استاد ایک ایسی ہستی ہے جس کے بغیر یہ دنیا نامکمل ہے۔
استاد ایک ایسا چراغ ہے جس سے بہت سے دوسرے چراغوں کو کبھی نہ ختم ہونے
والی روشنی ملتی ہے۔ استاد انسان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف
گامزن کرتا ہے استاد ایک ایسا سایہ دار درخت ہے جس کے نیچے بیٹھ کر لاکھوں
افراد علم کی روشنی حاصل کرتے ہیں۔ استاد وہ عظیم ہستی ہے جو ایک جانور اور
انسان کے درمیان فرق پیدا کرتی ہے۔ ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ کوئی
بھی معاشرہ استاد کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا۔ استاد کے بغیر ہر معاشرہ ہمیشہ
تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اللہ تعالی نے بھی حضورِ پاک محمد ﷺ کو بحیثیت
معلم بنا کر بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو تعلیم و تربیت دے کر ترقی کی راہ پر
گامزن کریں۔ اور محمد ﷺ نے اس کام کو بخوبی ایمانداری سے سرانجام دیا جس کی
وجہ سے اسلام کا دائرہ پھیلتا گیا لوگ جوق در جوق اسلام قبول کرنے لگے
کیونکہ استاد ہی ہےجو پیار، محبت، نیکی بدی، سچائی اور اخوت کی پہچان
سکھاتا ہے ۔ استاد ایک ایسا با اخلاق، پر وقار، محبت اور شفقت سے بھرپور
لیڈر اور رہبر ہوتا ہے جس کو لوگ اپنا آئیڈیل سمجھ کراسکی پیروی کرتے ہیں۔
سوچیں! اگر استاد اس دنیا میں نہ ہوتے تو اس دنیا کا کیا حال ہوتا دنیا
ویران اور اندھیرے میں ڈوبی ہوئی ہوتی، جانور اور انسان میں کوئی فرق نہ
ہوتا۔ اگر ہم لوگ دنیا میں دوسرے ممالک کی طرف دیکھیں تو حاکمِ وقت سے
زیادہ ہم استاد کی عزت کو پائیں گے اور ایسا کیوں نہ ہو وہ لوگ ہیں بھی اس
قابل کے ان کی عزت کی جائے۔ استاد کسی قوم کا وہ معمارہوتا ہے جس کے ہاتھ
میں قوم کا مستقبل ہوتا ہے۔ یہ وہی عظیم ہستی ہے جو بتاتی ہے کہ اچھا کیا
ہے، برا کیا ہے، اخلاقیات، مساوات، امن اور بھائی چارے کا درس دیتی ہے۔
کہتے ہیں کہ دنیا میں تین طرح کے باپ ہوتے ہیں ایک وہ جو انسان کو اس دنیا
میں لاتاہے، دوسرا وہ جو اپنی بیٹی دیتا ہے اور تیسرا وہ جو علم سکھاتا ہے۔
ان میں سے تیسرا باب سب سے زیادہ عَظمت رکھتا ہے کیونکہ دنیا میں کسی کو جو
بھی مقام حاصل ہوتا ہے وہ اِسی استاد کی بدولت ہوتا ہے۔ علم پڑھانا سنتِ
نبوی ﷺ ہے۔
ارشاد ہے کہ
"میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں "
لیکن آج جب ہم اپنے معاشرے میں نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ استاد کی
عزت میں دن بدن کمی آتی جا رہی ہے۔ جی ہاں ایک زمانہ ایسا تھا جب لوگ استاد
کی مجلس سے اٹھنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ جہاں استاد کی کہی بات کو آخری
فیصلہ تصور کیا جاتا تھا۔ ایک دور تھا جب البیرونی ،الرازی، ارسطو، افلاطون،
حکیم لقمان، ابن بطوطہ، اشفاق احمد اور بانو قدسیہ آپا جیسے اساتذہ کرام کا
طوطی بولا کرتا تھا۔ لیکن کچھ کم بخت، بد کردار اور تنخواہ کی غرض سے بننے
والے اساتذہ کی وجہ سے استاد کی شان میں کمی آگئی۔ دنیا میں دو لوگوں کی
