یہ ستمبر 2018 کی بات ہے ابو نےبھائی جان سے عمرہ کرنے کی
خوائش کا اظہارکیا انھیں اور والدہ کو عمرہ کرنے بھیج دیا جائیں۔ کچھ رشتے
داروں کے ذریعے سے ٹریول ایجنٹ سے بات ہوئی انہوں نے پاسپورٹ جمع کروانے کا
کہا جب دیکھا تو امی کا پاسپورٹ expire ہو چکا تھا تو مجھے ابو نے امی کا
پاسپورٹ بنوانے کا کہا ۔ میں نے ابو سے کہا آپ لوگ مجھے اکیلا چھوڑ کر کیوں
جا رہےمجھے بھی اپنے ساتھ لےچلیں پہلے ابو نے کچھ سوچا اور پھر کہا ٹھیک
اگر 15 دن میں تم اپنے ڈوکمنٹس پورے کر سکتی ہو تو چلوھمارےساتھ بس پھر
اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ۔۔۔۔
ذاتی طور پر میں ایک مکمل دنیادار انسان تھی اور بمشکل جمعہ ہی کی نماز پڑھ
لیا کرتی تھی روزے بھی بامشکل ہی پورے ہوتے تھے ایسے میں حج اور عمرے کے
بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں تھا لیکن ابو اور امی کی خواہش کو دیکھتے ہوۓ
مجھے بھی عمرہ کرنے کی خوائش ہوئی۔ لہذا سفر کے لئے اپنے ٹریول ایجنٹ سے
معلومات حاصل کیں ایک رشتے دار کی مدد سے اس کا بآسانی انتظام ہوگیا چنانچہ
ہم سب کی عمرہ پر جانے کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔
میں ابو اور امی عمرے پر جارہے ہیں تو سب نے مبارکباد دی۔ امی ابو کی خوشی
دیدنی تھی۔ جانے میں چند دن باقی تھے گھر والے اصرار کرتے رہیں کہ عمرے پر
جا رہی ہو اب تو نماز کی پابندی کرلو اور میں ٹال جاتی۔
روانگی کا دن آن پہنچا۔16 اکتوبر جمعے کا دن تھا فجر کا وقت تھا ہم نے
احرام باندھا اور روانگی سے پہلے ایئر پورٹ پر دورکعت نفل ادا کیے جہاز میں
جب میں ابو امی سوار ہوئے تو صبح کے کوئی 8 بجے کا وقت ہوگیا تھا ہم نے
لبیک اللہ ہمہ لبیک کا ورد شروع کردیا۔ ایک عجیب سے کیفیت اور ایک انجانے
احساس نے مجھے اپنے اندر جذب کرلیا۔ یہی سوال خود سے کرتی رہی کیا واقعی
میں عمرے کی سعادت حاصل کرنے جارہی ہوں وہ بھی ماں باپ کے ساتھ کبھی آنکھیں
نمناک ہوجاتیں اور کبھی ایک بے یقینی کا احساس اور کبھی ایک انجانی خوشی۔
ان احساسات میں وقت کا پتہ ہی نہیں چلا کہ کب جہاز جدہ ایرپورٹ پر اتر گیا۔
جدّہ ائیرپورٹ پر فنگر پرنٹ نا آنے کی وجہہ سے امی کو روک کر مجھے اور ابو
کو کلیر کر دیا امی نے تو رونا سٹارٹ کر دیا پھر ہم کو ایک بڑے افسر کے پاس
بھیج دیا گیا اس افسر نے جب امی کو روتے دیکھا تو اس نے خاموشی سے پاسپورٹ
پراسٹیمپ لگا کر انھیں کلیر کر دیا اور ہم نےاللہ پاک کا شکر ادا کرتے
ہوئے سوئے کعبہ کو روانہ ہوئے امی ابو کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور
ہونٹوں پر تلبیہ و تلاوت۔ ادھر میں ایک عجیب سی کیفیت کا شکار تھی کچھ بے
یقینی اور کچھ ازطراب اور لبوں سے نکلتی ہوئی الھم لبیک کا ورد کبھی باآواز
بلند اور کبھی زیر لب جس میں دوسرے بھی ہمنوا ہوجاتے تو ایک سماں بندھ
