ہاتھ ملاتا دریا

اُس روز، دریا کنارے لگے نلکے سے ہاتھ منہ پیر دھو کر ریحان گھاس پر جا بیٹھا تھا۔ کنارے کنارے کھیت بھی خالی تھے۔گرمیوں کے دن تھے اور اِس وقت لوگ کم کم ہی ادھر آتے تھے۔کافی بڑا قصبہ باقاعدہ تفریحی جگہوں سے عاری تھا۔ سو لوگ اپنے کنبوں کے ہمراہ دھول اڑاتے رکشوں اور موٹر سائیکلوں پر یا پھر پیدل بھی دریا کنارے آ نکلتے تھے۔ لیکن زیادہ تر شام کے اوقات میں۔البتہ دن کے مختلف اوقات میں بھی کنارا، اکثرآوارگی پسند شکاری لڑکوں کی آماجگاہ بنا رہتا تھا۔ قصبے سے دریا کی طرف آتا،بے پناہ دھول سے اٹا راستہ،ہر مسافر کو بھوت بنا کے رکھ دیتا یہاں تک کہ حلق میں بھی گرد جم جاتی۔ایسے میں دور سے ہی لوگوں کی نگاہیں اُس نلکے کے ہونے کا یقین کرنے لگتی جس کے میٹھے پانی سے ریحان ابھی کچھ دیر پہلے ہاتھ منہ پیر دھو کر، پیاس بجھا کر گھاس پر جا بیٹھا تھا اور اُس کی نگاہیں دریا کے بیچ ابھرے اُس سحر انگیز ریتلے میدان پر جمی تھیں جس کے دوسری جانب میٹھے پانی کا صاف شفاف دھارا بہہ رہا تھااور جس کے کناروں پرنرم، ٹھنڈی اور گیلی ریت اس کے قدموں کوبلند آواز میں پکا ر رہی تھی۔لیکن،وہ یونہی کنارے پر بیٹھا،بس دور سے ہی،خود کو بیلے میں ہنستا کھیلتا اور وہاں اُدھرسے دونوں طرف کا نظارا لیتا اورصاف شفاف پانی کے دھارے سے خود کولطف اندوز ہوتا دیکھ رہا تھا۔

کنارے سے بیلے تک پھیلا سیلابی رنگ اوردھیمی رفتار سے چلتاپانی کافی گہرائی لیے ہوئے تھا۔سال کے کچھ دنوں میں جب پانی قدرے کم ہوتا تو بھی، کنارے سے بیلے تک،راستے کی طرح مستعمل وہ مخصوص حصہ اپنی آس پاس کی جگہوں سمیت گھٹنوں گھٹنوں دلدلی کیچڑ سے اس قدر لبریز رہتا کہ ریحان کے لیے اُس پر قدم رکھنا محال ہوتا۔اور پانی سے بھرا ہونے کی صورت میں گہرائی میں سانپوں، کانٹوں اوراندھے گڑھوں کا خوف۔قدم قدم گہرائی پکڑتے، انتہائی مٹیالے پانی میں، آہستہ آہستہ ایک سیدھ میں آگے بڑھنا پڑتا ورنہ آس پاس کوئی بھی گڑھاپل بھر میں کھینچ کرجان لے سکتا تھا۔لیکن یہ بھی ایک عجیب سا احساس تھا کہ کہیں نہ کہیں ریحان کے دل میں اُس حصے کو تبھی پار کرنے کی خواہش سر اٹھاتی رہتی تھی کہ جب وہ لبا لب بھرا ہو۔جبکہ راستہ جیسے جیسے آگے بڑھتا، زیادہ گہرا ہوتا جاتا، یہاں تک کہ بیچ میں کہیں، اُسے پار کرنے والا گردن تک ڈوب جاتا۔
دریا جان لیتاہے۔۔۔

