عالمی اردو بستی کے یکتا مائیہ ناز ادبی ڈائجسٹ
’’عالمی ادب‘‘ کے بزرگ مدیر جناب نند کشور وکرم اکیسویں صدی کی دوسری دہائی
کے اس ما بعد جدید یت سے نئے عہد کی تخلیقیت تک کے تناظر میں ایک معتبر اور
مستندافسانہ نگار ہیں۔ان کی پہچان اردو ادب میں ایک قابلِ ذکر و فکر ناول
نگار اور موقر ماہنامہ ’’ّآجکل‘‘ دھلی کے نصف صدی تک ایڈیٹر کی حیثیت سے
زبان زد ہے۔ وہ پنجاب کے البیلے افسانہ نگار اور ناول نگار بلونت سنگھ، رتن
سنگھ اور دیویندر اِسّر کے یارِ غار ہیں لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا
سکتا ہے کہ نند کشور وکرم نے اردو ادب میں اپنے منفرد اسلوب ،سنجیدہ
اورمتین افسانوی فکر و فن کی بنا پر اردو فکشن نگاری میں اپنی خصوصی روشن
شناخت قائم کی ہے۔ تقسیمِ ہند اور ہجرت کادردوکرب ان کے سینے میں جذب و
پیوست تھا ۔ انھوں نے اپنی ننگی آنکھوں سے بربریت ، فسادات ، دہشت گردی ،
جلتی ہوئی بستیاں، اجڑتے ہوئے گھر، ٹرین میں زندہ انسانوں کے جلتے ہوئے
منظر اور انسانیت کا بڑی بے رحمی کے ساتھ قتل و خون ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔
زندگی کی تلخ اور بے رحم سچائی کو انھوں نے اپنے افسانوں میں نہایت تخلیقی
بصیرت اور فنی لطافت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ انھوں نے آپ بیتی کو روح ِگدازجگ
بیتی بنا کر پیش کیا ہے۔ نند کشور وکرم نے راشد عزیز کو دیے اپنے ایک
انٹرویو میں اپنے ذاتی المیہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
’’میں راول پنڈی میں پیدا ہوا اور جب میں سترہ اٹھارہ برس کا تھا اس وقت
میں تقسیم ِہند سے چار ماہ پہلے ادھر آ گیا تھا۔کیوں کہ مارچ 1947 میں
وہاں فسادات ہو گئے تھے۔ ان فسادات میں سارے گاؤں جلا دیے گئے تھے۔
لوگوں پردہشت چھا گئی تھی۔ زیادہ ترلوگوں نے اپنی بیوی بچوں کو محفوظ
مقامات پر بھیج دیا تھا۔ میرے بہنوئی دہرہ دون میں آرمی میں تھے لہذا ہم
یہاں
آ گئے۔ میرے والد تقسیم کے دو تین ماہ بعد آئے۔ میں زیادہ تر اپنے ماموں
کے یہاں کانپورمیں ہی رہا کیوں کہ والدہ کا انتقال کافی پہلے ہو گیا تھا۔
میرے
والد کے ادھر آنے کے بعد مجھے DAV کالج انبالہ میں داخلہ مل گیا۔ پھر بقیہ
تعلیم پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی۔ کانپورمیں میں نے اور دیوندر اِسر نے
صحافت کی دنیا میں ایک ساتھ قدم رکھا۔ پہلے ہم نے میلا رام وفا ؔ کے اخبار
میں کام کیا۔ تقسیم کے تعلق سے بہت سی باتیں ایسی ہیں جو میں نے دیکھی ہیں
اور میرے ذہن پر نقش ہو کر رہ گئی ہیں۔ میں نے ہندوؤں کو بھی مرتے ہوئے
دیکھا اور مسلمانوں کو بھی۔میں انبالہ میں میٹرک کا امتحان دینے آیا تھا،
اس
سفر میں اسٹیشن پر میں نے دیکھا کہ سکھوں اور ہندوؤں نے مسلمانوں کو قتل
کیا۔
میرے ساتھی نے شلوار پہنے ہوئی تھی اس لیے ہم بھی شک کے دائرے میں آئے
اور کپڑے اتار کر ہماری شناخت کی گئی۔ ہمارے پاس ہی ایک داڑھی والا مسلمان
بیٹھا تھا، اسے تلوار سے مارا اور چلتی گاڑی میں سے نیچے پھینک دیا گیا۔ آج
تک
وہ چیخیں میرے کانوں میں گونجتی ہیں۔ اس طرح کے دل دہلانے والے بہت
سے واقعات دیکھے،وہ جب بھی مجھے یاد آتے ہیں بڑی تکلیف ہوتی ہے۔‘‘
ان کے تخلیقی سفر کا آغاز دسمبر 1947سے ہوتا ہے جب ان کا پہلا افسانہ
ماہنامہ ’’نرالی دُنیا‘‘ دھلی میں شائع ہواہے۔ نند کشور وکرم کا پہلا
افسانوی مجموعہ ’’آوارہ گرد‘‘1998 میں منظرِ عام پر آتا ہے۔ اس افسانوی
مجموعہ میں کل دس افسانے اور ایک ڈرامہ شامل ہے۔ جن میں خاص طور سے ’’مٹی
کی خوشبو‘‘،’’طول شبِ فراق‘‘، ’’عجیب لڑکی‘‘،’’سرحد پر‘‘،’’سینی ٹوریم کے
دروازے سے‘‘،’’ماضی اورحال‘‘،’’دیوانہ‘‘ اور ’’منزل‘‘ جیسے کامیاب افسانے
اور ایک ڈرامہ ’’آزادی کے بعد‘‘شامل ہے۔ نند کشور وکرم کے پہلے افسانوی
مجموعہ پر اپنے پُر مغز اور معنی خیز خیالات اور تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے
انور سدیدلکھتے ہیں :
’’ نند کشور وکرم کے افسانوں میں اپنا چھوٹا ہوا دیار (راولپنڈی) ایک عجیب
نا ستلجی
کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ لیکن ان کا افسانہ اس وقت زہر رنگ ہو جاتا ہے جب
اس دیار سے نکلے ہوئے کرداروں کو زندگی بار بار کڑیالے سانپ کی طرح ڈسنے
لگتی
ہے۔ نند کشور وکرم کے نزدیک افسانہ محض فن نہیں بلکہ زندگی کا وہ رابطہ ہے
جو ماضی اور
حال کو مستقبل کی کی طرف سفر کرنے کے لیے آگہی عطا کرتا ہے۔ ان کے افسانوں
مین ان کے عہد کی سیاسی معاشی بصیرت متحرک نظر آتی ہے اور انھوں نے اپنے
قاری کو گمراہی سے بچانے کی مثبت کوشش کی ہے۔ اس لحاظ سے ’’آوارہ گرد‘‘ کے
افسانے مقصد بہ کنار ہیں اور نند کشور وکرم ایک مصلح کا کردار ادا کرتے
ہیں۔‘‘
(قومی زبان کراچی، جنوری 2000 (
دوسرا افسانوی مجموعہ ’’آدھا سچ‘‘2007 میں شائع ہوا ہے۔اس افسانوی مجموعہ
میں کل چودہ افسانے اورآخری صفحات میں مصنف کے سوانحی حالات دیے گئے
ہیں۔’آدھا سچ‘‘، ’’آوارہ گرد‘‘،’’انتم پروچن‘‘، ’’ایک پاکستانی کی موت‘‘،
’’خود ندامتی‘‘،’’رشتے کا نام‘‘،’’زمین میں دفن سچائی‘‘، ’’سہما ہوا
آدمی‘‘،’’سینی ٹوریم کے دروازے سے‘‘، ’’طول ِ شبِ فراق‘‘، عجیب
لڑکی‘‘،’’کابلی والاکی واپسی‘‘،’’کاگا سب تن کھائیو‘‘ اور’’مونا لیزا کے
آنسو‘‘ وغیرہ افسانے خاص طور سے شامل ہیں۔ نند کشور وکرم کے افسانوی مجموعی
’’آدھا سچ‘‘ کے چار افسانے ’’آدھا سچ‘‘، ’’ایک پاکستانی کی موت‘‘، ’’زمین
میں دفن سچائی ‘‘ اور ’’کاگا سب تن کھائیو‘‘ کا کینوس بہت وسیع ہے اور وہ
ہندوستان سے لے کر پاکستان تک پھیلا ہوا ہے۔ نند کشور وکرم کی کتاب ’’آدھا
سچ‘‘ ایک ایسے مکمل اور پورے سچ کو اپنے باطن میں سمیٹے ہوئے ہے جس کی
تحسین زندہ ضمیر حضرات ہی کر سکتے ہیں۔ افسانہ نگار کا قلم نہ ہندو ہونا
