دنیا ابھی اچھے لوگوں سے خالی نہیں ہوئی

معاشرے میں اکثر محبت کے والہانہ جذبات کو مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا جاتاہے ‘عورت بیمار ہوئی تو شوہر اس سے دور بھاگتا ہے ‘ سسرالی رشتے داریہ کہہ کر طنز اور تشنیع کے نشتر چبھتے ہیں کہ دلہن بیماری میکے سے ہی لے کر آئی ہے ۔اب ہمیں بھی بیماری لگائے گی ‘ دلہن بن کرسسرال آنے والی لڑکیوں کے دل میں نہ جانے اور کیا کیا ارمان ہوتے ہیں ‘ لیکن سسرالی گھر کی دہلیز پار کرتے ہی وہ ارمان خاک میں ملجاتے ہیں ۔آجکل کے حالات میں لڑکے پہلے ہی اپنی آنکھوں میں بے شمار لڑکیوں ( محبوبہ) کی تصویریں بسائے پھرتے ہیں جبکہ شادی کے بعد اپنی بیوی کو پاؤں کی جوتی تصورکرکے اس کی زندگی اجیرن بنا دیتے ہیں ۔ ساس ‘ سسر بھی بہو کو خزانے کی کان تصور کرکے لڑکی والوں سے ہر اس چیز کا تقاضا کرتے ہیں جو ان کی حوس کو تسکین بخشے۔ میرے مشاہدے میں کتنے ہی ایسے واقعات موجود ہیں جہاں لڑکے والے لڑکی والوں کو یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ لڑکا باہر جانے کاشوق رکھتا ہے ‘ اسے باہر بجھوانے کا انتظام کریں ‘ اگر انکار کیاجائے تو شادی سے ہی انکار کردیاجاتا ہے اگر شادی ہو بھی جائے تو لڑکی کا جینا حرام کردیاجاتاہے ۔اسی حوالے سے ایک سبق آموز واقعہ میرے مشاہدے میں آیا جسے میں اپنے قارئین سے شیئر کرنا ضروری سمجھتاہوں ۔عمار اور زینب 2011ء میں سوفٹ ویئر انجینئرنگ کے لیے یونیورسٹی میں داخل ہوئے‘ ساتھ پڑھتے پڑھتے عمار کو زینب سے محبت ہوگئی ۔ اگر محبت دونوں جانب سے ہو تو پھرصدیوں کے فاصلے منٹوں میں طے ہوجاتے ہیں ۔ دونوں میں عہد و پیمان ہوئے تو بات گھروالوں تک جاپہنچی ۔ بیٹے کے اصرار پر عمار کی والدین راضی ہوگئے دونوں خاندانوں کی جانب سے شادی کی تاریخ بھی مقرر کر دی گئی ۔ شادی کے انتظامات زور شور سے جاری تھے ‘ زینب کے لیے فینسی سوٹ خریدے جارہے تھے ‘شادی حال کی بکنگ بھی ہوچکی تھی ‘ خاندان والوں کو شادی میں شرکت کے دعوت نامے بھی بھجوائے جاچکے تھے‘ عمار نے یورپی ممالک میں موجوداپنے بھائیوں کو بھی اپنی شادی کی اطلاع کردی تھی ‘وہ بھی آنے کے لیے تیار ہورہے تھے ۔نکاح سے دس دن پہلے اچانک زینب بیمار ہوگئی۔ اسے فوری طور پر ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیاجب زینب کی تکلیف کم نہ ہوئی تو ڈاکٹر نے کچھ ٹیسٹ لکھ دیئے ۔جب ٹیسٹوں کی رپورٹ آئی تو پتہ چلا کہ زینب کو بلڈ کینسرکا مرض لاحق ہے ‘جب یہ منحوس خبر عمار تک پہنچی تو اس نے انکار کرنے کی بجائے ایک اچھے انسان کی طرح یہ کہہ دیا کہ اب شادی کروں گا تو صرف زنیب سے ورنہ ساری زندگی کنوارا رہوں گا۔عمار کو عزیز و اقارب اوررشتے داروں نے بہت روکا کہ آنکھوں سے دیکھ کرکو ئی مکھی نہیں کھا تا ۔بلڈکینسر موت کا دوسرا نام ہے کیوں اپنے آپ کو مصیبتوں اوراذیتوں کا شکار کررہے ہو۔یہ اس قدر موذی بیماری ہے جس کا علاج بہت طویل اور مہنگا ہے ‘ اس لیے بہتر ہوگا‘ شادی سے انکار کردیا جائے‘ ابھی تو نکاح بھی نہیں ہوا ۔ عمار نے دنیا کے بہکاوے میں آنے کی بجائے مقررہ تاریخ کو ہی سادگی سے زینب سے نکاح کرلیا ۔ نکاح کے بعد جب عمار ‘ زینب کو لے کر شوکت خانم ہسپتال پہنچا تو پتہ چلا کہ جو مرض زنیب کو لاحق ہے اس کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں۔ علاج کے لیے چین جانا پڑے گا۔ وہاں رابطہ کیا گیا تو اخراجات کا تخمینہ 7کروڑ پاکستانی روپے بتایا گیا ۔ایک جانب زینب کی بیماری تو دوسری جانب اتنی بڑی رقم کا انتظام کرنا ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور تھا ۔اس بات کی خبر جب عمار کے ان بھائیوں تک پہنچی جو یورپی ممالک میں کاروبار کررہے تھے تو انہوں نے عمار کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا ہم آپ کے جذبہ ایثار کی قدر کرتے ہوئے اپنا کاروبار فروخت کر کے جتنے پیسے میسر آئے ‘ زینب کے علاج کے لیے اپنے ساتھ لے کر پاکستان آ رہے ہیں ۔ٹارگٹ پھر بھی پورا نہ ہوا تو زینب اور عمار کی والدہ کے پاس جتنے زیوارت تھے ‘انہیں فروخت کرنے کا فیصلہ ہوا ۔ مطلوبہ رقم اکٹھی کرکے زینب کا چین کی جدید ترین ٹیکنالوجی سے علاج ممکن ہوا ۔ نیت ٹھیک ہو تو اﷲ تعالی کی تائید و حمایت بھی پہنچ جاتی ہے ۔چین میں زینت کا علاج مسلسل دو ماہ تک جاری رہا ۔ اب ماشاء اﷲ زینب بالکل ٹھیک ہوچکی ہے صرف دو سال مزید ادویات کا استعمال کرنا ہوگا پھر ایک خوبصورت زندگی عمار اور زنیب کی راہ دیکھ رہی ہے۔جب یہ کہانی برادر م ذوالکفل وڑائچ کے توسط سے مجھ تک پہنچی تو میری بھی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ بے شک دور حاضر میں جبکہ انسان اس قدر خود غرض ہوچکا ہے کہ اسے اپنی ذات کے علاوہ اور کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔لیکن اب بھی دنیا اچھے اور نیک لوگوں سے خالی نہیں ہوئی جو دوسروں کے دکھ کو بھی اپنا ہی دکھ سمجھتے ہیں ۔میں سمجھتا ہوں عمار بذات خود ایک عظیم انسان کے روپ میں ابھر کر سامنے آیا جبکہ عمار کے والدین اور بھائیوں کے جذبہ ایثار کو نہ سراہنا زیادتی ہوگی ۔ جنہوں نے اپنا مال و دولت سب کچھ زنیب کے علاج پر خرچ کرکے ایک ایسی مثال قائم کی جس کی بطور خاص ہمارے معاشرے میں بہت کم دکھائی دیتی ہے ۔

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 802 Articles with 785321 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.