کالم نگاری کے دشت کی سیاحی میں قدم گرد آلود کرتے بہت
وقت بیتا ۔ اس عرصہ میں مجھے مختلف موضوعات پر کالم لکھنے کا موقع ملا مگر
آج جو میں لکھ رہا ہوں وہ کالم ، کالم نہیں بلکہ ایک ٹوٹے ، بجھے، افسردہ
اور ملول دل کی آواز اور آنکھوں کی رم جھم ہے ۔ اس کالم کو لکھنے کے لیے
میرے دل، دماغ اور سوچ و خیال میں وہ الفاظ نہیں ہیں جو میں اس ہستی کی نذر
کر سکوں۔ پھر بھی ہمت جمع کر کے اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کو جمع کرکے میں
گدڑی کے اس لال کو خراج تٓحسین پیش کرنا چاہتا ہوں جس کی زندگی میں شاید
ہمیں صحیح پہچان نہیں ہو سکی ۔ اس شخصیت پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں جو خود
ایک روشن ستارے کی مانند تھا، اس دوست کی محبت کا قرض اتارنے کی کوشش کر
رہا ہوں جس نے ہمیں بھائی کی طرح پیار دیا اور ایک ایسے انسان کوسلام پیش
کرنا چاہتا ہوں کہ وہ جس سے ملتا اسی کو اپنی محبت کا گرویدہ بنا لیتا تھا۔
دوستی کا جذبہ ایک بہت پاک اور شفاف جذبہ ہے۔ اس سے انسانوں کے درمیان ایک
دوسرے کو جاننے ، سمجھنے اور ایک دوسرے کے لیے جینے مرنے کی راہیں ہموار
ہوتی ہیں۔پر خلوص دوستی ایک ایسا رشتہ ہے جو کسی سے بھی ہو سکتا ہے۔ خون کے
رشتوں سے لے کر غیروں تک بھی دوستی کا رشتہ قائم ہو سکتا ہے۔ کسی نے کیا
خوب کہا ہے کہ :’’دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا‘‘ ۔ اور واقعی اس
مصرعے کو دیکھیں تو یہ کمال حقیقت ہے کہ ہر ہاتھ ملانے والا دوست نہیں ہو
سکتا اور اگر سچے دل سے دوست بنایا جائے تو پھر دوستی انمول ہو جاتی ہے۔
پھر دوست دوست نہیں رہتے بلکہ یک جان دو قالب بن جاتے ہیں۔ دوستی وہ رشتہ
ہے جس میں دوست کے عیب اپنے حصے اور اپنی کامیابی دوست کے کھاتے ڈال کر
کمال خوشی ہوتی ہے۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
10اپریل 1970کو سید فیملی میں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام ذاکر رکھا گیا۔
سید ہونے کے ناطے پہلے ہی اس خاندان کو ہر کوئی عزت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔
کثیر آبادی والے گاؤں جمبر میں جہاں ہمارا(پٹھانوں) کا اکیلا گھر تھا اسی
طرح سادات کا یہ گھرانہ بھی واحد گھرانہ تھا ۔ اور اﷲ کے فضل و کرم سے
دونوں گھرانوں کے اکیلا ہونے کے باوجود پورا شہران کا اپنا ہی لگتا تھا۔ ہر
برادری اور خاندان ان کو اپنا ہی سمجھتی تھی۔ بچپن میں کسی نے سوچا بھی نہ
ہو گا کہ سید ذاکر علی نقوی بڑا ہوکر اپنا اوراپنے ماں باپ کا نام اس طرح
روشن کرے گا۔
ابتدائی ایام میں ذاکر شاہ ضلع قصور میں کرکٹ کے میدان ایک جانا پہچانا نام
تھا۔ وہ جمبر کے پہلے رجسٹرڈ کرکٹ کلب کا صدر بنا ۔ آہستہ آہستہ اس کی توجہ
سیاسی و سماجی خدمت کی طرف مبذول ہوتی گئی اور اس نے سیاسی اور سماجی کاموں
میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کردیا۔ وہ ایک سحر انگیز و طلسماتی شخصیت کا
مالک تھا ۔ اپنی گفتگو سے لوگوں کو مسحور کر دیتا۔ غریب و نادار لوگوں کو
تلاش کرنا اور ان کی امداد کرنا اس کا وصف تھا ۔ اسے زکوٰۃ و عشر کمیٹی کا
چئیرمین بننے کا بھی موقع ملا۔ وہاں ناحق لوگوں کی ہوس اور حق داروں کی حق
تلفی دیکھ کر جلد ہی اکتا گیا ۔ اس نے بلا تفریق غریب عوام کی خدمت کی۔
اس نے بذات خود کبھی الیکشن میں حصہ نہیں لیا مگر اس کے حمایت یافتہ لوگ
ناظم اور چئیرمین جیسے عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ اسکے کردار کی بدولت ان
کے گھر کے افراد بلا مقابلہ کامیاب ہوئے ۔ گھر کے افراد میں سے یونین کونسل
اور ضلع کونسل کے ممبر بھی منتخب ہوئے ۔ جمبر کی سیاست میں ان کا طوطی
بولتا تھا۔ جب ڈاکٹر عبدالخالق کی ہدایت پر میں نے الیکشن میں حصہ لیا تو
اس کی شبانہ روز محنت و کوشش کی بدولت میں بھی یونین کونسل کا ممبرمنتخب