چاہئے، نہ مسلمان ہونا چاہئے،نہ سکھ ہونا چاہئے،نہ عیسائی ہونا چاہئے اور
نہ ہی علاقائی عصبیت زدہ ہونا چاہئے بلکہ اسے حقیقت اور انسانی جذبوں کا
ترجمان ہونا چاہئے۔جس کی حقیقی اور سچی تصویر نند کشور وکرم کے افسانوں میں
خاص طور سے دیکھی جا سکتی ہے۔ نند کشور وکرم ’’آدھا سچ‘‘ کے فلیپ پر اپنے
خیالات و تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ میں ہی نہیں اس دنیا کے سبھی انسان ’’آدھا سچ‘‘ ہی بولتے رہے ہیں اور
بولتے ہیں۔انسان نے پورا سچ کبھی نہیں بولا۔ وہ اتنا ہی سچ بولتا ہے جس اس
کے مفادات کے مطابق ہو اور جو حقیقت میں سچ نہیں بلکہ آدھا سچ ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ میں قومیں اپنا پکش رکھنے کے لیے جو سچ بولتے ہیں،وہ بھی
’’آدھا سچ‘‘ ہوتا ہے۔والدین، بزرگ، پیر،فقیر، مہاتما گاندھی سبھی آدھا سچ
بولتے ہیں۔ جب دو فریقین میں کسی بات پر تنازع ہوتا ہے تو دونوں اپنا پکش
سچ کہہ کر پیش کرتے ہیں۔ تو ان میں سے کون سچ بول رہا ہے؟ ان میں سے کون
سچا ہے؟کوئی بھی نہیں۔ دونوں اپنے اپنے پکش کو سچ کہہ کر پیش کر رہے ہیں۔
حتیٰ کہ اقوام متحدہ میں بھی قومیں اپنا پکش رکھنے کے لیے جو سچ بولتی ہیں
وہ آدھا سچ ہوتا ہے۔‘‘
نند کشور وکرم کا تیسرا اور آخری افسانوی مجموعہ ’’ادھوری کلیات‘‘2018 میں
منظرِ عام پر آیا ہے۔ اس کتاب میں افسانہ نگار کے تیس افسانے، ایک ڈرامہ
’’آزادی کے بعد‘‘،مصنف کے سوانحی حالات اور اختتامیہ بھی شامل ہیں۔
’’ادھوری کلیات‘‘ افسانوی مجموعہ میں ’’کہانی کی کہانی‘‘،’’کہانی کی
تلاش‘‘،’’آدھا سچ‘‘، ’’آوارہ گرد‘‘،’’انتم پروچن‘‘،’’ایک اور سیتا‘‘،’’ایک
پاکستانی کی موت‘‘،’’بگل والا کامریڈباغی بابا‘‘،’’تعبیر خوابوں
کی‘‘،’’چھجو بھگت‘‘،’’خود ندامتی‘‘،’’دیوانہ‘‘،’’رشتے کا نام‘‘،’’زمین میں
دفن سچائی‘‘،’’سرحد پر‘‘،’’سہما ہوا آدمی‘‘،’’سینی ٹوریم کے دروازے
سے‘‘،’’طولِ شبِ فراق‘‘،’’عجیب لڑکی‘‘، ’’عرس بلّے شاہ‘‘،
’’فائدہ‘‘،’’قدموں سے کھسکتی جنت‘‘،’’قربانی‘‘، ’’کابلی والا کی
واپسی‘‘،’’کاگا سب تن کھائیو‘‘،’’کُتا‘‘،’’ماضی اور حال،’’منزل‘‘،مونا لیزا
کے آنسو‘‘اور ’’وقت کا طوفان‘‘ وغیرہ افسانے مصنف نے پیش کیے ہیں۔’’ادھوری
کلیات ‘‘ کے تمام افسانوں کا موضوع سیاسی، معاشی اور سماجی واقعات و حوادث
ہیں۔ نند کشور وکرم تحریکِ آزادی، تقسیم ملک، اورفرقہ وارانہ فسادات سے
بیحد متاثر نظر آتے ہیں۔ ان افسانوں میں انھوں نے اپنے دور کی تاریخ کو پیش
کیا ہے۔ جو ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب کے فلیپ پر افسانہ نگار
نے اپنے دلی جذبات و احساسات اور خیالات و ٹاثرات کا اظہار نہایت ہی تخلیقی
ہوشمندی اور فنی چابکدستی کے ساتھ پیش کیا ہے:
’’کیا ہم ہمیشہ اسی طرح دشمنی اور نفرت کے ماحول میں زندگی گزارتے رہیں گے؟
کیا ہمارے ملک ایک دوسرے کے تئیں پیار اور امن و آشتی کا اظہار نہیں کریں
گے۔ آج کی سیاست نے ہمیں ایک دوسرے سے بہت دور کر دیا ہے۔ ہم ایک دوسرے سے
آسانی سے مل بھی نہیں سکتے۔ بھائی بہن سے اور ماں بیٹے سے ملنے کو ترستی ہے
لیکن سرحدی پابندیوں نے انھیں الگ تھلگ کر دیا ہے۔‘‘
ان کے افسانے ’’آدھا سچّ‘‘، ’’ایک پاکستانی کی موت‘‘، زمین میں دفن
سچائی‘‘،’’ سہما ہوا آدمی‘‘
اور’’ طولِ شبِ فراق ‘‘میں حّب الوطنی، وطن دوستی ، بھائی چارے کے ساتھ
دہشت گردی کے خلاف احتجاج کی تصویر صاف طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔زندگی کی
تلخ اوربے رحم سچائی کو نند کشور وکرم نے اپنے افسانے ’’آدھا سچ‘‘میں بڑی
بیباکی اور فنی بصیرت کے ساتھ بیان کیا ہے۔’’آدھا سچ ‘‘ ہمارے سماج کا
المیہ ہے ۔اس افسانہ کا مرکزی کردار ایک ہندو بچہ ہے۔ جب وہ پیدا ہوتا ہے
تو اس کے والد نے اس کا نام شری رام رکھا اور اسکول میں داخلے کے وقت اس کے
نام کے ساتھ شرما بھی جوڑ دیا جاتا ہے۔ جس سے اس کی شناخت ہو سکے کہ یہ
لڑکا برہمن ہے۔ ہندوستان میں شناخت کے لیے نام کے ساتھ ورما، شرما،سید،
حسینی اور قریشی لکھنے کی روایت چلی آ رہی ہے۔ یہی بچہ دھیرے دھیرے بڑا
ہوتا ہے اور جب یہ لڑکاساتوں آٹھویں جماعت میں پہنچتا ہے تو اس کو شعر و
شاعری سے رغبت ہوتی ہے تواس نے اپنا تخلص اقبالؔ رکھ لیا اور اقبالؔ
لائلپوری کے نام سے شاعری کرنے لگتا ہے۔ دھیرے دھیرے وقت کی رفتار کے ساتھ
وہ اقبالؔ لائل پوری کے نام سے موسوم ہو جاتا ہے اور لوگ اس کا اصلی نام
شری رام شرما بھول جاتے ہیں۔ایک دفعہ بیساکھی کے میلے میں وہ جاتا ہے۔ وہ
دیکھتا ہے کہ وہاں پرکچھ لوگ اپنے ہاتھ کی پشت پر ’اوم‘،’۷۸۶‘ اور بازوپر
اپنا نام لکھوا رہے تھے۔ وہ لڑکابھی شوق سے اردو میں اپنا نام شری رام شرما
کے بجائے اقبالؔ لائلپوری لکھوا لیتا ہے اور جب لوگ اس کو اقبالؔ لائلپوری
کے نام سے پکارتے ہیں تو اس کا سر فخر سے اونچا ہو جاتا ہے۔تقسیم ہند سے
پیش تر ایک دن جب وہ لاہور کے مسلم علاقے شاہ عالمی گیٹ سے گزر رہا تھا کہ
اچانک فرقہ وارانہ فساد شروع ہو جاتا ہے ۔ ساری دکانیں بند ہو جاتی ہیں اور
لوگ جلدی جلدی محفوظ مقامات کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔ وہ اپنے گھر سے کوسوں دور
تھا اور اندر ہی اندر وہ خوف اور دہشت سے کانپ اٹھا کہ اگر کسی کو بھی اس
کے ہندو ہونے کی بھنک لگ گئی تو اس کی خیریت نہیں۔ وہ جلدی جلدی ڈگ بھرنے
لگا تاکہ وہ ہندو علاقے میں پہنچ جائے لیکن مسلم بلوائیوں نے اچانک اس کو
گھیر لیا۔موت اس کے سامنے نظر آنے لگی۔ وہ لوگ اس سے اس کا نام پوچھتے ہیں
۔وہ اپنا نام اقبال ؔ بتاتا ہے تو بلوائی اس کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ شہادت
کے لیے وہ اپنے بازو پر لکھے ہوئے نام کو دکھاتا ہے۔اسی دوران کلام صاحب
آتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کلام صاحب اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ ہندو ہے