عزت و احترام ہم پر ہر دور میں لازم ہے۔ ایک ماں باب اور دوسرا اساتذہ کرام
۔ ایک وہ دور تھا جب لوگ اپنی ذات سے زیادہ استاد کا احترام کرتے تھے۔ پر
کچھ لوگ اْستاد کے وقار کا غلط استعمال کرنے لگے۔ کبھی طلبہ کے ساتھ زیادتی
کے کیس میں نام آنے لگا ،کبھی چوری میں،کبھی دہشت گردی میں، کبھی بدعنوانی
میں، تو کبھی رشوت لینے میں۔ مختصر یہ کہ ہر برائی کے اندر استاد کا نام
آنے لگا۔ اب تو ہمارے ملک میں سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں کو ایجوکیشن
کا بہت رواج چلا ہوا ہے۔ طلبا اور طالبات کا اپس کا افئیر تو سمجھ آتا ہے
پر اساتذہ کرام کا طالبات کے ساتھ افیئر میری سمجھ سے بالا تر ہے۔
ایسے واقعات سن کر تو دل جیسے دھک سے رہ جاتا ہے کہ ایک ایسی ہستی اور وہ
پْروَقار رْتبہ حاصل کرنے والا فرد جس کو اسلام نے روحانی باپ کا درجہ دیا
، وہ اپنی انہی بیٹیوں کے ساتھ کس طرح ایسی شرمناک حرکت کرنے کے بارے میں
سوچ سکتا ہے۔ کبھی کسی سکول میں بچوں کے ساتھ زیادتی کا قصہ سننے کو ملتا
ہے، تو کبھی کسی یونیورسٹی کے استاد اور طالبہ کی ویڈیوز اَپ لوڈ ہوئی نظر
آتی ہیں۔ وہ طلبہ اور طالبات کس قدر مجبور، بے بس اور لاچار ہوتے ہیں کہ
بدنامی سے بچنے اور استاد سے فیل کیے جانے کی صورت میں گھر والوں سے سنی
جانے والی باتوں کے ڈر سے اپنا منہ تک نہیں کھولتے اور اگر خدا نہ خواستہ
وہ منہ کھول بھی دیں اور کسی کو بتا بھی دیں تو انہی بچوں کو ڈانٹ دَبک کر
چپ کروا دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ اساتذہ کرام نمبروں کی آڑ میں ہر قسم کا
ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور ہاں اس سے پہلے کہ کوئی شخص مجھ
پر باغی اور استاد سے نفرت کرنے کا الزام لگائے میں یہ بات واضح کردوں کہ
میرا مقصد ہرگزکسی ٹیچر کی تذلیل کرنا نہیں ہے بلکہ ہمارے معاشرے میں پائی
جانے والی ان برائیوں پر روشنی ڈالنا ہے جن کی وجہ سے آج اساتذہ کرام اس
ذلت آمیز زندگی کا شکار ہیں۔ وہ چند افراد استاد کے نام پر دھبے کے سوا کچھ
نہیں۔ افسوس کہ جس شخص نے بچے کو صحیح اور غلط کا بتانا تھا وہ خود غلطی کے
رستے پر نکل پڑا ہے۔ جب سکھانے والا ہی نبی کی بجائے ابوجہل بن جائے، تو
سیکھنے والے تو امن پھیلانے والے صحابہ کی بجائے فساد پھیلانے والے بنے گے
ہی۔ کیا اِن لوگوں کے ضمیر مر چکے ہیں؟ کیا ایسا کرنے والوں کے اپنے بچے
محفوظ ہیں ؟دنیا کا اصول ہے "جیسا کرو گے ویسا بھرو گے"۔ یہ لوگ ایسا کرتے
ہوئے کیوں نہیں سوچتے ؟ کہ اگرآج یہ اِس کْرسی پر بیٹھ کر کسی کے بچوں کے
ساتھ اس طرح کررہے ہیں تو کل ان کے بچوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہونا ہے۔
خدارا! اس پیشہ پیغمبری کا مذاق نہ اڑائیں۔ خدارا !درس گاہوں کو بد نام نہ
کریں۔ خدارا ! استاد کو وہ عزت و احترام دلوائیں جس کا وہ حق رکھتے ہیں۔
خدارا! ایسی حرکتوں سے باز رہیں جن کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو تعلیم
حاصل کرنے کے لئے مدرسوں میں بھیجنے سے ڈریں۔ |