ہوا۔علاقے کے ہر قسم کے فلاحی کام کے لیے خود بڑھ چڑھ کے حصہ لینا اور
دوسروں کو اس کام پر آمادہ کرنے کا ملکہ حاصل تھا۔ مذہبی تقریبات میں خصوصی
شرکت ونقابت تو لازم و ملزوم تھا ہی لیکن سیاسی جلسوں میں سماں باندھنا اس
بندے پر ختم تھا۔ جہاں کھڑا ہو نا وہاں مجمع اکٹھا کرنا اس کے بائیں ہاتھ
کا کام تھا۔
سیاسی و سماجی خدمت کے ساتھ ساتھ تعلیمی میدان بھی نام کام آیا ۔ اس نابغہ
روزگار شخصیت نے جمبر میں رفیق ماڈل سکول کی بنیاد رکھی جس کے سرپرست بھائی
پھیرو کی ممتاز شخصیت ڈاکٹر عبدالخالق اور انتظامیہ میں ماہر تعلیم شفیق
احمد خان و شکیل احمد خان شامل تھے ۔
اس ادارے میں آج بھی سینکڑوں بچے اور بچیاں زیر تعلیم ہیں۔ جہاں بچوں کو
مفت تعلیم کے ساتھ مفت کتابیں بھی دی جاتی ہیں۔انہوں نے غریب اور نادار
لوگوں کی بہت مدد کی۔
ذاکر شاہ جمبر میں ایک ایسا نام تھا جس کا چرچا ہر سو ہوتا تھا۔ بچے ، بڑے،
بوڑھے ، مرد ، عورت سب ہی ان سے بے پناہ پیا ر کرتے تھے۔ ایساکبھی نہی ہوا
کہ اسے راستے میں کوئی ملے اور وہ اسے سلام نہ کرے۔ میرا ہم پیالہ و ہم
نوالہ تھا ۔ لوگ ہمیں حقیقی بھائی سمجھتے تھے۔ پچھلے چند ماہ سے ان کو
پسلیوں کے قریب تکلیف ہونا شروع ہوئی جو تشخیص ہوتے ہوتے آخری سٹیج کے
کینسر تک پہنچ گئی۔ ابتدا ہی سے عطائی، حکیم، مولوی ، عامل، ایم بی بی ایس،
سپیشلسٹ ہر ایک رابطہ کیا ۔ لاکھوں روپے خرچ کیے مگر تشخیص نہ ہو سکی ۔
جمبر ، فیصل آباد، لاہور ہر ہسپتال میں ان کا چیک اپ کرایا گیا مگر ڈاکٹرز
سے مرض کی تشخیص نہ ہوسکی۔ کوئی کسی وین کا کہتا تو کوئی پسلیوں کی تکلیف
بتاتا۔ کوئی یہ تشخیص نہ کر سکا کہ ان کو کینسر جیسا مرض لاحق ہوچکا ہے۔ دو
ماہ قبل بائیوپسی کروائی تو پتہ چلا کہ ظالم کینسر شدت کے ساتھ پنجے گاڑ
چکا ہے ۔ شوکت خانم جیسے ہسپتال لیکر گئے تو انہوں نے زائد عمر کا بہانہ
بنا کر واپس بھیج دیا گویا بڑی عمر کے لوگوں کو جینے کا حق ہے نہ
ضرورت۔انکشاف ہوا کہ کینسر پھیپھڑوں کو برباد کرنے کے بعد تین پسلیاں چاٹ
گیا اور تین مہروں کو لپیٹ میں لے لیا۔ آخر کار سی ایم ایچ لاہور سے ان کی
سرجری کرائی گئی تاکہ نچلا دھڑ ناکارہ ہونے سے بچ جائے لیکن کامیابی روٹھ
گئی اور سرجری کرانے کے باوجود چنددن بعد ان کانچلا حصہ مفلوج ہوگیا۔ اس کے
بعد میرا بھائی ، میر ادوست ، میرا جگر چارپائی سے اٹھ نہ سکا۔
11نومبر کو اچانک اتنی طبعیت خراب ہوگئی کہ ایمرجنسی لاہور لیکر جانا پڑا
مگر وہاں کے ہسپتالوں میں ڈاکٹر کم اور فرعون زیادہ ہیں ۔ ایک تو آئے روز
ان کی ہڑتال سے لوگ پریشان ہیں ۔ گنگا رام ہسپتال کے سرجیکل آئی سی یومیں
نائٹ ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر نے ایڈمٹ کرنے سے انکار کردیا ۔ان کا موقف بھی
شوکت خانم والا نکلا کہ ایک خالی بیڈ ہم صرف نوجوان مریض کے لیے فارغ رکھتے
ہیں۔اب کوئی اس ڈاکٹر سے پوچھے کہ مریض مریض ہوتا ہے جوان یا بزرگ نہیں۔ جس
کا بزرگ مریض ہوگا تو کیا اس کو مرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیں ؟ میں بددعا
نہیں دیتا لیکن کبھی خدانخواستہ ان ڈاکٹرز کو ان حالات کا سامنا کرنا پڑے
تو ان پر کیا بیتے ؟
قدرت کا عجیب نظام کے 14 ربیع الاول بروز منگل دن نو بجے کے قریب اس کا بڑا
بھائی سید صابر علی شاہ نقوی لاہور میں خالق حقیقی سے جاملا تھا اور ٹھیک
20 سال بعد 14 ربیع الاول بروز منگل دن نو بجے کے قریب میرا بھائی ، میرا
دل دا جانی سید ذاکرعلی شاہ نقوی بھی لاہور میں ہی اپنے بڑے بھائی سید صابر
علی شاہ نقوی کے نقش قدم پر چلتا ہوا ہمارے سروں سے اپنی محبت ، شفقت، خلوص
اور پیار کی چادر چھین کر ہمیں کو تنہا چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔
آنکھوں کو انتظار کا دے کر ہنر چلا گیا
چاہا تھا اک شخص کو جانے کدھر چلا گیا
|