لیکن جب اقبال کو بلوائیوں کے درمیان گھرا ہوا دیکھا تو انھوں نے فوراً
آواز دی ’’ارے اقبال! تم کہاں گھوم رہے ہو گھر چلو۔کلام صاحب اس کو اپنے
گھر لے جاتے ہیں اور ملازم کو آواز دیتے ہیں کہ اس کو بالائی منزل کی
کوٹھری میں بند کردو۔ یہ سنتے ہی اس کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔ تاریک
کوٹھری اس کو پھانسی کی کوٹھری نظر آنے لگی۔ کلام صاحب کا وہی ملازم رات
میں اس کے لیے کھانا لاتا ہے اور جب صبح ہوتی ہے تو کلام صاحب اس کو اپنے
پاس بلاتے ہیں۔ اس کوچائے پلاتے ہوئے کہتے ہیں کرفیو دو گھنٹے کے لیے کھلا
ہے اس لیے میرے ملازم تمہیں ہندو علاقے تک چھوڑ آئیں گے۔ یہ وہی کلام صاحب
ہیں جن کے تازہ ترین ناول پر تبصرہ کرتے وقت اس نے لکھا تھا کہ ایم کلام
ایک ایسی کتیا ہے جو سال میں درجنوں بچے دیتی ہے۔ اس طرح کا غیر اخلاقی اور
اشتعال انگیز تبصرہ چھپنا تھا کہ چاروں طرف اس کے چرچے ہونے لگے۔ جب کلام
صاحب نے یہ تبصرہ پڑھا تو وہ بھی آگ بگولہ ہو گئے اور اپنی بندوق لے کر
ناشر چودھری شوکت علی کی دکان پر پہنچتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’کہاں ہے وہ
تمہارا تبصرہ نگار اقبال لائلپوری؟‘‘ناشر کی منت و سماجت کے بعد ان کا غصہ
ٹھنڈا ہوتا ہے اور وہ اس لڑکے کو معاف کر دیتے ہیں۔
اقبالؔ لائل پوری ہجرت کرکے ہندوستان آ جاتا ہے اور اپنے آپ کو محفوظ
سمجھتا ہے لیکن فسادات اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے ہیں۔ ہندو بلوائی اس کو
چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں ۔ افسانہ نگار نے زندگی کی حقیقت اور بے رحم
سچائی سے پردہ اٹھانے کی کامیاب ترین کوشش کی ہے۔ اس افسانے کا ایک اقتباس
ملاحظہ فرمائیں:
’’کون ہو تم؟‘‘
’’میں۔۔۔میں ہندو ہوں؟‘‘
’’دکھتے تو نہیں ہو‘‘
’’جناب میں سچ کہتا ہوں۔ میں ہندو ہوں‘‘
’’اچھا تو تم ہندو ہو؟‘‘ ایک بلوائی نے اسے شک و شبہ سے دیکھتے ہوئے کہا
’’اچھا تو
تمہارا نام کیا ہے؟
وہ صورت حال سے آگاہ ہو گیا تھا۔ اگر کوئی اور موقع ہوتا تو وہ بڑے فخر سے
کہتا۔’’
اقبالؔ لائلپوری‘‘
لیکن اس وقت تو اسے جان کے لالے پڑے ہوئے تھے اس لیے بڑی سہمی ہوئی آواز
سے اس کی زبان سے نکلا۔
’’شری رام‘‘
’’ابے ’شر ی رام‘ ۔۔۔ ’جے شری رام ‘ کہنے سے کام نہیں چلے گا۔ جلدی سے اپنا
صحیح نام بتا۔
’’جی شری رام شرما‘‘
اچھا تو اب شرما بھی لگا لیا لیکن تم ہندو تو دکھائی نہیں دیتے اور یہ
شلوار۔۔۔۔؟‘‘
جناب شلوار تو ہم بچپن ہی سے پہنتے آ رہے ہیں۔
اس سے پہلے کہ اس سے کوئی اور سوال کیا جاتا۔ اچانک ایک بلوائی کی نظر اس
کے ہاتھ
پر اردو میں لکھے نام پر پڑ گئی۔ اور وہ چیخ اٹھا’’نیتا جی یہ تو مسلمان
ہے۔ اس کے تو ہاتھ
پر اردو میں نام لکھا ہوا ہے۔‘‘
اچھا۔ سالا ’جھوٹ بولتا ہے ‘اور اس کے ساتھ ہی کچھ کہے سنے بغیر ایک بلوائی
نے اپنی تلوار اس کے پیٹ میں گھونپ دی۔
اور اسی اثنا میں پولیس کی گاڑی کا سائرن بج اٹھا۔ گاڑی کو دیکھتے ہی تمام
بلوائی ساتھ
کی گلی میں گھس کر اپنے اپنے گھروں میں جا چھپے۔ پولیس جب موقع واردات پر
پہنچی
تو اس نے وہاں ایک تڑپتی ہوئی لاش کو دیکھا جو ان کے دیکھتے ہی دیکھتے
ٹھنڈی
ہو گئی۔ اس لاش کے ڈیل ڈول اور لباس سے وہ اس جگہ کا باشندہ نظر نہیں آتا
تھا۔ ابھی
وہ الٹ پلٹ کر اسے دیکھ ہی رہے تھے کہ اچانک ایک پولیس والے کی نظر اس کے
ہاتھ
پر کھدے ہوئے اردو نام پر پڑ گئی اور چونکہ ان میں سے کوئی بھی اردو نہیں
جانتا تھا لہذٰا
وہ اس لاش کو اٹھا کر پولیس چوکی لے آئے تاکہ کسی اردو جاننے والے سے اس کا
نام
پڑھوایا جا سکے۔ اور پھردوسرے دن تمام اخبارات میں شہ سرخیوں سے یہ تہلکہ
خیز خبر
شائع ہوئی کہ۔۔۔۔
’’کل شام ایک خطرناک پاکستانی دہشت گرد اقبال پولیس سے مٹھ بھیڑ میں ہلاک
ہو گیا ہے جو پاکستان کے شہر لائلپورحال فیصل آباد کا رہنے والا تھا۔‘‘
نند کشور وکرم کا افسانہ ’’ایک پاکستانی کی موت‘‘ایک کامیاب ترین اور فکر
انگیز افسانہ ہے۔ جس میں افسانہ نگار نے ایک ہندو مہاجر چمن لال کی داستانِ
زندگی کو بڑے ہی خوش ا سلوبی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ پاکستان سے ہجرت کا زخم
کھا کر بھارت آنے والے ایک ہندو مہاجر کی حسرت کا آئینہ ہے۔جس کا جسم تو
ہندوستان مین تھا مگر اس کی روح پاکستان میں تھی اور اس کی زندگی کا صرف
ایک مقصد ہے کہ وہ پاکستان جاکر ایک بار پھر سے اپنے آبائی وطن اور گاؤں کو
دیکھ سکے لیکن اس کی یہ حسرت کبھی پوری نہیں ہوتی ہے اور آخر کار وہ اپنے
گھراور گاؤں دیکھنے کی حسرت دل میں لیے ہوئے دم توڑ دیتا ہے۔ وطن اور گھر
سے دوررہنے کا درد اور کسک سرحد کے دونوں طرف نظر آتا ہے۔ یہ کہانی صرف ایک
چمن لال کی نہیں ہے بلکہ ہزاروں لوگوں کی ہے جو اپنی حسرت دل میں دبائے
ہوئے اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے اور انھیں دوبارہ اپنے وطن لوٹنا نصیب
نہیں ہوا۔چمن لال کو اپنی جنم بھومی پاکستان سے بڑی دلچسپی اور محبت تھی ۔
وہ پاکستان کی خبریں بڑی دلچسپی سے پڑھتا اور سنتا تھا۔ اس کی صرف ایک دلی
خواہش تھی کہ وہ زندگی میں ایک بار اپنی جنم بھومی دیکھ آئے۔وہ اپنی طرف سے
پوری کوشش کرتا ہے لیکن وہ ناکامیاب ہو تا ہے اور مرتے دم تک اس کی یہ
خواہش ادھوری ہی رہتی ہے۔ چمن لال کے کردار کے ذریعہ افسانہ نگار نے
ہندوستان اور پاکستان کے ہزاروں لوگوں کے دلوں کے درد و کرب اور رنج و غم
کو پیش کیا ہے۔اس افسانے کا ایک اقتباس خاطر نشیں ہو:
’’مرنے سے کچھ دن پہلے میں ان کی مزاج پرسی کے لیے گیا تو وہ مایوسی کے
عالم میں بولے۔’’اب وطن دیکھنے کی کوئی امید نہیں رہی۔‘‘تب میری آنکھوں میں
آنسو آ گئے لیکن انھیں روک کر میں نے ان کا حوصلہ بڑھانے کی خاطر انھیں طفل
تسلی دی اورکہا.........
