صلح و صفائی اسلام کی نظر میں

فطری طور پر ہر انسان کا اپنا الگ مزاج ہے۔ ہم ہر روز دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں مختلف سطح کے باہمی تعلقات میں نظریاتی اختلافات یا غلط فہمیاں ناچاقی اور چپقلش کا باعث بن جاتی ہیں۔ ایک بات واضح ہے کہ اختلاف وہیں ہوگا جہاں کوئی قریبی تعلق ہو۔ جس سے کچھ لینا دینا ہی نہیں اس سے اختلاف کیسا؟ اکٹھے رہن سہن، لین دین اور باہمی معاملات میں اکثر اوقات غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور یہ غلط فہمیاں بڑھتے بڑھتے نفرت و عداوت، قطع کلامی و قطع تعلقی، دشمنی اور لڑائی جھگڑے، جنگ و جدل، خون خرابے اور قتل و غارت تک جا پہنچتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرے میں فساد شروع ہوجاتا ہے، انسانی نظام زندگی تباہ ہو کر رہ جاتا ہے، حتیٰ کہ خاندانوں کے خاندان اجڑ جاتے ہیں۔ ان سارے فتنوں سے بچاؤ کیلئے اسلام کے نظام اخلاق میں باہمی صلح و صفائی پر بہت زور دیا گیاہے۔احادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ عمل خیر و برکت کا موجب ، خطاؤں اور گناہوں کی مغفرت کا سبب اور دنیوی و اخروی برکات کے حصول کا ذریعہ ہے۔اس کے ساتھ ساتھ راحت وآرام کی زندگی کو یقینی بنا کر جانی و مالی نقصانات سے بچا جاسکتا ہے ۔ہمارے پیارے نبی ﷺ نے صدیوں سے شدید اختلافات اور رنجشوں کے شکار اوس و خزرج کے قبائل کے درمیان صلح کروائی، جس کا بظاہر کوئی امکان ہی نظر نہیں آرہا تھا کیونکہ ان کے سینے بغض و عداوت سے بھرے ہوئے تھے۔ اسی بنا پر ان کے درمیان خونریزی کا لامتناہی سلسلہ سالہاسال سے جاری رہا۔صلح کروانا ہمارے پیارے آقا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے اور اﷲ عزوجل نے قرآن کریم میں صلح کروانے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ پارہ26 سورۃ الحجرات کی آیت نمبر9 میں اﷲ عزوجل کا فرمان عالیشان ہے:(ترجمہ) ’’اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو ان میں صلح کراؤ‘‘۔ اسی طرح احادیث مبارکہ میں صلح کروانے کے بیشمار فضائل بیان ہوئے ہیں چنانچہ حضرت سیدنا اَنس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرورعالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے ’’جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کرائے گا اﷲ عزوجل اس کا معاملہ درست فرما دیگا اور اسے ہر کلمہ بولنے پر ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا اور جب وہ لوٹے گا تو اپنے پچھلے گناہوں سے مغفرت یافتہ ہو کر لوٹے گا‘‘قرآن کریم کے متعدد مقامات پر صلح کی اہمیت و ضرورت، اس کی ترغیب اور خاندانی و معاشرتی نظام زندگی میں اس کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اسے’’خیر‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، اسے ضروری قرار دیا گیا ہے، ایسے لوگوں کی مدح اور تعریف کی گئی ہے جو صلح پسند ہوں۔ حضرت سہل بن سعد رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ اہل قباء کسی معاملے پر باہم جھگڑ پڑے یہاں تک کہ ہاتھا پائی اور ایک دوسرے پر پتھر پھینکنے کی نوبت آگئی۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع کی گئی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کرام ؓ کو فرمایا: ہمارے ساتھ چلو ہم ان کے درمیان ’’صلح صفائی‘‘ کراتے ہیں۔(صحیح بخاری، باب قول الامام لاصحابہ اذھبوا بنا نصلح، حدیث نمبر2693)۔صلح کروانے سے متعلق چند بنیادی باتوں خیال رکھنا ضروری ہے۔ صلح کرانے والے کو چاہیے کہ وہ اخلاص نیت کے ساتھ صلح کرائے۔شہرت، دکھلاوے اور دنیاوی مفادات سے بالاتر ہو کر خالص اﷲ کی رضا کے لیے یہ عمل خیر کرے۔