کسی کی پیاس کو دریا کبھی ما بھی ہے

یہ زمین و آسماں باہم ملے ہوئے تھے پھر خالق خشک و تر نے انہیں جدا جدا کر دیا۔
تب ان ٹکڑوں کے بیچ و بیچ پائے جانے والے دیو ہیکل وجود نے باقی ماندہ اجسام پر کشش کا ایسا پھینکا کہ وہ بے چارے آج تک اسکی قید سے آزاد ہو نہیں پائے ( کہ یہ ابدی غلامی ہے اور قیامت تک اس سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی)
انہی میں سے ایک غلام ایسا بھی تھا جو اس سے محفوظ فاصلے پر چکراتا پھرا۔ خالق اکبر نے جب یہ چاہا کہ زمین پر اس کی قدرت کاملہ کا ظہور ہو سو اس حکیم مطلق کی حکمت کاملہ کے زیر اثر اس پر لاکھوں برس مسلسل بارش ہوتی رہی جس سے اسکی اوپری سطح ٹھنڈی ہو کر سکڑتی اور معتدل ہوتی چلی گئی ۔
اب یہاں پر صرف سمندروں کا راج تھا ۔ پھر مختلف تبدیلیوں کے زیر اثر اسی سمندری پانی سے دنیا کے سب سے پہلے سادہ ترین خلیے نے جنم لیا اور یوں زندگی نے کرہ ارض پر اپنا پہلا سانس لیکر اپنی موجودگی کا اعلان کر دیا ۔
یہ خالق کائنات کے ارادہ خلق کا پہلا اظہاریہ تھا ۔ خالق اکبر نے سلسلہ حیات چھ مراحل میں تدریجاً آگے بڑھانا تھا سو اس سادہ ترین خلیے کے بعد دھیرے دھیرے پیچیدہ سے پیچیدہ تر خلیے وجود میں آتے چلے گئے جس بافت عضو نظام اور وجود کی تجسیم کا لا متناہی سلسلہ چل نکلا۔ نتیجتاً انواع و اقسام اور بھانت بھانت کے جاندار وجود میں آتے اور کرہ ارض پر پھیلتے چلے گئے ۔ ظاہر ہے یہ سارے جاندار آبی تھے کہ زمین پر تاحال خشکی کا جال نہیں بچھا تھا اور ابھی آب ہی آب کا راج تھا ۔ اب الہی پروگرم کے اگلے مرحلے میں سمندروں سے کہیں کہیں خشکی کے چھوٹے بڑے قطعات نے سر نکالنا شروع کر دیا تھا تاکہ وہ بھی اپنے سینے پر جانداروں کو پلتا پنپتا پھلتا پھولتا سانسیں لیتا اٹھکیلیاں کرتا دیکھیں ۔ اب حالات اس نہج پر آگئے تھے کہ تخلیق کے نقطہ عروج کے وجود کا اس عالم شہود پر ورود مسعود ہوتا ۔ سو پہلے انسانی جوڑے نے جو زمین کا وارث بھی تھا زمین پر جلوہ افروز ہو کر سلسلہ تخلیق کو بام عروج تک جا پہنچایا ۔ ڈارون کی لغو باتوں کو جانے دیں تو تخلیق حیات کے حوالے سے اسلام اور سائنس واضح طور پر ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو نظر آتے ہیں ۔ ایک دم ہم آہنگ ۔ بھلا یہ باہم متصادم ہو بھی کیسے ہیں کہ مذہب اگر فعل خالق کا نام ہے تو سائنس قول خالق کا ۔ ظاہر ہے قدرت کے قول و فعل میں کوئی دوئی کوئی تضاد بھلا کیونکر ممکن ہے ۔
خالق نے کتاب ہدایت میں آواز دی کہ اس نے ہر جاندار کی تخلیق پانی سے کی ۔ گویا پانی ہی اساس حیات ہے ۔ ایک مرکزی نکتہ ۔ محور بھی یہی اور اساس بھی ۔ بقول شاعر
پانی کی بھی عجب کہانی
میں پانی کا مجھ میں سا
خاکی انسان کی مٹی کو پانی میں گوندھ کر اس کے بنانے والے نے پانی کی مودت اور مسلسل احتیاج انسان کی روح میں رکھ چھوڑی ۔