’’آپ فکر نہ کریں۔ آج کی ہی خبر ہے کہ دونوں ممالک کے
وزراء اعظم ملنے والے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان آمد و رفت کی سہولیات
فراہم کرنے کے لیے کوئی مثبت قدم اٹھائیں گے۔اور آپ جلد ہی پنڈی جائیں
گے۔‘‘
لیکن گزشتہ نصف صدی کے تجربات نے انھیں احساس دلا دیا تھا کہ سرحدی قوانین
میں نرمی اور دونوں ممالک میں بنا روک ٹوک آمد و رفت کی باتیں شاید ایک
دیوانے کا خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس لیے وہ میری بات سن کر بولے۔
’’یہ سب دل کے بہلانے کی باتیں ہیں۔ دونوں ممالک کے ارباب
حل و عقد نے کبھی اس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی،اور نہ ہی مستقبل
قریب میں کوئی ایسے آثار نظر آتے ہیں۔ اس لیے شاید مین بھی ان ہزارہا افراد
کی طرح جو اپنی جنم بھومی.....
اپنے مولد کو دیکھنے کی حسرت لئے اس دنیا سے کوچ کر گئے، ایک دن اسی
تمنا...........................اس آرزو کو دل میں لیے میں بھی اس جہانِ
فانی سے کوچ کر جاؤں گا۔......‘‘
اور آج جب ان کے جسدِ خاکی کو نذرِ آتش کرکے ہم لوگ واپس گھر آ گئے
ہیں تو بار بار ان کا یہ فقرہ میرے ذہن میں گونج جاتا ہے.........’’بیٹے
میری کہانی کیوں نہیں لکھتے؟ میری درد بھری کہانی بھی تو لکھو۔‘‘ اور میں
چاہتاہوں کہ کسی نہ کسی طرح ان کی داستان کو قلمبند کروں۔ مگر کیا لکھوں؟
کیسے لکھوں؟ کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ الفاظ قلم کا ساتھ نہیں دیتے حالانکہ میری
دلی خواہش ہے کہ ان کی کہانی کو صفحۂ قرطاس پر بکھیر دوں تاکہ لوگوں کو
معلوم ہو سکے کہ وہ ایک ایسے ہندوستانی تھے جن کا جسم تو ہندوستان میں تھا
مگر روح پاکستان میں.....‘‘
’’زمین میں دفن سچائی میں‘‘ نند کشور وکرم نے ہجرت اور تقسیم ہند کے بعد
پیدا ہونے والے حالات کی حقیقی اور سچی تصویر کشی ہمارے سامنے پیش کی ہے۔
ماسٹر امتیاز احمد پوری زندگی ملک اور قوم کی خدمت کرتے رہے۔ آزادی کے بعد
ہندوستانی حکومت نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں ’’تامرپتر‘‘ اور
پنشن دینے کی پیش کش کی تھی۔ جس کو ماسٹر امتیاز احمد نے قبول نہیں کیا اور
اسے ٹھکرا دیا تھا۔ انھوں نے اپنے جذبات و خیالات اور تاثرات کا اظہار پیش
کرتے ہوئے کہا کہ میں آزادی میں حصہ لینے کی قیمت وصول کرنا نہیں چاہتا
اوروہ ’’تامرپتر‘‘ اس لئے قبول نہیں کرنا چاہتے کیونکہ جو وزیر موصوف
’’تامر پتر‘‘ دیں گے ان کا آزادی سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ایسی
حالت میں مَیں ’’اعتراف خدمت‘‘ لے کر کیا کروں گا۔ جب لوگوں نے ماسٹر
امتیاز احمد کی ان باتوں کو سنا تو لوگوں کو بڑی حیرت ہوئی کیونکہ اس کے
حصول کے لیے بعض افراد جعلی سرٹیفیکٹ تک پیش کرکے اپنا نام مجاہدینِ آزادی
میں شامل کراکر ’’تامر پتر‘‘، پنشن اور دو افراد کا فرسٹ کلاس کا ریلوے پاس
حاصل کر کے زندگی کے مزے لوٹ رہے تھے۔ ماسٹر امتیاز احمد بڑے اصول پرست اور
مستقل مزاج انسان تھے۔ انھیں اصولوں کی خاطر ان کی اپنے بیٹے اقبال احمد سے
کبھی نہیں بنی۔ تقسیمِ ہند کے بعد اقبال احمد اپنی بیوی اور بیٹے نذیر کے
ساتھ پاکستان کے شہر کراچی میں آباد ہو جاتا ہے لیکن ماسٹر امتیاز احمد کو
اپنے وطن کی مٹی بہت عزیز تھی ۔ مرتے دم تک وہ یہیں رہے اور جب وہ شدید
بیمار ہوئے تو ان کے دوست کامریڈ ہیرا لال ان کو مہرولی کے قریب واقع اپنے
آبائی گاؤں لے گئے اور وہیں پر انھیں سپردِ خاک کیا گیا۔ماسٹر امتیاز احمد
کا پوتا اپنے والد کی ڈائری پڑھتا ہے اور دادا سے جذباتی لگاؤ اور احترام
کے جذبے سے سرشار ہو کر کراچی سے ان کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کے لیے دھلی آتا
ہے۔وہ اپنے آبائی حویلی حیدر بخش کی تلاش میں پرانی دھلی کے قریب آتا ہے
لیکن حویلی حیدربخش کا کوئی نشان تک باقی نہ رہا تھا۔ حکیم صاحب سے دریافت
کرنے کے بعد وہ مہرولی کے قریب ہیرا لال کے گھر پہنچتا ہے ۔ جہاں پر اس کی
ملاقات ہیرا لال کے بیٹے سے ہوتی ہے۔ ہیرا لال کا انتقال ہو چکا ہے۔ پرانی
بستی اجڑ چکی کی ہے اور اس کی جگہ نئے نئے مکانات اور نئی نئی کالونی تعمیر
ہو چکی ہے۔ نذیر اپنے دادا کی قبر پر فاتحہ پڑھنا چاھتا ہے۔ وہ ہیرا لال کے
بیٹے سے اصرار کرتا ہے کہ مجھے دادا جان کی قبر پر لے چلو۔ہیرا لال کا بیٹا
نذیر کو لے کے دادا کی قبر کے پاس لے جاتا ہے ۔ جہاں پہنچ کر نذیر کو بڑی
مایوسی ہوتی کیونکہ قبرستان پررہائشی کالونی آباد ہو چکی تھی۔ یہ ہمارے
سماج کا المیہ ہے ،جس کو افسانہ نگار نے اپنے افسانے میں بڑی بیباکی اور
چابکدستی کے ساتھ ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ اس افسانہ کا ایک اقتباس خاطر
نشان ہو:
’’بیٹا ! قدرت کی ستم ظریفی دیکھو۔ آپ ہزاروں میل دور سے اپنے دادا کی قبر
پر فاتحہ پڑھنے کے لئے یہاں آئے ہیں لیکن افسوس کہ میں آپ کی مدد کرنے سے
اپنے آپ کو معذور پا رہا ہوں۔‘‘
’’کیونکہ گزشتہ چند دنوں میں لوگوں نے کھیت تو کھیت قبرستان تک بیچ کر
رہائشی کالونیاں بنا دی ہیں۔اور جہاں ہم بیٹھے ہو ئے ہیں یہ وہی قبرستان ہے
جہاں تمہارے داد اکو سپرد خاک کیا گیا تھا۔‘‘
یہ سن کر نذیر کو کرسی پر بیٹھے ہونے کے باوجود بڑے زور سے چکر سا آ گیا
اور اسے ایسا محسوس ہوا جیسے آسمان بڑی تیزی سے گردش کرنے لگا ہے اور زمین
