اقبال ایک نئی جہت: پروفیسر علوی کے خطاب سے اقتباسات

پروفیسر محمد رئیس علوی

پالف کے زیرِ اہتمام9 نومبر کو ایڈیلیڈ میں یوم اقبال ؒ کے موقع پر منعقدہ تقریب سے پروفیسر علوی نے ایک جامع خطاب کیا جس سے چنداقتباسات نظرِ قارئین کیے جارہے ہیں۔انہوں نے اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ”میں جناب افضل رضوی صاحب کا نہایت ممنونِ احسان ہوں کہ کہ انہوں نے آج کی اس شاندار تقریب میں عظیم شاعر اقبالؒ پر گفتگو کے لیے طلب کیا“۔انہوں نے مزید کہا کہ ”پالف نے ان کی قیادت میں اردو زبان وادب اور پاکستانی ثقافت کے فروغ کے لیے آسٹریلیا میں جو عملی جد وجہد کی ہے وہ لائقِ صد تحسین ہے۔میں ان کو اور ان کی پرجوش ٹیم کو ان کی بیش بہا کامیابیوں پر تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ایڈیلیڈ میں مقیم پاکستانی نژاد خاندان و افراد افضل صاحب کی تحریک کے ساتھ بھرپور تعاون اور معاونت کرتے رہیں گے۔“

”اقبال ایک نئی جہت“کے عنوان سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”سر علامہ محمد اقبال کی شاعری اور افکار کے بارے میں اب تک کئی ہزار کتابیں اور مقالات تحری کیے جاچکے ہیں۔ قابلِ احترام ناقدین، مفسرین اور شعر وادب کے ماہرین نے بزعم کود ممکنہ زاویوں سے ان کی شاعری، نظریات اور فلسفہ کو پرکھتے ہوئے اپنے تخیل اور تجربہ سے لعل وجواہر کے انبار لگائے ہیں۔کوئی اقبال کو فلسفی، کوئی محض شاعر، کوئی اقدار اسلامی کا داعی، کوئی مجدد، کوئی سوشلسٹ، کوئی قدامت پرست، کوئی جدیدیت کا حامی، کوئی رومانیت پسند، کوئی کلاسیکی، کوئی غزل کا کوہ کن، کوئی نظم کا شہسوار، کوئی ان کی فارسی شاعری کا مرید، کوئی ان کی نظم کا اسیر، کوئی ان کی تحقیق پر بد گمان، کوئی ان کی لفظیات کا نکتہ چیں، کوئی ان کو نوجوانوں کا نقیب، کوئی بزرگوں کا رفیق، کوئی مغربی افکار کا آمیزہ، کوئی مغرب کا باغی، کوئی جمہوریت دوست، کوئی جمہوریت کا مخالف، کوئی سیاست کا مرد،کوئی شعر میں فرد، کوئی بیداری کا علمبرادر، کوئی بے عملی کا شکار، کوئی داغ کا شاگرد، کوئی غالب کا مقلد، کوئی رومی کا جانشین، کوئی نیٹشے کے سپرمین کا امین، کوئی آزادیئ نسواں کا حریف، کوئی سر علامہ انگریزوں کا حلیف، کوئی ان کو تصورِ پاکستان کا خالق، کوئی ہندوستان کا پرستار، کوئی تضادات کا مجموعہ، کوئی اسلوب کا کمال، کوئی انقلاب کا جمال، کوئی خودی کا شعلہ، کوئی انا کا بگولہ، کوئی بے خودی کا رقص، کوئی ان کو شاہین، کوئی مردِ مومن، کوئی تصوف کا دشمن، کوئی صوفیوں کا ہم رکاب، کوئی ان کو صاحبِ دانش بے حساب، عشق کا حوالہ، کوئی ان کو ماضی کا نوحہ خواں، کوئی جذبہ ئ شوقِ بیکراں، کوئی ملتِ اسلامیہ کا سرخیل کارواں، کوئی ان کو خانہ تقویم میں فصلِ بہار کا نشاں، کوئی ہجرِ مدام کا مسافر اور کوئی وصلِ دوام کا راہ روسمجھا۔“

مندرجہ بالا القابات کا تذکرہ کرنے کے بعد وہ گویا ہوئے،”سب صاحبانِ قلم نے اپنے اپنے نادر نکات کی وضاحت کی اور اقبال کے افکار کی گہرائیوں اور وسعتوں کی پیمائش کرتے رہے۔مگر جو چیز سامنے کی تھی وہ ان کی دوربین نگاہوں سے اوجھل رہی“۔ انہوں نے کہا کہ ”آج سے ایک سو بیالیس سال قبل پیدا ہونے والا بچہ انیسویں صدی کے آخری موڑاور بیسویں صدی کی دہلیز1901ء میں پار کرنے والا اقبال ایک23/24 سالہ اولوالعزم مسلم ہندوستانی نوجوان تھا، جب اس کی پہلی نظم ”ہمالہ“ مخزن لاہور میں شائع ہوئی۔“