قصبے کے لوگ پورے یقین سے دہراتے۔۔۔اور ریحان کے لیے یہ سارا عمل بہت پراسرار اور ڈرا دینے والا تھا۔دریا جیسے واقعی کوئی خونخواردیو، دیوتایا عفریت بھی تھا جو قصبے کے لوگوں سے ہر سال انسانی جانوں کی بھینٹ مانگتا تھا اور جیسے اپنا خراج وصول کرتا تھا۔ کتنے ہی نوجوان نہانے گئے اور پھر ان کی لاشیں آگے کہیں دور سے ملیں۔سیلاب کے دنوں میں بھری کشتی کو بھی دریا نگل جاتا،اور تو اور اپنا خراج وصول کرنے کے لیے گھروں کی دہلیز تک بھی آ دھمکتالیکن لوگ پھر بھی دریا میں نہاتے تھے، لکڑی کی بڑی بڑی لیکن عام سی کمزور کشتیوں میں اُسے پار بھی کرتے تھے۔دریا کے اُس پار کی بستی سے قصبے میں اور قصبے سے اُس بستی میں، دونوں کناروں پر، دو چار میل کا فاصلہ رکھے،وہ دو پتن، صدیوں سے لوگوں کی آمد و رفت کا ذریعہ تھے۔ اُس پار کی بستی سے بھی پرے، ایک مشہور مزار کے مسحور کن تذکروں سے بھی ریحان واقف تھا۔مگر اس کی رسائی اُس پہلے پڑاؤ تک ابھی صرف نگاہوں کی حد تک ہی تھی۔لیکن اُس بیلے سے آگے بھی شاید ایک بیلہ تھا۔ریحان نے سنا تھااور پھر دوسراکنار ا ۔۔۔
اُس روز بھی دریا میں اترتا گہرا راستہ لبا لب بھرا تھا اور سطح پر بنتے بھنورریحان کے لیے جیسے خطرے کا نشان ہوئے جارہے تھے۔ لیکن آج وہ جیسے کوئی حتمی فیصلہ کیے بیٹھا تھا۔ دریا کے بیچ وہ خوشنما بیلہ جیسے کوئی پر اسرارجزیرہ بھی تھاجوریحان کے معصوم اورمتجسس ذہن کو اور بھی زیادہ بلندآوازسے پکار رہا تھا۔۔۔اب آ بھی جاؤ۔ بہت ہو چکا۔ دیکھوتو۔۔۔اونچی اونچی گھاس میں گھری میری چمکتی دمکتی نرم ریت،دیکھو ذرا گیلی مٹی اور ریت جن پہ پہلو بہ پہلو قدموں کے نشانوں کی قطاریں ہیں، آؤ!تم بھی اپنے قدموں کے نشان ان میں شامل کرو۔آؤ!یہاں سے اُس پار کا نظارا اوربھی زیادہ کشادگی،وسعت اور خوبصورتی لیے ہوئے ہے۔