جاتا۔ جب دور سے مکہ روڈ پر رحل پر رکھا قرآن نظر آیا تو سارے جسم میں
سنسنی دوڑگئی۔ تصاویر میں بارہا دیکھا تھا اور آج اسی شاہراہ پر اسی رحل کے
نیچے سے ہم گزرہے تھے۔
ہماری گاڑی بیت اللہ کی طرف تیزی سے رواں دواں تھی۔ کچھ دیر بعد ہم مکہ کے
مضافات میں داخل ہوگئے اور پھر یکایک دور سے کعبے کے مینار نظر آنے لگے۔
کلاک ٹاور کو دیکھ کر ابو نے کہا ” ہم کعبہ پہنچ گئے“ یہ سن کر ہم سب کی
آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے لبیک کا ورد لڑکھڑانے لگا۔
حرم قریب ہی تھا اور حرم میں جمعے کی جماعت ادا کی جا رہی تھی اور صفیں روڈ
تک تھیں جس کی وجہہ سے گاڑی آگے نہیں جانے دی جا رہی تھی اور گاڑی والے نے
ہم کو حرم سے دور اتار دیا تھا ہوٹل ڈھونڈنے میں جو پریشانی ہوئی وہ اپنی
جگہ پھر کوئی مکّہ کی گلیوں میں 2 گھنٹے گھومنے پھرنے کے بعد اپنے مطلوبہ
ہوٹل پہنچے۔ بس آدھا گھنٹہ ہوٹل میں آرام کیا سامان وغیرہ ایسی چھوڑ کر
اللہ کا گھر دیکھنے عمرہ کرنے کے لئے نکلے۔
5 منٹس کی واک کے بعد باب عبدالعزیز کے پاس پہنچ گئے۔ سامنے بیت اللہ کے
مینارے تھے میں اور ابو، امی کا ہاتھ تھامے بوجھل قدموں سے آگے بڑھتے رہے
یہاں تک کہ حرم شریف کی بیرونی عمارت میں داخل ہوگئے۔ نگاہیں نیچی کیے، بدن
پر لرزہ طاری اور ایک غیر یقینی کی سی کیفیت۔ قدم من من بھر کے محسوس ہورہے
تھے۔ وہ ساری باتیں اور من گھڑت روایتیں ذہن میں کلبلا رہی تھیں کہ گناہگار
تو بیت اللہ کے قریب جا ہی نہیں پائے گا۔ کسی نے بتایا تھا کہ سامنے آگ کے
شعلے آجاتے ہیں وغیرہ وغیرہ اور کسی نے یہ بھی نوید سنائی کہ کعبہ پر پہلی
نظر پڑتے ہی جو دعا کی جائے وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔
خوف سے لرزہ طاری تھا کہ مجھ عاصی بندی کے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے
لیکن دل میں کہیں ایک اطمینان بھی تھا کہ جب یہاں تک کے معاملات میں اللہ
پاک نے مدد کی ہے تو یقیناً حاضری لگ جائے گی اور میں نے امی کا ہاتھ کس کر
اپنے ہاتھ میں تھام لیا یونہی لڑکھڑاتے قدموں آگے بڑھتے رہے کہ اچانک صحن
میں ایک کالے رنگ کے غلاف میں لپٹی ایک چوکور عمارت ستونوں کے درمیان
دکھائی دی۔ اور پھر پتہ نہیں۔ صرف سسکیاں اور بہتے ہوئے آنسو۔ ابو امی بہت
رو رو کر دعائیں کر رہے تھے اور میں ستون تھامے ہچکیوں میں اتنا ہی کہ پائی
کہ ” اے رب کریم تو نے اس گنہگار کو بھی اس قابل جانا اور اس اعزاز سے
نوازا کہ اپنے در پر بلالیا ”۔ بے شک تو رحیم بھی ہے اور کریم بھی کہ ہم
جیسوں کو بھی نہیں دھتکارتا۔ حالت کچھ سنبھلی تو ایک جگہ کعبہ کے سامنے
بیٹھ کر دعائیں کرنے لگے۔
عصر کی نماز پہلی نماز تھی جو حرم میں ادا کی۔ پھر
میں نے امی ابو کو عمرہ کا طریقہ بتایا اور حجر اسود کے اس مقام تک ہم ساتھ
چلیں جہاں سے طواف شروع کرنا تھا۔ ان دنوں اتنا رش نہیں ہوا کرتا تھا۔ پہلا