یک لخت پھٹ گئی ہے اور وہ اس میں دھنستا جا رہا ہے..... دھنستا جا رہا
ہے۔‘‘
نند کشور کا افسانہ’’ کتا‘‘ ایک بے روزگار انسان کی کہانی ہے۔ اس کی بد
نصیبی یہ ہے کہ وہ ایک پڑھا لکھا گریجوئٹ ہے ۔ جو اپنا وطن راو ل پنڈی اور
گھر بار چھوڑ کر تقسیمِ ملک کے بعد ہجرت کرکے ہندوستان آتا ہے۔ وہ آزاد
ہندوستان میں روزی روٹی کی تلاش میں جگہ جگہ مارا مارا پھرتا ہے لیکن اسے
نوکری حاصل نہیں ہوتی ہے۔ وہیں جب اس ملک میں میٹرک فیل کو سفارش اور رشوت
سے نوکری ملتی ہے تو ملک کی آزادی سے اس کو نفرت ہو جاتی ہے۔ وہ خیالوں میں
ڈوب جاتا ہے۔ شام کو تھکا ماندہ وہ گھر پہنچتا ہے اور چارپائی پر ایک لاش
کی مانند گر پڑتا ہے۔ اسی دوران وہ بڑبڑاتے ہوئے آزاد ہندوستان کی حقیقی
اور سچی تصویر بیان کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے :
’’ ہم نے ہندوستان کی آزادی کی قیمت ادا کی۔ ہم نے اس آزادی کی خاطر اپنی
ماتر بھومی، اپنی تہذیب،اپنا تمدن،اپنی جانیں،اپنا رویہ اور اپنی بہو
بیٹیوں کی آبرو تک نچھاور کر دی لیکن ہمیں کیا
ملا؟........بھوک،ننگ،گالیاں،مار پیٹ۔ کیا ہم نے اسی لیے آزادی کے لیے جدو
جہد کی تھی؟ کہ ہم بھوکے پیاسے مریں؟
جس جگہ ہم نوکری کے لیے جائیں ہمیں دھکے دے کر نکال دیا جائے
کیوں نکہ ہم رشوت نہیں دے سکتے ہمارے پاس ڈپٹی کمشنروں اور وزیروں کی سفارش
نہیں.....‘‘
اسی دوران اس کی بیوی نے صبح کی باسی روٹی اور اچار اس کے سامنے رکھ دیا۔
اس کے دل میں یہ خیال آیا کہ وہ روٹی اور اچار کو نالی میں پھینک دے لیکن
چونکہ اس کے پیٹ میں بھوک کے مارے چوہے کود رہے تھے۔ آہستہ آہستہ وہ باسی
روٹی اور اچار کھانے لگتا ہے۔ اچانک اس کی نظر گھر کے سامنے کوٹھی پر پڑی
جہاں سیٹھ جی کا نوکر ایک ماں کی طرح کتےّ’’ موتی ‘‘کو سہلا سہلا کر کھانا
کھلا رہا تھا۔ ’’موتی‘‘ کے سامنے دودھ کا کٹورہ اور گوشت کا برتن پڑا ہوا
تھا مگر وہ اس کی طرف دیکھ بھی نہیں رہا تھا۔ کھانے کی تو بات ہی نہیں اور
ادھر گریجوئٹ پاس بے روزگار انسان باسی سوکھی روٹی اور اچار کھانے کے لیے
بے بس اور لاچار ہے اور آخر کار وہ آسمان کی طرف دیکھتا ہے اور دل ہی دل
میں اپنی لاچاری ،بے بسی ، مجبوری اور المناک زندگی کے بارے میں غور و فکر
کرتے ہوئے کہتا ہے’’......کاش میں سیٹھ جی کا کُتّا ہوتا.........ایک انسان
ہونے کے بجائے۔‘‘
’’کاگا سب تن کھائیو‘‘ افسانے میں افسانہ نگار نے اقدار کی صداقت اور
معاشرے نیز سیاست کے کذب میں جو تضاد ہے اس کو بڑے ہی فنی بصیرت اور بڑی
بیباکی کے ساتھ بے نقاب کیا ہے، جہاں ہندوستانی اور پاکستانی افرادیہ بھول
جاتے ہیں کہ وہ الگ الگ ممالک سے آ تے ہیں ۔بلکہ ایک ہی تہذیب اور ایک ہی
زبان ، ایک ایسے ملبوس اور رہن سہن والے یہ لوگ خندہ پیشانی سے بھائی بہنوں
کی طرح باہم ملتے جلتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ کو غنیمت سمجھتے ہیں۔ اس
افسانے کا ہیرو ہندو نوجوان کرشن گوپال ہے۔ جو کینیڈا کے شہر ٹورنٹو کی کئی
منزلہ عمارت میں اپنے پڑوس میں رہنے والے پاکستانی محمد اشرف سے ملتا ہے۔
تعارف کے بعد رفتہ رفتہ تفرقات کو وہ بھول جاتے ہیں۔نند کشور وکرم کے اس
افسانے میں ڈرامائی عناصر بھی جگہ جگہ کارفرما ہے۔ان کے افسانوں مین داخلیت
کے ساتھ ساتھ خارجیت کا امتزاج متاثر کرتا ہے۔ ان دونوں کے خاندانوں میں
قربت اور یگانگت اس قدر بڑھتی چلی جاتی ہے کہ دونوں افراد ایک دوسرے کے دکھ
،درد،مصیبت، پریشانی اور علالت میں اپنے حقیقی بھائی بہنوں سے بڑھ کر کام
آتے ہیں۔ انسانی رشتے کو نند کشور وکرم نے بڑی خوبی کے ساتھ اپنے اس افسانے
میں بیان ہے۔ ’’کاگا سب تن کھائیو‘‘ سے ایک اقتباس خاطر نشیں ہو:
’’پیارے اشرف ! یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ ڈاکٹروں نے چند دنوں بعد
تمہارے آپریشن کا فیصلہ کیا ہے ا ور جلد ہی تمہاری آنکھوں کی روشنی واپس آ
جائے گی۔ لیکن روشنی آنے کے بعد بھی کئی دن تک تمہیں آرام کی سخت ضرورت
ہوگی۔ اس لیے جب تک تم پوری طرح روبصحت نہ ہو جاؤ آرام کرنا۔اور ہاں! میں
بیان نہیں کر سکتا کہ تمہاری اس بینائی کے واپس آنے پر میں کتنا خوش ہوں۔
تمہیں تو معلوم نہیں کہ ادھر ڈاکٹر بھی میری زندگی سے مایوس ہو چکے ہیں،
حالانکہ کہ وہ اپنی زبان سے کچھ نہیں کہتے مگر ان کے رویے سے ایسا محسوس
ہوتاہے کہ اب میں زیادہ سے زیادہ چند دن کا مہمان ہوں۔لیکن یہ کوئی ایسی
بات نہیں کہ جس پر حیرانی ہو۔ آخرکینسر کا مریض کب تک زندہ رہ سکتا ہے۔ اسے
تو جانا ہی ہے۔ لہذا میں نے ڈاکٹروں سے استدعا کی تھی کہ اگر میں تمہارے
آپریشن سے پہلے مر جاؤں تو وہ مہربانی کرکے میری ڈونیٹ کی گئی آنکھیں تمہیں
لگا دیں۔ اس طرح ایک تو تمہیں نئی آنکھیں مل جائیں گی اور تمہاری بینائی
دوبارہ لوٹ آئے گی۔اور پھر میری برسوں کی یہ حسرت بھی پوری ہو جائے گی کہ
میں ایک بار اپنی جنم بھومی کے درشن کر سکوں۔ وہ جگہیں دیکھ سکوں جہاں میں
نے اپنا بچپن، لڑکپن اور جوانی گزاری تھی مگر افسوس زندگی میں یہ ممکن نہ
ہو پایا، چلو اب میری آنکھیں تمہارے توسط سے وہ سب دیکھ سکیں گی جنہیں
دیکھنے کی خواہش لیے میں اس دنیا سے کوچ کر رہا ہوں۔‘‘
نند کشور وکرم کا افسانہ ’’آوارہ گرد‘‘ ایک افسانہ نگار انور صدیقی کی
معاشی بد حالی کی تصویر کو بیان کرتا ہے۔ اس افسانے کی کہانی انور صدیقی،