آدم ہی کیا ہر صاحب دم ہر دم اسکا ابدی اسیر اور اسکے وصل کی آس میں تڑپتا دکھائی دیتا ہے۔ اور کیوں نہ ہو پانی سب کا " اٹوٹ انگ " ہی تو ہے ۔ ہاں اظہار کا تفاوت ضرور موجود ہے ۔ کچھ پانی کی محبت میں اس حد تک ڈوبے ہوئے ہیں کہ اپنی آخری سانس تک عملی طور پر بھی اس میں ڈوبے ہی رہتے ہیں ۔ اور اسی حالت میں اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دیتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جن کی جڑوں میں پانی کا وجود ان کے وجود کی بقا کا ضامن ہوتا ہے ۔ اور کچھ تو ایسے ہیں کہ ہر آن ہر کھڑی جنھیں پیاس ستاتی اور پانی کے قریب لاتی ہے ۔ بعض ایسے ہیں کہ ایک بار پانی پیتے ہیں تو ہفتوں کی ذخیرہ اندوزی کر لیتے ہیں ۔ کچھ قناعت پسند جانداروں پر یہ شعر صادق آتا ہے
میں کیوں نہ اک گھونٹ پہ اکتفا کرتا
کسی کی پیاس کو دریا کبھی ملا بھی ہے

گویا پانی سے نہ کسی کو مفر ہے نہ کوئی اس سے عاجز آتا ہے اور تو اور انسان جیسا جدت طراز اور لذت کام و دہن کا رسیا بھی مجال ہے جو اس سے اکتائے دامن چھڑائے یا پہلو بچا پائے ۔
وجود میں اس کی کمی پیاس کہلائی تو اس کی تڑپ ہجر ٹھہری ۔ اس سے سیرابی وصل کہی گئی اور یہ وصل بھی کیسا شدید ترین کہ پیٹ بھر جائے تب بھی روح کے دریچوں سے
" ھل من مزید " کی سرگوشیاں دماغ کے گنبد میں بازگشت بن کر سدا گونجتی رہیں۔
بی بی سی نے اکیسویں صدی کے آغاز میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ یہ پانی پر جنگ کی صدی ہے ۔ لیکن میرے بنی نے تو چودہ صدیاں پہلے پانی کی اہمیت اجاگر فرما دی تھی
" پانی ضائع مت کرو خواہ دریا کے کنارے ہی کیوں نہ بیٹھے ہو"
پانی کی اہمیت کا اس سے بڑھ کر اظہاریہ تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ عادت شریفہ تھی کہ پانی کو ڈھکے ہوتے برتن میں رکھتے اور ایک دن چھوڑ کر ستعمال فرماتے ۔ اسلام ذخیرہ اندوزی کا سب سے بڑا مخالف ہے لیکن پانی جمع کرنا کتنا اسلام میں مسنون عمل ہے اتنا کسی مذہب و ملت میں نہیں ۔ زمین پر سمندروں جھیلوں چشموں دریاؤں ندی نالوں کو وجود ذخیرہ اندوزی کی واضح ترین مثالیں ہیں ۔ گویا پتھر کے عہد کا انسان بھی اس شعور کا حامل تھا جو بدقسمتی سے آج ہم میں مفقود ہے ۔ پانی کی اہمیت کا کوئی منکر نہیں سوائے اس ملک کے جہان دنیا کا بہترین نہری نظام موجود ہے ۔ ایک ایسا زرعی ملک جس کے سیاست دان اہل وطن کو سدا خوش حالی کے خواب بخشتے اور خشک سالی کی تعبیریں بانٹتے رہے ہیں ۔ ایشین ڈویلپمنٹ بنک کی ایک رپورٹ کوئی انکشاف نہیں ہاں آخری وارننگ ضرور ہے کہ
اٹھو وگرنہ حشر نہ ہوگا پھر کبھی
کتنا بڑا المیہ ہے ہمارے یہاں کے طاقت ور ترین حکمران بھی نام نہاد قوم پرستوں ( یہ بھی شاید بت پرستی کی ایک مثال ہے )
کے نہ تو پروپگنڈے کا توڑ کر سکے نہ سن کے نام نہاد
" تحفظات" ہی دور کر پائے ۔ اور تو اور مشرف جیسا " بہادر" فوجی آمر بھی " بھائی جی " کی ایک دھمکی سن کر ڈھیر ہو گیا ۔