اُس مشہور مزار سے بھی کہیں آگے، وہ پہاڑی سلسلہ اور بھی زیادہ قریب اور پر کشش دکھائی دیتا ہے، جو قصبے سے دیکھنے پر دھندلا اور بہت دور نظر آتا ہے اور اُس کے دامن میں وہ اجنبی بستی بھی جس میں قائم فیکٹری سے مسلسل دھواں اٹھتا رہتا ہے، یہاں سے وہ دھواں بھی آس پاس کی عمارتوں سمیت صاف اورواضح نظر آتا ہے۔دیکھو تو۔۔۔دریا کے بیچ یہ گھاس، دوردور سے بہہ کرآئی یہ گہری سبز سیلابی بوٹیاں، یہ بوٹیاں تمہاری طرف کے کنارے سے لگی بوٹیوں سے الگ ہیں۔۔۔یہ نیا نویلاجھاڑ جھنکار، یہ چھوٹی چھوٹی سی ننھی پیاری سیپیاں اورعجیب و غریب لکڑیوں کے بہہ کر آئے وہ ہلکے اورگہرے رنگوں کے ٹکڑے جو تمہیں پر اسرار سے اور کسی خزانے جیسے لگتے ہیں اور صاف شفاف میٹھے پانی کا مسلسل بہتا دھارا، یہ اتنا گہرا بھی نہیں، تم اسے آسانی سے پار کر سکتے ہو اورآگے ایک اور جزیرے پر قدم رکھ سکتے ہو۔اور ہاں،دوسرے کنارے تک بھی پہنچ سکتے ہو، کیچڑ، سانپوں اور کانٹوں کا ڈر بھی نہیں۔اور دیکھو یہ مویشی بھی تو ہیں جواس چھوٹے سے جزیرے پرچرتے پھرتے تمہیں دکھائی دیتے ہیں۔۔۔ اور۔۔۔تم ادھر کیوں نہیں آتے۔۔۔شاید تمہیں کوئی خزانہ مل جائے، کوئی بڑی انوکھے رنگوں والی سیپی یا شاید کوئی ایسی چیزجو کبھی کسی کو نہ ملی ہو؟ڈرو نہیں۔۔۔آؤ بھی!۔۔۔اب آ بھی جاؤ۔۔۔!!
جبکہ ریحان کی نظریں، بار بار قصبے سے دریا کو آتے راستے پر پڑ رہی تھیں۔اُس کوجیسے کسی کا انتظار تھا کہ کوئی آئے اور دریا میں اترے اور ریحان اُس کے پیچھے پیچھے چلتا جائے اور ڈگمگائے تو اُس کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کریا بازو پکڑ کے اپنا توازن قائم رکھ سکے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ پانی کی سطح کے اپنی کمر تک پہنچتے ہی واپس کنارے کی جانب بھاگ کھڑا ہو۔جیسا کہ ایک دو بار پہلے بھی ہو چکا تھا جب اُس نے دوستوں کے ساتھ دریا میں جانے کی کوشش کی تھی۔