نسیم اور انور کی بہن نیلم کے ارد گرد گھومتی ہے۔ انور کا دوست نسیم شاعر
ہے۔ انور ایک پڑھا لکھا نوجوان ہے۔ جسے افسانے لکھنے کا شوق ہے اور عوام اس
کو بڑی عزت اور احترام کی نظر سے دیکھتی ہے۔ لیکن بے روزگاری اور ملازمت نہ
ملنے کی وجہ سے گھر والے اس کو ’’آوارہ گرد‘‘ کے نام سے پکارنے لگتے
ہیں۔فراریت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔اسی دوران انور کی بہن نیلم شدید بیمار
ہو جاتی ہے۔وہ اپنی بیمار بہن کے لیے پیسے نہیں جُٹا پاتا ہے اور آخر کار
اس کی بہن مر جاتی ہے۔ نند کشور وکرم اپنے افسانے ’’آوارہ گرد‘‘ میں سماج
اور معاشرے کے زوال پر نوحہ خواں نظر آتے ہیں۔اس افسانے کا ایک اقتباس
ملاحظہ فرمائیں:
’’اس نے بڑی خوفزدہ نگاہوں سے پردے کے سوراخوں سے اندر کی جانب جھانکا جیسے
کوئی روٹھا ہوا بچہ جب گھر آتا ہے تو ڈرتے ڈرتے اپنے بزرگوں کو پردے کے
پیچھے سے دیکھتا ہے۔ اور پھر آہستہ سے اس نے پردہ اُٹھایااور
پھر........اور پھر.....جیسے گھر میں آئے ہوئے تمام
اعزا و اقارب چلا اُٹھے ۔’’آوارہ گرد.....آوارہ گرد‘‘ مگر وہ ایسا نہیں
چلائے بلکہ اس کے ابا نیلم کے بے جان جسم پر گر کر دہاڑیں مارنے لگے۔ اندر
کمرے میں بیٹھی ہوئی امی اور دوسری عورتیں بھی’’ہائے نیلم۔ ہائے نیلم‘‘ کہہ
کر سر پیٹنے لگیں اور اسے ایسا جان پڑا جیسے وہ نیلم کو نہیں اس کی
بیکاری......اس کی غربت........اس کی
آوارہ گردی کو رو رہے ہیں اور چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں........آوارہ
گرد.......آوارہ گرد.......آوارہ گرد‘‘.........
نند کشور وکرم کا افسانہ ’’خود ندامتی‘‘ بھی مفلسی اور غریبی کی لعنت کی
روداد پیش کرتا ہوانظر آتاہے۔ ہمارے سماج کا یہ المیہ ہے کہ اگر کسی دولت
مند سے کوئی چوک ،غلطی یا زیادتی ہو جائے تو اسے نظرانداز کر دیا جاتا ہے
لیکن اگر کسی غریب اور مجبور انسان سے وہی چوک، غلطی اور زیادتی ہو جائے تو
اسے معاف نہیں کیا جاتا ہے اور کئی بار تو اسے بے گناہ ہوتے ہوئے بھی اسے
سزا دے دی جاتی ہے۔ اس افسانے کی کہانی کیلاش کے ارد گرد گھومتی ہے۔ وہ بہت
ہی نیک اورایماندار ملازمہ ہے ،جو راوی کے یہاں ملازمت کرتی ہے۔ ایک روز وہ
کام پر نہیں آ سکی تو وہ اپنے بیٹے راجو کو کام کرنے کے لیے بھیج دیتی ہے۔
یہ محض ایک اتفاق تھا اور راجو کی بدنصیبی تھی کہ اسی دن راوی کا موبائل گم
ہو جاتا ہے۔ راوی نے اپنی بیوی سرلا سے پوچھا اور پورا گھر چھان مارا اور
جب اس کا موبائل نہیں ملتا ہے تو اس کو اس بات کا پورا یقین ہو جاتا ہے کہ
اس کا موبائل راجو نے ہی چرایا ہے۔ وہ اس کو تھانے دار کے حوالے کر دیتا
ہے، تھانیدار نے کچھ سرزنش اور پوچھ تاچھ کے بعد راجو کو حوالات میں ڈال
دیتا ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد جب ایک کاریگر صوفہ درست کرنے کے لیے قصہ گو کے
یہاں آتا ہے تو صوفہ کے اندر سے موبائل برآمد ہوتا ہے۔ جس پر راوی اپنی
غلطی پر ندامت کا احساس کرتا ہے ۔ لیکن کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوتی ہے
بلکہ راجو کی ماں کیلاش کا یہ جملہ’’صاحب ہم غریب ضرور ہیں پر چور
نہیں...... ہم چور نہیں ‘‘ راوی کے کانو ں میں گونجنے لگتا ہے۔یہ کہانی صرف
کیلاش کی نہیں ہے بلکہ ہندوستان کے ان غریب، مظلوم اور تمام بے گناہ
انسانوں کی داستانِ زندگی ہے۔ جسے افسانہ نگار نے بڑی سنجیدگی اور متانت کے
ساتھ ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔
’’سہما ہوا آدمی‘‘ نند کشور وکرم کا نفسیاتی ، سماجی اور اصلاحی افسانہ ہے۔
اس افسانے کی کہانی شدید محبت کرنے والے دو نوجوان راجن اور رنجنا کی ہے۔
دونوں افراد اپنے خاندان کی اجازت کے بغیر گھر سے بھاگ کر شادی کر لیتے
ہیں۔ جب ان دونوں کی بیٹی ریما جوان ہو جاتی ہے تووہ سہما سہما سا رہتا ہے
اور راجن کو یہ خوف ستانے لگتا ہے کہ کہیں اس کی بیٹی بھی اس کی طرح بھاگ
کر کسی سے شادی نہ کر لے۔ اسی ذہنی اورنفسیاتی دباؤ میں وہ ہمیشہ اداس اور
فکر مند رہنے لگتا ہے۔ بیٹی ریما کے گھر آنے میں جب بھی تاخیر ہوتی تو راجن
کے دل میں تمام طرح کے وسوسے اور خیالات پیدا ہوتے تھے ا۔ اسی سبب سے راجن
کی پریشانیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے اور اس کی پریشانی اور گھبراہٹ اسے
انتشار میں مبتلا کر دیتی تھی۔راجن کی بیوی رنجنا کے لاکھ سمجھانے کا بھی
اس کے اوپر اثر نہ ہوا۔ اسی درمیان رنجنا کے چاچا کی بہن شاردا اپنے شوہر
سچدیو کے ساتھ امریکہ سے ملنے کے لیے راجن کے گھر آتی ہے۔ وہ اپنے لڑکے کے
لیے ریما کو پسند کر لیتے ہیں اور آخر کار ان دونوں کی شادی ہو جاتی ہے۔
ریما کی شادی کے بعد بھی راجن کی فکر میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ مگر کچھ
دنوں کے بعدجب امریکہ سے ڈاکٹر سچدیو فون پر یہ خبر دیتے ہیں کہ ان کی بیٹی
ریما کو بیٹا پیدا ہوا ہے اور آپ نانا بن گئے ہیں۔تب راجن کو اطمینان ہو
جاتا ہے اور وہ پہلی بار گہری نیند سوتا ہے۔افسانہ نگارنے اس افسانے کو بڑے
ہی خوش اسلوبی اور چابکدستی کے ساتھ ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ اس افسانے کا
ایک اقتباس خاطر نشان ہو:
’’اسے یوں فکر و غم میں مبتلا دیکھ رنجنا کو سمجھ نہیں آتا تھا کہ وہ کیا
کرے۔ لاکھ