جدید دنیا میں ہر ملک اس کوشش میں لگا ہے کہ وہ کس طرح اپنے جمع شدہ پانی کے ذخیروں میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کر سکے ۔ پانی کو جمع کرنے کا سب سے اہم ذریعہ ڈیمز ہوتے ہیں ۔ اس قدیم ترین طریقہ کی اہمیت دور جدید میں بھی کم نہیں ہوئی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ اس کی اہمیت بڑھتی جاتی ہے ۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اور ان ممالک میں بھی جو زرعی پس منظر کے حامل ہیں پانی کے ذخیروں میں اضافے کی دوڑ لگی ہے
لیکن اس حوالے سے جب اپنی ملک کی جانب نظر کرتے ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ یہاں ڈیموں کے نام پر بے رحم سیاست کی جاتی ہے۔ قومی ایشوز کو اس سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے ۔ ایک ایسے ملک میں جہاں کا پس منظر زرعی ہے اور جو توانائی کے شدید ترین بحران کا شکار ہےکالا باغ جیسے ناگزیر ابی منصوبے کا سیاست کی نذر کر دیا کرتے ہیں ۔
اسے سبز باغ بنا کر اور دکھا اپنے ووٹ بنک کو بڑھائے جانے کا چلن عام ہے ۔بدقسمتی سے ایک بھی قومی پارٹی ایسی نہیں جو اس سے مخلص ہو ۔ایک ہی پارٹی کا ہر صوبے میں موقف دوسرا ہے ۔ سو کالا باغ جیسے منصوبے قربان کیے جاتے ہیں اور ملک کو مہنگی ترین بجلی خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔بلوں کے ذریعے ان کا لہو نچوڑ لیا جاتا ہے ۔ پھر آئے روز بجلی کی فی یونٹ قیمت میں ناروا اضافے کر کے ان پر نم گرائے جاتے ہیں ۔ باقی رہا گیس تو اس کو بھی عام آدمی کی پہنچ سے بہت طور دور رکھا جا رہا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل ایک سابق چیف جسٹس صاحب نے پانی اور ڈیمز پر بہت بڑی مہم چلائی جس کے نتیجے میں ایک خطیر رقم جمع ہوئی اور دعویٰ کیا گیا کہ جلد ڈیم پر کام شروع کر دیا جائے گا اور اس منصوبے کو ہنگامی بنیادوں پر کیا جائے گا اور جلد از جلد تکمیل کے مراحل طے کر لیے جائیں گے ۔ لیکن ہوا کیا ؟؟؟؟؟
ان کے جاتے ہی یہ منصوبہ بھی سرد خانے کی نذر کر دیا گیا اور تاحال راوی لکھتا ہے چین چین ۔
عمرانی حکومت سے گزارش ہے کہ خدا را کچھ کر دکھا دیں ۔ بہت بڑے بڑے دعویٰ جو آپ نے کیے تھے ان میں سے چند ایک کو تو اپنی ترجیحات کا حصہ بنا لیں ۔ ہمیں دشمن پر نظر رکھ لیتے تو یہ دیکھ کر پانی پانی ہو جاتے کہ ہمارے چند ڈیمز کے مقابلے میں انکے چھوٹے بڑے چار ہزار ڈیمز پر وہاں کام جاری ہے ۔ اسی پر کیا بس ہے کہ ہمارے پانی پر ڈاکہ ڈال کر اس آبی دہشت گرد نے ہمیں شہہ رنگ اپنے دانتوں تلے دبا رکھی ہے جسے چبانے میں وہ کبھی دیر نہیں لگائے گا۔ ہماری بے بسی دیکھیں ہمارے پانی پر ڈالے جاری ہیں اور ہم چپ ہیں ۔
اور قومی حمیت دیکھیں کہ اسی سے یک طرفہ
" عشق ممنوع " بھی جاری ہے۔اسی سے ہمارے فکری افلاس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔کہ
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
اس قوم کے لیڈران کے لیے یہی دعا کی جا سکتی ہے کہ
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

 

Safder Hydri
About the Author: Safder Hydri Read More Articles by Safder Hydri: 77 Articles with 63259 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.