ریحان اپنے دوستوں کے ساتھ ادھر آنے سے گھبراتا تھا کیوں کہ وہ بہت مغرور تھے اور بے شرم بھی،بات بات پر شرمندہ کرنے والے، مذاق اڑانے والے اوربیوقوفیوں کو بہادری کا نام دینے والے۔وہ ایسے ہی تھے محدود دلچسپیوں والے،بس معلوم کے شیدائی جبکہ ریحان کچھ الگ ساتھا۔اُس کا شرمیلا پن لیکن ساتھ ہی تجسس بھی حد سے بڑھا ہوا تھا۔اور اب وہ اپنی کسی بھی کوشش کی ناکامی میں کسی دوسرے کو شریک نہیں کرنا چاہتا تھا۔مگر وہ اس کے دوست ہی تھے جو کتنی ہی بار بیلے تک ہو آئے تھے۔ لیکن ڈوبتے بھی تو ایسے ہی لوگ ہیں؟یا پھر ڈوبنے والے ریحان جیسے ہوتے ہیں؟
اور پھر کوئی دکھائی دیا۔۔۔

وہ لڑکا،شاید کرکٹ گراؤنڈ والا تھا۔۔۔ریحان مخالف ٹیم کے اُس کھلاڑی کو پہچانتا تھا۔ لڑکے نے نلکے سے پانی پیا اورریحان کی موجودگی کو محسوس کیے بغیر یا شاید نظر انداز کر کے دریا میں اتر نے لگا۔جبکہ ریحان گھاس سے بھری ڈھلان پر قدرے اوٹ میں بیٹھا، اُسے دیکھ رہا تھا اور اپنی جگہ پر ساکت و جامد تھا۔گدلا مٹیالاپانی جلد ہی لڑکے کے گھٹنوں کو چھونے لگا اور اس کی رفتار میں ٹھہراؤ آنے لگا۔اب اُس کی کمر ریحان کی جانب تھی۔پانی اس کی کمر کو چھو رہا تھا۔لڑکے نے پانی کی سطح پر اپنے بازو پھیلا لیے اورانھیں مخصوص انداز میں حرکت دیتا،دھیرے دھیرے،قدرے زور لگا کر،خود کو آگے دھکیلتا، بیلے کی جانب بڑھ رہا تھا۔لڑکے کا دھڑ ہر قدم پرپانی میں تھوڑا تھوڑاگم ہو رہا تھا۔اور۔۔۔ریحان دیکھ رہا تھا۔۔۔اور پھرراستے کے بیچوں بیچ۔۔۔جب پانی اُس لڑکے کی گردن کو چھونے لگا۔۔۔تو ریحان نے دیکھا۔۔۔

ہاں دیکھا کہ وہ لڑکایکدم رک گیاتھا۔جیسے کسی نے اسے پتھر کا بنا دیا ہو۔یا پانی میں چھپے بہت سے ہاتھوں نے جیسے اسے جکڑ لیا ہو۔ سطح پرہلکی سی سرخی ابھرنے لگی تھی۔یا پھر شاید وہ ریحان کی آنکھوں کا دھوکا تھا؟ پانی کی سطح پر رکھا لڑکے کا سَر۔۔۔جسے ہلے بغیر اب کافی دیر ہوچکی تھی۔ریحان گردن تک خوف اور پسینے میں ڈوب چکا تھا۔ ساکت و جامد۔آواز بھی گم۔۔۔اور پھر اس نے دیکھا۔۔۔کہ لڑکے کا چہرہ اس کی جانب گھوم رہا ہے۔لیکن صاف محسوس ہو رہا تھا کہ صرف سَرگھوم رہا تھا باقی جسم نہیں۔۔۔وہ کون سی خفیہ طاقت تھی جو گردن کو الٹی سمت مروڑ رہی تھی۔وہ کیا تھا جو تڑخ رہا تھا۔اور سَرکے آس پاس پانی کی سطح پر لہو کے دائرے پھیل پھیل کر بہاؤ کی سمت بہنے لگے تھے۔۔۔وہ خوفناک اور پر اسرارمنظر ریحان کو کسی پہاڑ کی طرح پیسنے لگا۔ لرزہ اُس کے وجود پرایک ایک پل میں ہزارہزار بار طاری ہونے لگا۔کمر کی جانب گھوم کر،پانی پہ رکھا وہ چہرہ،اپنی آنکھوں میں پوری پوری دہشت ناکی سموئے ریحان کو گھورے جا رہا تھا۔۔۔اور پھر اچانک اُس لڑکے کا سَر شانوں سے اکھڑ گیا……ہاں!جیسے کسی نادیدہ طاقت نے سر اور دھڑ کو پوری قوت سے کھینچ کرجدا کردیا تھا۔۔۔اور پھربدن سے آزاد ہو کے وہ سَر،شاید ایک مختصر بھنور پہ سوار،پانی کی سطح پرگھومتے ہوئے بہاؤ کی سمت بہنے لگا۔جہاں دھڑتھا وہاں اب گرم اورتازہ لہو پوری رفتار سے ا بل رہا تھا اور درد ناکی وحشتوں کے ساتھ مل کرفلک شگاف قہقہے لگا رہی تھی۔۔۔ریحان کی نگاہوں کو خود سے چپکائے۔۔۔وہ بریدہ سَر۔۔۔ اُس کے بالکل سامنے سے بہہ کر گزرتے ہوئے جیسے ریحان کی گردن کو بھی بل دینے لگا۔اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کچھ دور جا کر گھڑپ کی بلند آواز کے ساتھ پانی کے بھیتر کہیں گم ہو گیا۔۔۔
دریا جان لیتاہے۔۔۔