سمجھانے پر بھی اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ایک دن اسی چنتا میں ڈوبی ہوئی
تھی کہ امریکہ سے ڈاکٹر سچدیو کا فون آیا جسے سن کر اس کی خوشی کی انتہا نہ
رہی۔فون سننے کے بعد اس نے فوراً راجن کو اس کے دفتر فون کیا اور بغیر کوئی
تمہید باندھے کہا۔’’مبارک ہو۔‘‘
’’مبارک ؟ کس بات کی مبارک۔؟
’’ریما کے ہاں بیٹا ہوا ہے۔ آپ نانا بن گئے ہیں۔‘‘
اچانک یہ خبر سن کر اسے صرف اتنا کہا۔’’اچھا گھر آتا ہوں۔‘‘
لیکن جب تک وہ گھر پہنچا تو فون کا زمانہ ہونے کی وجہ سے یہ خبر رشتہ دار
اور
پاس پڑوس میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔ جب وہ گھر پہنچا تو کئی
رشتہ دار اور پڑوسی مبارک باد دینے کے لیے جمع ہو چکے تھے۔ گھر میں خوب
چہل پہل تھی۔ عالمِ مسرت میں رنجنا سب کی خاطر تواضع مٹھائی، کوک
اور چائے سے کر رہی تھی۔ آتے ہی وہ بھی اس کا ہاتھ بٹانے میں مصروف
ہو گیا۔جب رات ہو جانے پر سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تو
رنجنا تھکن سے چور چور ہو چکی تھی۔ رسوئی میں برتنوں کو سنبھالنے کے بعد
اس نے جلدی سے ٹائٹ گاؤن پہنا اور سونے کے لیے اپنے بیڈ روم میں
چلی گئی۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ آج راجن نہ
توجاگ رہا تھا اور نہ ہی ٹیلی ویژن دیکھ رہا تھا بلکہ وہ گہری نیند میں
سویا ہوا تھا اور ا س کے خراٹواں کی آواز سارے کمرے میں گونج رہی تھی۔‘‘
’’کابلی والا کی واپسی‘‘ میں نند کشور وکرم نے امریکہ کے ظلم و تشدد
اورغریب و مظلوم افغانستان اور عراق کی تباہی و بربادی کی تصویر کو بہت ہی
خوبصورتی اور کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس افسانے میں افسانہ نگار نے
بنگلہ زبان کے فکشن نگار گورودیو رابندر ناتھ ٹیگور کی روح سے معذرت کے
ساتھ سپردِ قلم کیا ہے۔ کیونکہ نند کشور وکرم نے ’’کابلی والا‘‘ سے استفادہ
کرتے ہوئے اس کو نئے زاویے کے ساتھ اپنے افسانے میں پیش کیا ہے۔ نند
کشوروکرم نے اپنے افسانے میں ایسے کردار کی کہانی بیان کی ہے جس کا راوی
رابندر ناتھ ٹیگور کے افسانے ’’کابلی والا‘‘ کی منی کا پوتا ہے۔ اس طرح
رابندر ناتھ ٹیگور راوی کے نانا ہیں۔وہ اپنی دادی منی سے ’’کابلی والا‘‘
کہانی کئی دفعہ سن چکا تھا اور اس نے کئی دفعہ اس کہانی کو پڑھا بھی تھا۔
اس کو اپنی دادی منی اور کابلی والا رحمت خاں دونوں بہت عزیز ہیں۔ اس کو
افغانوں سے ایک خاص نسبت اور انسیت ہو جاتی ہے۔راوی جب امریکہ جاتا ہے تو
اس کی ملاقات ایک افغانی ٹیکسی ڈرائیور حشمت خاں سے ہوتی ہے۔ دونوں ایک
دوسرے سے متعارف ہوتے ہیں تو کہانی ایک نیا رخ اختیار کر لیتی ہے۔ راوی
حشمت خاں کو بتاتا ہے کہ اس کی دادی بنگال کی رہنے والی تھیں اور رحمت خاں
نام کا ایک افغانی کابلی پٹھان اس کی دادی کے لیے بادام، پستے،اخروٹ اور
دوسرے خشک میوے لاکر دیتا تھا۔راوی کی باتوں کو سن کر حشمت خان چونک جاتا
ہے اور راوی سے کہتا ہے کہ میں رحمت خاں کا پوتا ہوں۔ رحمت خاں میرے دادا
جان تھے اور ان کا ہی ایک بنگالی سے جھگڑا ہوا تھا۔ جس نے جھوٹ بول کر ان
کا ادھار نہیں چکایا تھا اور پھر کچھ دنوں کے بعد ان کو جیل میں ڈال دیا
گیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد جب وہ جیل سے چھوٹ کر آتے ہیں تو وہ منی کے لیے
میوے،بادام اور اکھروٹ وغیرہ لے کر منی کے گھر جاتے ہیں۔ اس دن منی کی شادی
ہونے والی تھی۔ مگر راوی کے نانا نے رحمت سے ٹال مٹول کی اور کہا کہ کسی
دوسرے دن آنا۔ رحمت خاں ان کو پوٹلی دیتا ہے کہ منی کو دے دیجئے۔ راوی کے
نانا رحمت خاں کو پیسے دیتے ہیں لیکن رحمت خاں لینے سے انکار کر دیتا ہے۔
رحمت خاں کہتا ہے کہ جس طرح آپ کی بیٹی منی ہے اسی طرح کابل میں میری بھی
ایک بیٹی ہے۔ میں اس کا چہرہ یاد کرکے منی کے لیے میوہ لایا ہوں، سودا کرنے
نہیں۔ ان سب باتوں کو سن کر حشمت خاں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے
ہیں۔جب ٹیکسی ڈرائیورحشمت خاں کو اس بات کا علم ہو جاتا ہے کہ ٹیکسی سوار
اس کے دادا رحمت خاں کے حالات سے پوری طرح واقف ہے تو وہ بھی ٹیکسی کا
کرایہ ٹیکسی سوار سے نہیں لیتا ہے اور وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر کہتا ہے کہ
’’نہیں صاحب ! آپ ہمارے بھائی ہیں۔ بھلا ہم آپ سے پیسے کیسے لے سکتے
ہیں؟‘‘ان دونوں میں بے پناہ محبت ہو جاتی ہے اور اکثر حشمت خاں منی کے پوتے
سے ملنے کے لیے اس کے کمرے پر اکثر آیا کرتا تھا اور برابر ملاقاتیں ہونے
لگیں۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد وہ اچانک غائب ہو جاتا ہے۔ منی کا پوتا بے حد
پریشان ہو جاتا ہے۔ اس کی جستجو میں رہتا ہے کہ حشمت خاں سے اس کی ملاقات
ہو جائے۔اچان صبح صبح کسی نے اس کے دروازے پر کال بیل بجائی۔ اس نے دروازہ
کھولا تو دیکھا کہ سامنے حشمت خاں کھڑا ہے۔ اس کو دیکھنے سے ایسا معلوم
ہوتا تھا جیسے وہ صدیو ں سے بیمار ہے۔ وہ اپنی روداد اس کو سناتے ہوئے کہتا
ہے:
’’صاحب ۔کیا بتاؤں۔ ایک رات میں ٹیکسی پر گھر واپس آ رہا تھا کہ یکلخت
پولیس نے راستے میں میری گاڑی روک لی اور مجھ سے کئی طرح کے سوال
پوچھنے لگے۔ تمہارا نام کیا ہے؟ تم اسامہ بن لادن کو جانتے ہو؟ افغانستان
میں تم کہاں رہتے تھے؟ پھر وہ مجھے پولیس اسٹیشن لے گئے اور بالآخر مجھے
