اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو باہمی،
اخلاق اور روادار ی کا حکم کرتا ہے ایک دوسرے کے دکھ درد میں شرکت اس مذہب
کا خاصہ ہے سرور کائنات ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی
کے دنیاوی رنج و الم دور کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ میں اس شخص کی
قیامت کی تکالیف میں سے تکلیف کو دور کردیتے ہیں ۔
مریض کی عیادت بھی اسی ضمن میں آتی ہے اس سے مریض کی تکلیف تو دور نہیں ہو
جاتی مگر اس کے دل کو تسلی ضرور ہو جاتی ہے اور اس کی ڈھارس بندھ جاتی ہے ۔
آنحضرت صلی اللہ علی وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اللہ تعالیٰ روز قیامت
فرمائیں گے اے ابن آدم میں بیمار تھا تو نے میری مزاج پرسی نہ کی بندہ عرض
کرے گا اے باری تعالیٰ آپ تو رب العالمین ہیں بیمار ی وغیرہ جیسے عوارضات
سے پاک ہیں بھلا میں آپ کی مزاج پرسی کیسے کرتا ؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے
تمہیں معلوم نہ تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے تو نے اس کی عیادت نہیں کی
اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاتا اس حدیث میں اس بات کی طرف
اشارہ ہے کہ مریض کی عیادت کسی مسکین کو کھلانے اور پلانے سے افضل ہے ۔ اور
بعض علماء کے نزدیک نفلی عبادت سے بہتر ہے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا کہ جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی صبح عیادت کو جاتا ہے
تو ستر ہزار فرشتے شام تک اس پر رحمت بھیجتے رہتے ہیں اور اگر وہ شام کو
عیادت کیلئے جاتا ہے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس پر رحمت بھیجتے ہیں اور
اس کے لئے جنت میں باغ لگا دیا جا تا ہے ۔ (ترمذی و ابو داﺅد)
ان احادیث مبارکہ سے بخوبی یہ اندازہ ہو تا ہے کہ مریض کی عیادت کتنے اجرو
ثواب کا باعث ہے مگر مقام افسوس ہے کہ ہم لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں ۔
مریض کی مزاج پرسی تو درکنار اکثر حالات میں مریض سے ہمارا رویہ تکلیف دہ
ہوتا ہے ۔
حضرت انس ؓ سے مروی ہے سرور کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے وضو کیا
اور ثواب کی نیت سے اپنے مسلمان بھائی کی مزاج پرسی کی تو اللہ تعالیٰ سے
جہنم سے ساٹھ سال کا عرصہ دور کر دیں گے۔
(ابو داﺅد)
اسلام نے جس طرح ہر شعبہ زندگی میں انسان کی رہنمائی کی اور اسے زندگی بسر
کرنے کے طور طریقوں سے آشنا کیا ہے اسی طرح عیادت مریض کے بارے میں بھی
احادیث میں تفصیلاً مذکور ہے ۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے فرمایا
رسول خدا ﷺ نے کہ جب تم کسی مریض کی مزاج پرسی کیلئے جاﺅ تو اسے خوش کرو
اور اس کیلئے فرحت کا سامان پیدا کرو یعنی اسے یہ کہو کہ آپ خوف نہ کریں
اللہ تعالیٰ جلدی شفا عطا فرمائیں گے اور یہ کہ اب آپ کے مرض میں سختی نہیں
اور یہ مرض آپ کو گناہوں سے پاک کردے گا وغیرہ۔ اگرچہ یہ کہنا اس سے مقدر
کی سختی کو تو نہیں ٹال سکتا مگر ایک طرح کا سکون اور فرحت ضرور بخشتا ہے۔
(ترمذی و ابن ماجہ)
حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ رحمت عالم ﷺنے فرمایا کہ اگر کوئی مسلمان
بھائی کی عیادت کیلئے جائے اور سات مرتبہ یہ کہے کہ (ترجمہ) ” میں اللہ رب
العرش العظیم سے آپ کی شفا کی دعا کرتا ہوں“ تو اس دعا کی برکت سے اللہ
تعالیٰ مریض کو شفا عطا فرمائیں گے مگر یہ کہ اس کی اجل نہ آئی ہوئی ہو(ابو
داﺅد و ترمذی)
آنحضرت ﷺ نے ایک مریض سے فرمایا جبکہ وہ اس کی عیادت کیلئے گئے ہوئے تھے کہ
خوش ہو جاﺅ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ (مرض) میری آگ ہے جسے میں اپنے
مومن بندے پر مسلط کرتا ہوں تاکہ یہ اسے جہنم کی آگ سے نجات دلا دے ۔ (رواہ
احمد ابن ماجہ البہیقی فی شعب الایمان)
آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ مریض کی عیادت کے وقت اس کے پاس تھوڑا وقت بیٹھنا
اور کم شور کرنا میری سنت ہے (المشکوة) اور فرمایا کہ جب مریض کی مزاج پرسی
کیلئے تو اس سے اپنے لئے دعا کراﺅ کہ اس کی دعا تمہارے لئے ملائکہ کی دعا
کے برابر ہے (ابن ماجہ )
اگر مریض سے ہمدردی اور حسن سلو ک کی بابت کی جائے تو ڈاکٹروں کا مریضوں سے
رویہ بھی عیادت کے ضمن آتا ہے کیونکہ یہ لوگ عیادت کے ساتھ ساتھ مریض کا
علاج کبھی کرتے ہیں آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا فرما ن ہے کہ جب
کوئی شخص مریض کی عیادت کرتا ہے تو آسمان سے ایک منادی کرنے والا ندا کرتا
ہے کہ اے شخص تیرا حال بہتر ہو اور تیرا مریض کی عیادت کیلئے چلنا اجر و
ثواب کا باعث ہوا اور جنت میں تمہارا مقام متحقق ہوا یعنی تم یقینی طور پر
جنت میں داخل ہو گے (ابن ماجہ)
دعا ہے کہ خدا ہم سب کو میریض کی عیادت اور اس سے حسن سلوک کی توفیق عطا
فرمائے۔ |