ریحان دھول اڑاتا قصبے کی طرف دوڑا چلا جا رہا تھا۔وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا کہ دریا اپنا خراج کیسے وصول کرتا ہے۔ عقب سے آوازیں آ رہی تھیں جیسے کوئی اُسے پکار رہا ہو۔ وہ پکارشاید بیلے کی تھی۔آ جاؤ۔۔۔اب آ بھی جاؤ۔۔۔دیکھو تو۔۔۔اُس دن وہ گرتا پڑتا گھر پہنچا اور پھر کئی روز بخار میں پھنکتا رہا۔اُس کے سارے خو ف، تمام خدشے،اندیشے، ہر تشویش بجا تھی۔لیکن وہ کسی کو کچھ بھی نہ بتا سکا۔ نہ ہی بتا سکتا تھا کہ یوں دریا پر اکیلے آنا جانا بھی گھر والوں کے نزدیک کسی سنگین جرم سے کم نہیں تھا۔ریحان نے فیصلہ کیا۔

وہ اب دریا پر کبھی نہیں جائے گا۔۔۔ بیلہ کبھی نہیں دیکھے گا۔۔۔

چند دن یونہی گزر گئے،جان میں جان آئی تو ریحان سب سے پہلے کرکٹ گراؤنڈ گیا۔لیکن وہ کھیل نہیں پایا۔بس ایک طرف بیٹھا رہا۔اُس کے کان جیسے کچھ سننا چاہتے تھے۔کوئی غمناک اور سنسنی خیزخبر شاید۔۔۔وہ ہر چہرے کو غور سے دیکھ رہا تھا۔۔۔لیکن سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔گراؤنڈ میں لڑکے آ جا رہے تھے۔اور پھرکچھ دیر بعد جب گراؤنڈ میں ایک طرف لگے نلکے سے جھک کر وہ پانی پی رہا تھا توکسی لڑکے نے پیچھے سے آ کر،اُس کی کمر پر زور سے ہاتھ مارا۔ریحان نے غصے سے پلٹ کر دیکھا اور بری طرح لڑ کھڑا گیا۔ وہی کٹا ہوا سَر تھا۔ لیکن دھڑ سے جڑا ہوا تھا۔یہ تو وہی لڑکا تھا۔۔۔یہ کیسے ممکن تھا۔۔۔ریحان پھر سے ساکت و جامد تھا۔آواز گم۔۔۔”اُس دن دیکھا تھا میں نے تمہیں دریا پر۔ تم بھاگ کیوں گئے؟“دھڑ سے جڑا وہ سَر بولنے لگا۔”دریا میں پہنچ کر میں نے تمہیں دیکھا اورہاتھ ہلا ہلا کر تمہیں بلاتا رہا۔ تم پانی پر کیا دیکھ رہے تھے؟ میں نے تمہیں کتنی آوازیں دیں یار؟۔۔۔کیسے پاگلوں کی طرح بھاگ رہے تھے تم؟“لڑکا زور زور سے بول رہا تھا، تفصیلات بتا رہا تھا اور ہنسے جا رہا تھا۔۔۔پانی پینے کے لیے اکٹھے ہوئے دیگر لڑکے بھی معاملے میں دلچسپی لینے لگے تھے اور ریحان کو دیکھ دیکھ کرہنس رہے تھے۔۔۔اورپل بھر میں ریحان کا دماغ جیسے۔۔۔بکھرنے لگا۔۔۔ہاں! جیسے۔۔۔ ٹکڑے ٹکڑے ہونے لگا تھا۔
اور پھر۔۔۔

اُس روز، دریا کنارے لگے نلکے سے ہاتھ منہ پیر دھو کر ریحان ایک بارپھر سے گھاس پرجا بیٹھا تھا۔۔۔
 

جواد حسنین بشر
About the Author: جواد حسنین بشر Read More Articles by جواد حسنین بشر: 5 Articles with 13229 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.