صلح کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کرے جب فریقین صلح کے لیے رضامند ہوں اور ان کا غصہ وغیرہ ٹھنڈا ہوجائے۔صلح کراتے وقت نرم الفاظ اور دھیما لہجہ اختیار کرے اور فریقین کو ان کے عمدہ اوصاف اور خاندانی شرافت یاد دلائے تاکہ وہ ’’صلح صفائی‘‘ کے لیے جلد تیار ہوں۔حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہابنت عقبہ بن ابومعیط بیان کرتی ہیں کہ میں نے آقائے دوجہاں سرورکون ومکاں ﷺکویہ ارشادفرماتے ہوئے سناہے۔کہ وہ شخص جھوٹانہیں ہوتاجولوگوں کے درمیان صلح کروائے اوربھلائی کوپھیلائے اوربھلائی کی بات کرے (متفق علیہ)۔ جو لوگ مختلف گروہوں، قبائل، جماعتوں، عزیز و اقارب، رشتہ داروں اور اﷲ کے بندوں کو قریب کرنے کی کوشش کرتے ہیں اﷲ تعالی انہیں بروز قیامت اپنے قرب خاص سے سرفراز فرمائے گا ۔ بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ آج کا مسلمان صلح و صفائی کی ذمہ داری نبھانے کے بجائے پہلے تو یہ کہہ کر گزرجاتا ہے کہ دوسروں کے معاملات سے ہمیں کیا؟ قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے اگر مسلمانوں کے دو گرو ہ میں آپس میں اختلافات ہو تو مسلمانوں کی یہ اولین اور اہم ترین اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ان کے درمیان صلح کروائیں، دشمنیوں، کدورتوں اور نفرتوں کو محبتوں میں تبدیل کرنے کی حتی الوسع سعی کریں نہ کہ تماش بین بنے رہیں ۔ہمارا دوسرا خطرناک رویہ یہ ہے کہ بجائے صلح و صفائی کے خانگی و دیگر اختلافات میں مزید اضافہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر میاں بیوی، ساس بہو، خسر داماد، بھائی بہن یا دیگر افراد خاندان کے درمیان کسی وجہ سے نااتفاقی ہے تو خاندان کے دیگر افراد پر لازم ہے کہ وہ ناراض رشتہ داروں کے درمیان صلح و صفائی کرائیں۔ لیکن دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے اور ناراض افراد میں مصالحت کروانے کی کوشش کرنے کے بجائے ہم اپنے ذاتی و دنیوی مفادات کے حصول کے لیے ان اختلافات کو مزید طول دینے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ قرآن مجید واضح الفاظ میں ارشاد فرمارہا ہے کہ وہ لوگ ہر قسم کے خوف اور حزن و ملال سے محفوظ رہیں گے جو اپنی اور دیگر افراد کی اصلاح میں مصروف و مشغول رہتے ہیں۔صلح رب کائنات کو بہت پسند ہے اور اس نے اپنے ایک پیغمبر کا نام ہی صالح (علیہ السلام) رکھا ہے۔ جھوٹ ایک قابل مذمت عمل ہے لیکن صلح صفائی کے دوران حکمت سے کام لیتے ہوئے ایک حد تک اس کی بھی اجازت ہے۔حضرت اسماء رضی اﷲ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ تاجدار کائناتﷺ نے فرمایا تین مواقع ایسے ہیں جہاں جھوٹ بولنے کی گنجائش موجود ہے (1)میاں بیوی کے درمیان صلح کے وقت (2) جنگ کے وقت اور (3) لوگوں کے درمیان صلح کرواتے وقت۔ (۔(جامع الترمذی، باب ماجاء فی اصلاح ذات البین، حدیث نمبر 1939) )۔ رب کائنات کو بندہ مومن کا وہ قدم بہت عزیز و محبوب ہے جو وہ انسانوں میں صلح و باہمی تعلقات کی اصلاح کے لیے اٹھتا ہے۔ آج شاید ہی کوئی ایسا خاندان یا گھر ہو جہاں باہمی چپقلش اور اختلافات نہیں۔ ہم میں سے ہر ایک فرض منصبی سمجھتے ہوئے اگر اخلاص نیت سے ان اختلافات کو مٹا کر مصالحت کی کوشش کرے تو کئی گھر اور خاندان جنت نظیر ہو سکتے ہیں۔کئی گھروں میں میاں بیوی کے مابین نوبت طلاق تک جانے سے رک سکتی ہے۔ بہت سے لوگ گالی گلوچ، لڑائی جھگڑے اور ذہنی کوفت سے محفوظ ہو سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ اﷲ تعالی خوش ہوں گے اور ہمیں دین و دنیا کی سعادتوں سے بھی نوازیں گے۔
 

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 218930 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More