چکر شروع ہوا اور جو دل کی باتیں تھیں سب زبان پر آگئیں نہ مسنون دعائیں
یاد رہیں اور نہ ہی وہ کتاب جس میں ہر چکر کی دعا ئیں درج تھیں بس نگاہیں
کعبے پر لبوں پر استغفار اور آنکھوں سے آنسو رواں اس یقین کے ساتھ کے وہ
عرش عظیم سے سب دیکھ بھی رہا ہے اور سن بھی رہا ہے وہ لطیف الخبیر بھی ہے
اور سمیع الدعا بھی ہے۔ ہر چکر میں کوشش رہی کہ کسے طرع کعبے کے قریب سے
قریب تر ہوجائیں۔ امی کو میں نے اور ابو نے اپنے حصار میں لیا ہوا کہی کوئی
دھکا نا لگ جائیں پہلے ہی سفر اور پھر ہوٹل ڈھونڈنے کی وجہہ سے وہ بہت مشکل
سے چل رہی تھیں
ہم حالت احرام میں ہونے کی وجہ سے کعبہ نہیں چھو رہے تھے۔ اور جب کے دل مچل
رہا تھا کے جاؤ اور کعبے سے لپٹ جاؤ ۔اسی کیفیت میں سات چکر پورے کیے اس کے
بعد روایت کے مطابق آب زم زم خوب جی بھر کے پیا اور سارے جسم پر لگایا۔
مقام ابراہیم پر نفل ادا کیں اور سعی کے مقام پر پہنچے۔ سعی شروع کی امی کو
بہت مشکل ہو رہی تھی چلنےمیں مگر امی بضد تھی کے وہ پہلا عمرہ مکمل خود
اپنے پیروں پر کریں گی۔زبان پر مختلف دعائیں نگاہوں میں وہ ماں جو اپنے شیر
خوار بچے کی پیاس سے بے خود ہوکر دیوانہ وار اسی بے آب و گیا مقام پر دوڑتی
پھرہی تھی۔ ادھر امی کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں تھے اور زبان پر شکر کے
کلمات۔ ہم دونوں کے لئے ایک نیا تجربہ اور وہ کیفیت تھی جو الفاظ میں بیان
کرنا ممکن نہیں۔ ابوطواف کے بعد کہی نظر نہیں آ رہے تھے وہ رش میں کہی کھو
گئے تھے ۔ میں اور امی نے ساتویں چکر کے اختتام پر عمرہ مکمل کیا میں نے
ایک عورت سے اپنے بالوں کی ایک لٹ کٹوائی والدہ کے بالوں کی ایک لٹ کاٹی
گئی اور پھر وہیں دو رکعت شکرانہ ہم نے ادا کی۔ ایک دوسرے کو مبارکباد دی
گئیں اور ایک بار پھر تشکر کے آنسو ہماری آنکھوں سے رواں ہوگئے۔
پھر ہوٹل کی طرف واپسی اور ایک دفعہ پھر ہوٹل کو ڈھونڈا گیا امی کی حالت اب
بہت حد تک غیر ہو چکی تھی اور بڑی مشکلوں کے بعد پوچھتے پوچھتے ہوٹل تک
آیئں وہاں ابو ہمارا انتظار کر رہے تھے جو ہم کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہوٹل آ
گئے تھے۔
دوسرے دن فجر کے لئے نکلے نماز کے بعد آخر موقع مل گیا اور ہم کعبہ سے لپٹ
گئے۔ امی کو میں نے اپنے آگے رکھا تاکہ ہجوم کی دھکم پیل سے محفوظ رہیں۔
غلاف کعبہ کو ہاتھ لگاتے ہی سارے جسم میں ایک بجلی سی کوندگئی۔ اس مہکتے
ہوئے سیاہ غلاف کو آنکھوں سے لگایا اور پھر کچھ یاد نہیں کیا کہا۔ وہ ساری
دعائیں جو بتائی گئیں بھول گئی
بس اتنا یاد ہے کہ ہم کعبے سے لپٹے ہچکیوں سے رورہے تھے اور دل کی گہرائیوں
سے اس رب کریم کی حمد، گناہوں پر استغفار اور اس نعمت عظیم پر شکرانے کے
کلمات تھے۔ یہی وقت تھا جو کہنا ہے کہ لو کہ وہ سب کی سنتا ہے اور کبھی
مایوس نہیں کرتا۔
