اتنے بڑے بڑے سیارے وجود میں کیسے آجاتے ہیں؟

سائنسدانوں نے ایک بہت بڑے سیارے کا سراغ لگایا ہے جس کے بارے میں ان کہنا ہے کہ اگر موجودہ نظریات کو سامنے رکھا جائے تو اس سیارے کا وجود نہیں ہونا چاہیے۔
 

image


جوپیٹر یا مشتری کی شکل کا یہ دیو قامت سیارہ سورج یا اپنے قریبی ستارے کی نسبت بہت بڑا ہے جو کہ سیاروں کی تشکیل کے متعلق ہمارے نظریات کے خلاف ہے۔

یہ سیارہ ہماری زمین سے 284 ٹریلین کلومیٹر دور دکھائی دیتا ہے اور اس کی شکل ہماری کہکشان میں پائے جانے والے سیاروں کی اکثریت جیسی ہے، جسے ایم ٹائپ کہا جاتا ہے۔

اس سیارے کا انکشاف بین الاقوامی سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے سائنس کے ایک معروف جریدے میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کیا۔

اس حوالے سے برطانیہ کی یونیورسٹی آف وارِک سے منسلک پروفیسر پیٹر ویٹلی کا کہنا تھا کہ اس کے وجود کے بارے میں ہمیں اس لیے معلوم ہوا ہے کہ ہم ایک عرصے سے غور کر رہے ہیں کہ آیا ہماری کہکشان میں موجود چھوٹے چھوٹے دیگر ستاروں کی گرد مشتری جیسے بڑے سیارے ہوتے ہیں یا نہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’عام خیال یہی رہا ہے کہ اتنے بڑے سیاروں کا کوئی وجود نہیں ہوتا، لیکن ہم یہ بات یقین سے اس لیے نہیں کہہ سکتے کیونکہ کہکشاں میں موجود چھوٹے ستارے بہت کمزور واقع ہوئے ہیں اس لیے ان کا مشاہدہ کرنا آسان نہیں ہوتا، حالانکہ سورج کی نسبت اس قسم کے کمزور ستاروں کی تعداد بہت زیادہ ہے‘۔

مذکورہ نئے سیارے کے مشاہدے کے لیے سائنسدانوں نے سپین اور امریکہ میں نصب بڑی بڑی دوربینوں کا استعمال کیا اور انھوں نے اس دوران ایک ستارے کی کشش ثقل میں کمی بیشی کا جائزہ لیا جو اس کے گرد چکر لگانے والے سیاروں کی وجہ سے ہوتی ہے۔

جس ستارے کے گرد یہ سیارہ گھومتا ہے اس کا حجم مذکورہ سیارے سے 270 گنا زیادہ ہے، جو کہ بہت کم ہے۔ اس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ سورج اپنے گرد چکر لگانے والے سب سے بڑے سیارے مشتری (جوپیٹر) سے بھی 1050 گنا بڑا ہے۔
 

image


کسی بھی ستارے کے گرد موجود بادلوں اور گیسوں کی مدد سے نئے سیارے کس طرح وجود میں آتے ہیں، اس کو سمجھنے کے لیے ماہرین فلکیات آج کل کمپیوٹر سیمولیشن کی مدد لیتے ہیں۔ اس کی بنیاد پر سائنسدان پیشنگوئی کرتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ایم ٹائپ کے ستاروں کے گرد کئی سیاروں کو وجود میں آنا چاہیے۔

نئی تحقیق کرنے والی ٹیم کے رکن پروفیسر کرسٹوف مورڈاسینی کہتے ہیں کہ ’اس قسم کے کمزور ستاروں کے گرد صرف زمین کے حجم کے سیارہے ہونے چاہئیں، یا زمین سے تھوڑے زیادہ حجم والے سیارے‘۔

اس نظریے کی تائید ہمیں ٹریپسٹ ون نامی ستارے کے گرد گردش کرنے والے سیاروں میں دکھائی دیتی ہے۔

یہ ستارہ ہمارے سورج سے 369 ٹریلین کلومیٹر (39 شمسی سال) کے فاصلے پر ہے اور اس کے نظام شمسی میں سات سیارے شامل ہیں، جن سب کے حجم ہماری زمین سے کچھ کم ہیں۔

لیکن جی جے 3512بی نامی یہ نیا سیارہ حجم میں بہت زیادہ ہے اور اس کا حجم مشتری کے نصف کے برابر ہے جو سائنسدانوں کے اندازوں سے کافی زیادہ ہے۔

نئی تحقیق کے نتائج سیاروں کی تخلیق سے متعلق موجودہ سائنسی نظریات کو چیلنج کرتے ہیں۔

پروفیسر ویٹلی کہتے ہیں کہ سائنسدانوں کا عمومی خیال یہی ہے کہ بڑے بڑے سیارے شروع شروع میں نہایت سرد گیسوں کی شکل میں ہوتے ہیں جو کسی نئے ستارے کے گرد چکر لگاتی ہے اور بہت تیزی سے اس پر مزید گیس جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے اور آخر کار یہ ایک سیارے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

لیکن حالیہ تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ نئے ستاروں کے گرد موجود مواد اتنا زیادہ نہیں ہوتا کہ اتنا بڑا سیارہ وجود میں آ جائے۔ اس کے برعکس اس بات کے امکانات زیادہ ہیں کہ جب اس سیارے کی اپنی ڈِسک اس کی کشش ثقل کے اثر سے ٹوٹتی ہے تو اتنے بڑے سیارے وجود میں آ جاتے ہیں۔

اپنے اس دعوے کے حق میں مذکورہ سائسندان یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اس قسم کی توڑ پھوڑ اس وقت ممکن ہو جاتی ہے جب گیس اور گرد و غبار کا حجم خود سورج یا ستارے کے حجم کے 10ویں حصے کے برابر ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں ستارے کی کشش ثقل اس نئے حجم کو اپنے قابو میں نہیں رکھ سکتی، اور بڑے سیارے وجود میں آ جاتے ہیں۔
 

image


تحقیق میں حصہ لینے والے جرمنی کے ماہر فلکیات ہربرٹ کلہر کا کہنا ہے کہ ’ابھی تک ہمیں ایسے سیاروں کی چند ہی مثالیں ملی ہیں جن کے حجم میں اتنا اضافہ سیارے کے گرد ڈِسک میں عدم توازن کی وجہ سے ہوا ہے۔ یہ سیارے نہ صرف بہت گرم تھے بلکہ اپنے ستارے سے بہت زیادہ فاصلے پر وجود میں آئے تھے۔

لیکن، ہربرٹ کلہر کہتے ہیں کہ جی جے 3512بی کے انکشاف کے بعد اب ہمارے سامنے ایک ایسے سیارے کی مثال آ گئی ہے جس کا آغاز ایک چھوٹے سے حجم سے ہوا اور پھر وہ اپنی کشش ثقل کی طاقت سے ارد گرد کے گرد و غبار کو اپنی لپیٹ میں لیکر بہت بڑا ہو گیا۔

وہ کہتے ہیں ’اس انکشاف کے بعد اب ہمیں سیاروں کی وجود میں آنے کے ماڈل پر نظر ثانی کرنا پڑے گی۔‘


Partner Content: BBC
 
YOU MAY ALSO LIKE: