قائدین خصوصاً مذہبی قائدین یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے حکمراں طبقے کو ووٹ دے کر نوکر بنا لیا ہے جو اگلے پانچ سالوں تک کامیابیاں تھالیوں اور رکابیوں میں سجا سجا کر ملت کے سامنے پیش کرتے رہیں گے حالانکہ ووٹ زیادہ سے زیادہ موافق حکومت کا سبب بن سکتاہے۔یہ قائدین اپنے خطاب میں مکے لہرا لہرا کر اور پانی پی پی کر حکومت کو کوستے ہیں اور حکومت کے جاری کردہ ان ہزار ہا اسکیموں سے بے خبر ہوتے ہیں جو مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے مختلف شعبوں سے جاری ہو تے ہیں ۔ اگر تمام مسلم قائدین بشمول مذہبی ،سیاسی اور سماجی قیادت کے اپنے جلسے جلوس اور فوٹو سیشن کے ساتھ ایک کام کو اور شامل کرلیں تو انھیں امت کی پسماندگی کا رونا رونے سے بہت حد تک نجات مل جائے گی ،وہ کام یہ ہے کہ وہ اپنے علاقے میں ہونہار طلبہ اور نوجوانوں کی نشاندہی کرکے ان کا ایک’ لیکھا جو کھا‘ تیار کریں پھر حکومت کی جانب سے اور عالمی سطح پر تعلیم اور روزگار کے مواقع اور ان کے طورو طریقوں کی معلومات حاصل کر کے طلبہ اور نوجوانوں کو فراہم کریں۔ اس وقت نسل نو اور مواقع اور امکانات کے درمیان ایک سماجی رہنمائی پل کی اشد ضرورت ہے۔مسلمانوں میں حکومتی اسکیموں اور ملکی وعالمی سطح پر روزگار کے مواقع سے عمومی آگہی کا فقدان ہے۔ یونین پبلک سروس کمیشن اورا سٹیٹ پبلک سروس کمیشن کے لیے مسلم تنظیمیں تھوڑی بہت متحرک ہوئی ہیں اور اسی کے بقدر کامیابی بھی ملی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے علاوہ جو ہزار ہا ہزار عہدے اور مواقع ہر سطح اور صلاحیت کے ہیں وہ کس کے لیے چھوڑ دیے گئے ہیں؟

اس وسیع و عریض ملک میں ملازمتوں کے چھوٹے بڑے مواقع یومیہ پیدا ہو تے ہیں کیا ہمارے ان قائدین میں سے کسی کو بھی اس کا جائزہ لینے اور مسلمانوں میں اس کی اہلیت و رغبت پیدا کرنے کی توفیق ہوئی ہے؟ بہ استثنائے چند جملہ مسلم قائدین ،ہمارے قائدین کوجلسے جلوس ، میڈیا میں اپنی صورت دکھانے اور سیاسی وابستگی سے ذاتی فائدے بٹورنے کے علاوہ کسی اور چیز سے کوئی دلچسپی نہیں ہو تی ہے۔

اس ملک میں اگر مسلمانوں کی تعلیم وترقی کی بات کی جائے تو مواقع اور امکانات کی بھر مار ہے۔اسکول کالج اور دیگر تعلیمی مراکز قائم کرنے کی آزادی ہر ایک کو ہے اور مسلمانوں نے انفرادی سطح پر لاکھوں دینی اور عصری درسگاہیں قائم کر رکھے ہیں اور بہتر پوزیشن کے ساتھ وہ چل بھی رہے ہیں اب اگر مسلمان دینی درسگاہوں کی طرح عصری اور پیشہ ورانہ تعلیمی ادرے قائم کر نا چاہیں اور اس کے لیے متحرک ہوں تو سرکاری ضابطے اور طور طریقے کو سامنے رکھ کر اپنی جدو جہد شروع کر سکتے ہیں جو سیاسی اور سماجی پریشر اور لین دین کی رسم ادائیگی کے بعد یقیناً کامیابی سے ہمکنار ہو گی اور ہو رہی ہے۔حاصل گفتگو یہ ہے کہ مسلم سماج کے اندر تعلیم اور روزگار کے مواقع اور امکانات کے تئیں ایک عمومی آگاہی اور رغبت کی پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے قائدین امت کو مسلم طلبہ اور نوجوانوں اور تعلیم و روزگار کے مواقع اور امکانات کے درمیان پل بننا ہو گا اوربالکل ویسے ہی جد وجہد کرنی ہوگی جیسے کنبہ پروری کے لیے کی جاتی ہے۔
مضمون نگار کریبس گروپ آف ہاسپیٹلس کے چیرمین ہیں۔
 

Muhammad Imtiaz Noorani
About the Author: Muhammad Imtiaz Noorani Read More Articles by Muhammad Imtiaz Noorani: 2 Articles with 1633 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.