کچھ دیر بعد ابو نے آہستہ سے پشت پر ہاتھ رکھا اور کہا بس اب دوسروں کو
موقع دیں۔۔ میرا دل ابھی نہیں بھرا تھا۔ خواہش تھی کہ اپنے خاندان
کےمرحومین اور کی طرف سے بھی عمرہ ادا کروں۔ دوسرے دن پھر صبح ہی حرم کے
لئے روانہ ہوگئے۔ 3 روز قیام کے بعد ہم سہ پہر کے وقت رحمتوں کی سرزمین
مدینہ شریف کو روانہ ہوئے۔ جدہ سے نکلنے کے کچھ دیر بعد گاڑی مدینہ روڈ پر
برق رفتاری سے رواں تھی۔ سڑک کے دونوں طرف کالے سیاہ سنگلاخ پہاڑیوں کا
سلسلہ شروع ہوگیا ہمارے لبوں پر درود و سلام جاری رہا اور دماغ کہیں بہت
پہلے ہونے والی ایک ہجرت اور اونٹنی کے اس سفر کی طرف چلاگیا جب نبی کریم
اپنے رفیق کے ہمراہ مکہ سے یثرب کی جانب گامزن تھے کیسا تکلیف دہ سفر رہا
ہوگا کیسی صعوبتیں پیش آئی ہوں گی۔ ہمارا سفر تقریباً پانچ گھنٹے کا تھا۔
مدینہ شریف اب آنے ہی والا تھا۔ دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں۔ یہی کہیں یثرب
کی بچیوں نے ” بدرالعلینا ” دف پر گا کر نبی کریم کا استقبال کیا ہوگا۔
یہیں کہیں معرکہ بدر ہوا ہوگا۔ کفر اور حق کے درمیان پہلا رزم جس میں مکہ
کے متعدد نامور سورما کام آئے۔ کس بے سروسامانی کے عالم میں چند سو
جانثاروں نے اپنے سے کہیں زیادہ طاقتور اور نخوت کے نشے میں بد مست سرداران
مکہ عتبہ، ولید اور شیبا کو سیدنا علی مرتضی حمزہ اور حضرت عبیدہ نے خاک و
خون میں نہلا دیا اورایک دنیا میں ایک نئے انقلاب کا آغاز ہوا۔
دور کہیں عصر کی اذان سنائی دے رہی تھی ”حی علی الفلاح حی علی الفلاح ” اور
ہم مدینہ کے مضافات میں داخل ہو چکے تھے دائیں طرف اندھیروں میں ڈوبی احد
کی پہاڑیاں ذہن پھر تاریخ کے اوراق میں کھو گیا یہیں آس پاس کہیں غزوہ احد
ہوا ہوگا۔ جناب امیر حمزہ کا کلیجہ ایک شقی القلب اور انتقام کی آگ میں
اندھی خاتون سردار مکہ کی بیوی ہندہ نے چبایا تھا انہی میں سے کسی ایک ٹیلے
پر تیر انداز بٹھائے گئے ہوں گے جن کی طمع نے ایک جیتی ہوئی جنگ کو شکست
اور پسپائی سے دوچار کردیا تھاسامنے کچھ فاصلے پر حرم نبوی کے مینارے جگمگا
رہے تھے زباں پر درور و سلام کی ضرب تیز ہوگئی اور آنکھوں سے اشک رواں
تھےامی نے بیتابی سے پوچھا کیا مدینہ آگیا اور میں نے ان کو نوید سنائی کہ
ہم حرم کے قریب ہی ہیں۔ گاڑی نے کئی موڑ کاٹے اور ہمارے بتائے ہوئے ہوٹل پر
ٹھہر گئی۔ تھکن سے برا حال تھا لیکن تمنا تھی کہ کسی طرع جلد از جلد روضہ
اقدس کا دیدار ہوجائے۔ دیر ہوگئی تھی لہذا مناسب یہی جانا کہ پہلے کچھ آرام
کرلیں اور پھر حاضری دی جائے۔وہاں کچھ لوگوں نے خواتین کا ٹائم ظہر کے بعد
کا ہے تو ابو کی حاضری اس دن ہی ہوگئی اور ہماری دوسرے دن ہی ہونا تھی رات
بے چینی سے کچھ سوتے کچھ جاگتے گزری۔دوسرے دن امی کو لے کر حرم کی طرف درور
پڑھتے ہوئے روانہ ہوئے۔ سامنے ایک عجیب منظر تھا مسجد نبوی نور میں نہائی