پھر انہوں نے برِ صغیر پاک وہند کی تاریخ کا طائرانہ ذکر کرتے ہوئے کہاکہ”ہندوستان میں مسلمانوں کی نو سو سالہ طویل حکومت کا بیرونی حملہ آور انگریزوں کے ہاتھوں 1857 ء میں خاتمہ کے ابھی پچاس سال بھی نہ ہوئے تھے۔ اقبال ہندوستان میں رہتے تھے۔ ان کے سینے میں تڑپتی، شور مچاتی، سر پٹکتی، آگے بڑھتی تہہِ آب موجوں کا ایک طوفان تھا۔اس کا اندازہ آپ ان کی ابتدائی دور کی نظموں ہمالہ، غالب، بچے کی دعا اور ترانہ ہندی سے ان کے ذہنی افق اور بلند نگاہی کا اندازہ کر سکتے ہیں۔وہ شاعری کے سکندراعظم تھے۔“

بعد ازاں انہوں نے رامائن کے خالق تلسی داس کا حوالہ دیتے ہوئے علامہ اقبالؒ کے مقام و مرتبے کو سامعین کے سامنے واضح کیا۔ان کا کہنا تھاکہ”تلسی داس رام کی زندگی کا شارح بن گیا۔ اسے پانچ سو قبلِ مسیح سنسکرت میں رامائن کے لکھنے والے کا واطیکی کا اوتار قرار دیا گیا۔ وہ تاریخ اور ہندوستان کے ہندو معاشرے کو اپنی شاعری کے ذریعے فتح کرکے زندہ و جاوید ہو گیا۔تلسی دور مغلیہ دور میں زندہ رہا۔زندگی بھر ہندوستان میں رہا اورکوئی لمبا سفر بھی نہ کیا لیکن اس کی رزمیہ نظم رامائن کے کرداروں، زبان اور رزم ِ حق و باطل کے حوالے سے پورے ہند پر چھا گئی۔اقبال کے لیے تلسی داس کی یہ نظم ایک سنگِ میل تھی جسے علامہ عبور کرکے آگے جانے کا عزم رکھتے تھے۔“

تلسی داس کی رامائن اور ہندو معاشرے کا تذکرہ کرنے کے بعد پروفیسر علوی نے کہاکہ”تلسی داس سنسکرت، ہندی اور ہندو معاشرے کا ماہر و نبض شناس تھا جب کہ اقبال اردو، ہندی، انگریزی، پنجابی، فارسی، عربی، ترکی، جرمن اور دیگر کئی معاشروں اور زبانوں سے نہ صرف واقف تھے بلکہ ان کے مزاج ومذاق سے کلی طور پر وابستہ بھی رہے تھے۔1905ء میں اپنے سفرِ یورپ اور پھر وہاں قیام کے دوران اقبال جس دنیا میں داخل ہوئے وہاں کی سائنسی ایجادات، ترقی،تحقیق، فلسفہ، طرزِ سیاست، آزاد ہوتی ہوئی معاشرت، شعر و ادب اور تعلیم باہر سے آنے والوں کو حیران و بے اوسان کر دیتی تھی مگر اٹھائیس سالہ جواں فکر اقبال مسکراتا رہا۔“ پھر کلامِ اقبال سے حوالہ دیتے ہوئے کہا:
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہئ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ ونجف
اقبال آگے اور آگے بڑھتے گئے۔
نے تخت و تاج میں نے لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے

”وہ کیمیائے حیات ِ جاوید کو ڈھونڈتے رہے۔ وہ ڈرے، نہ بدلے، نہ رکے۔ ہمالہ والا اقبال بلند سے بلند تر اور وسیع سے وسیع تر ہونے کی آرزوئے دیرینہ میں ہمالہ بننے کا نسخہ تلاش کر تا رہا۔ اور پھر اس مقام پر پہنچا“:
ہے مگر اس نقش میں رنگ ثباتِ دوام
جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام
مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصلِ حیات موت ہے اس پر حرام

پروفیسر علوی نے اپنی گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ”اب اقبال منزلِ دوام کے قریب پہنچ رہے تھے وہ عشق کی اصل بھی مسلمانوں اور دیگر دنیا کی مظلوم و محکوم قوموں کو بتانا چاہتے تھے۔“ کہ:
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روح امم کی حیات کشمکش انقلاب

اپنے اس قدرے طویل خطاب کو اختتام کی طرف لے جاتے ہوئے انہوں نے کہاکہ”پھر جری اور درد مند اقبال نے اپنے خونِ جگر کی کمند ِ یزداں شکار سے روح دوام کو گرفتار ہوتے ہوئے دیکھا اور پکار اٹھا۔“
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر

اپنے صدارتی خطبے کے آخر میں انہوں نے شرکائے محفل سے کہاکہ اقبال نے ہند کے عظیم شاعر تلسی داس کی حد بندیوں کو اور فنِ کردار سازی کو عبور کرکے ہم سب کے لیے آگے بڑھنے کے تمام دروازے کھول دیئے ہیں، چلیے اب آگے چلتے ہیں۔
٭٭٭٭٭


 

Syeda F GILANI
About the Author: Syeda F GILANI Read More Articles by Syeda F GILANI: 38 Articles with 63520 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.