جیل میں بند کر دیا گیا۔ میں آج ہی وہاں سے رہا ہو کر آیا ہوں اور اب دو دن
بعد میں واپس اپنے ملک چلا جاؤں گا۔
’’اپنے ملک ؟ افغانسان......؟‘‘
’’جی ہاں‘‘
’’لیکن کیوں؟
’’کیونکہ مجھے تین دن کے اندر اندر ملک چھوڑ دینے کا حکم ہوا ہے اور شائد
یہی
اﷲ کی مرضی ہے۔ ایسے اب یہ ملک اس قابل نہیں رہا کہ مسلمان یہاں رہے۔‘‘
اس طرح اس افسانے میں افسانہ نگار نے کا بلی پٹھان کی سادگی،
ایمانداری،بھولا پن،صداقت، میل جول، بھائی چارہ، انسانیت اور محبت کی حقیقی
اور سچی تصویر بڑی عمدگی کے ساتھ پیش کی ہے۔ حشمت خاں کے کردار کے ذریعہ
افسانہ نگار نے ’’کابلی والا‘‘ کی معصومیت اور انسانیت کو دوبارہ پیش کرنے
کی کامیاب ترین کوشش کی ہے۔افسانہ نگار نے افسوس ظاہر کیا ہے اور پوری دنیا
سے یہ سوال پوچھنے کی کوشش کی ہے کہ آخر کب تک رحمت خاں اور حشمت خاں جیسے
تمام بے گناہ افغانیوں کو اپنے نا کردہ گناہوں کی سزا ملتی رہے گی؟ امریکی
حکومت حشمت خاں کو امریکہ چھوڑنے کا فرمان جاری کرتی ہے۔حشمت خاں کے دل میں
اپنے وطن افغانستان سے بے پناہ محبت ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنے ہم وطنو ں کے
ساتھ مل کر امریکہ سے جنگ کرے۔ امریکی حکومت نے اس کے ملک افغانستان اور
عراق کے ساتھ جو ظلم و ستم ڈھائے ہیں اور اس کے ساتھ جو نا انصافی کی ہے،اس
کا وہ بدلہ لینا چاہتا ہے۔ حشمت خاں کہتا ہے:
’’میرے اس دیس نکالے میں شاید اﷲ کی مرضی شامل ہے۔ شایداﷲ چاہتا ہے کہ میں
اپنے ملک جا کر ودیشی طاقتوں کو ختم کرنے کی دوسرے حب الوطنوں کے ساتھ مل
کر جنگ شروع کروں۔ آج امریکہ نے اقوام متحدہ کے ریزلیوشنوں کو ٹھکرا کرعراق
میں جو دھاندھلی کی ہے، وہ آپ جانتے ہی ہیں۔ اسی طرح افغانستان کی بھی جو
حالت ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ ان لوگوں نے طالبان اور اسامہ بن لادن کو
ختم کرنے کے بہانے اپنی من پسند سرکار کا ہم پر مسلّط کر دی ہے۔ اور میرے
دیش کو امریکی اڈے میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس لیے میں وہاں
جاکر ان بدیشی طاقتوں کو ختم کرنے کی کوشش کروں گا۔ اتنا کہنے کے بعد وہ
یکلخت کھڑا ہو گیا اور رخصت ہونے کے لیے مجھ سے بغل گیر ہو گیا۔ اس وقت اس
کی آنکھوں میں آنسو چھلچھلا رہے تھے اور اس کے قدم من من کے بھاری ہو گئے
تھے۔
وہ مجھے الواداع کہہ کر آہستہ آہستہ چلتا ہوا شام کے اندھیرے میں کھوگیا۔
لیکن اس کے جانے کے بعد بھی میں کئی لمحے دروازے پر کھڑا یہی سوچتا رہا کہ
کیا رحمت اور حشمت کو ہمیشہ ہی نا کردہ گناہوں کی سزا ملتی رہے گی؟؟؟‘‘
نند کشور وکرم نے اپنے تمام افسانوں میں تقسیم ہند کے بعد ہندوستان اور
پاکستان میں ہونے والے فسادات اور لاکھوں ہندوؤوں اور مسلمانوں کے ہجرت کے
دردو کرب اور رنج و غم کی حقیقی تصویر بڑی سنجیدگی اور متانت کے ساتھ بہت
ہی سیدھے سادے اور عام فہم الفاظ میں بیان کیے ہیں۔ ان کے یہاں بناوٹی پن
نظر نہیں آتا ہے ۔وہ اپنی ننگی آنکھوں سے جو دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں
،اس کو اپنے افسانوں میں بڑی سادگی کے ساتھ قلم بند کر دیتے ہیں۔وہ اس بات
پر زور دیتے ہیں کہ ان کے افسانے حقیقی ماحول کی فضا میں تخلیق ہوں اور اس
کا انداز اور اسلوب ایسا دلچسپ اور پُر کشش ہو کہ قاری اس کے سحر میں گُم
ہو جائے اور افسانے کی آخری سطر تک پڑھے نا کہ اسے بیچ میں ہی ادھورا چھوڑ
دے۔ ان کے تمام افسانے حقیقت اور صداقت پر مبنی ہوتے ہیں اور وہ اپنے عہد
کی بے رحم سچائی کی حقیقی تصویر بہت ہی کامیابی کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔انھوں
نے اپنے افسانوں کے ذریعہ ہندوستان اور پاکستان میں انسانیت اور امن و آشتی
کے پیغام کو پھیلانے کی مستحسن کوشش کی ہے۔وہ اپنے ذاتی دکھ، درداور رنج و
الم کی تصویر کو اپنے افسانوں میں جگ بیتی بنا کر پیش کرتے ہیں۔ یہ ہمارے
سماج کا المیہ ہے اور زندگی کی تلخ اور بے رحم سچائی ہے ، جس کے شکار
ہندوستان اور پاکستان دونوں طرف کے معصوم اور مظلوم لوگ ہوئے ہیں۔ مہاجرں
کے درد و غم کو نند کشور وکرم نے بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا ہے، اس کو
جھیلا ہے، اور اس کو انھوں نے اپنے افسانوں میں بڑی بیباکی اور چابکدستی کے
ساتھ پیش کیا ہے۔ جس میں زندگی ہے، تنوع اور وسعت ہے۔ اس بیکراں تخلیقی درد
و کرب اور رنج و غم کا اظہار گلزار جاوید کو دیے ہوئے انٹر ویو میں بڑی
بیباکی سے بیان کیا ہے۔ اس ضمن وہ فرماتے ہیں:
’’میرا خیال ہے مہاجر ادیبوں اور شاعروں کی تحریروں میں بھی اسی درد کی
شدت کا احساس ہے جیسا کہ پنجابی ادیبوں میں ہے۔ اور وہ اس میدان
میں پنجابی ادیبوں سے کسی طرح پیچھے نہیں۔ قرۃالعین حیدر، انتظار حسین،
جمال اختر اور کئی دیگر مہاجر ادیبوں نے اس ضمن میں غیر معمولی کردار
نبھایا
ہے اور ان کی تخلیقات کو پڑھ کر شدت کا پورا احساس ہوتا ہے۔ ‘‘
(فریادِ لوح و قلم نند کشور وکرم،ص 89 )
نند کشور وکرم نے اپنے افسانوں کے ذریعہ اردو ادب میں اپنی ایک خاص جگہ
بنائی ہے۔ ان کے تمام افسانے تاریخ کا ایک حصہ ہیں،جس کو انھوں نے بڑی خوش
اسلوبی اور کامیابی سے بیان کیا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے
کہ انھوں نے اپنی افسانوی نفرادیت کے ذریعہ اردو افسانے کے باب میں گراں
قدر اضافہ کیا ہے۔
|