اور ہرا بھرا گنبد خضرا۔ کیسا روح پرور منظر تھا نور کی بارش ہورہی ہو اور
اس کی ٹھنڈک جسم و جاں تک اترتی ہوتی محسوس ہورہی تھی امی پر بھی رقت طاری
تھی وہ برابر درود و سلام پڑھے جارہی تھیں۔ خواتین کے مخصوص حصے میں آگئے
ابو کو گیٹ نمبر بھی یاد کرادیا جہاں زیارت کے بعد ان کو آنا تھا۔ اپنی خوش
بختی پر ناز کرتی رہی کہ مجھ سے گنہگار کو بھی حضور نے حاضری کے لئے طلب
فرمالیا۔
خواتین کے ساتھ ریاض الجنہ کے قریب پہنچ گئے کہ کسی طرع وہاں دو رکعت نفل
ادا کرسکوں۔ کچھ دیر انتظار کے بعد تھوڑی سی جگہ سبز قالین جو ریاض الجنہ
کی پہچان ہے پر میسر آگئی پہلےامی کو نماز کے لئے کھڑا کیا اور اپنی باری
کا انتظار کرنے لگی کچھ دیر بعد مجھے بھی جگہ مل گئی اور میں اپنی خوش
نصیبی پر جھوم اٹھی۔ نہایت خشوع سے نفل ادکیے۔ ایک عجیب سے کیفیت طاری تھی
جس کے بیان کے لئے الفاظ نہیں۔ نماز کے بعد سب روضہ اقدس کی زیارت کے لئے
بڑھے میں بھی ایک نادم اور شرمسار مجرم کی طرع سرجھکائے نمناک آنکھیں لئے
آگے بڑھتی رہی۔ بائیں جانب روضے کی جالیاں تھیں۔ میرے پاؤں میں لغزش، سر
گناہوں کے بوجھ سے جھکا ہوا آنکھوں سے اشک ندامت رواں اور کانپتے ہونٹوں پے
درود و سلام۔
ڈرتے ڈرتے نگاہیں اٹھائیں تو روضہ مبارک کے سامنے تھا ضبط کے سارے بند ٹوٹ
گئے ہاتھ باندھ کر ایک مجرم کی طرع سر جھکا دیا کہ اے آقا ہم آپ کی پیروی
نہ کرسکے اور آپ کی تعلیمات بھی بھلا بیٹھے ہمارے پاس کہنے کو کچھ بھی تو
نہیں کوئی عذر نہیں کوئی حیلا نہیں۔ بس اعتراف ہے اپنی کوتاہیوں کا اپنی
لغزشوں کا اور التجا ہے آپ کی شفاعت کی جس کے ہم ہرگز لائق تو نہیں لیکن آپ
کی رحمت سے مایوس بھی نہیں ایک بس یہی تو آخری سہارا ہے۔ یکایک شرطہ کی
آواز نے چونکا دیا ” طریق یلہ حاجی طریق ” اور میں اور امی اور بھی ہجوم کے
ریلے کے ساتھ باہر تو آگئی لیکن بہت کچھ وہیں چھوڑ آیئں۔ دل پر ایک ٹھنڈک
کا احساس ضرور تھا کہ شفاعت ضرور ہوجائے گی جبھی تو بلایا ہے۔
دوسرے رات ہی سے موسلا دھار بارش شروع ہوگئی مدینے کی بارش کا کیا ہی حسین
نظارہ تھا بارش میں عشاء کی نماز ادا کی
دوسرے روز مقامات مقدسہ کی زیارت کیں، جنت البقیع اور میدان احد پے فاتحہ
پڑھی۔ پھر 8 روز مدینےمیں قیام کے بعد مکّہ میں ایک دفعہ پھر حاضری ہوئی
ایک عمرہ اور کیا مکّہ سے دوسرے دن روانگی تھی بیٹھے مغرب کی نماز کا
انتظار کر رہے تھے اچانک بارش کا موسم ہوااور شدید بارش۔ بارش میں طواف کا
اپنا ہی لطف ہے اپنے والد کا ہاتھ تھامے مجھ جیسی گناہ گار بندی کو یہ
سعادت نصیب ہوئی پھر میں امی ابو جدہ واپس آکر دوسرے روز شام کی فلائٹ سے
اپنے گھر پہنچے۔
مقام شکر ہے کہ امی ابو کی دیرینہ خواہش پوری ہوئی اور مجھے اس خدمت کا
انعام بھی خوب ملا کہ اس دن کے بعد سے الحمد اللہ میں روزے اور نماز کی
پابند ہوگئی۔ اللہ کرے قیامت تک قائم رہوں۔ جزاک اللہ
نورالصباح۔ کراچی
|